اعتمرنا ایپلی کیشن : عمرہ اور زیارت کا اجازت نامہ کیسے حاصل ہو گا ؟

سعودی وزارت حج وعمرہ نے کہا ہے کہ عمرہ اور زیارت کی مرحلہ وار بحالی کا آغاز اندرون ملک سے شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں سے ہو گا۔ عمرہ اور زیارت کے خواہشند افراد ’اعتمرنا‘ ایپلی کیشن سے اجازت نامہ حاصل کریں گے۔ سبق ویب سائٹ کے مطابق وزارت نے کہا ہے کہ ’اعتمرنا ایپلی کیشن 10 صفر بمطابق 27 ستمبر سے لا نچ کی جائے گی اور موبائل صارفین اسے ڈاؤن کر سکیں گے‘۔ ’ایپلی کیشن کے ذریعہ عمرہ یا مسجد نبوی شریف کی زیارت کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنے کا طریقہ کار یہ ہو گا کہ سب سے پہلے خود کو شناختی کارڈ یا اقامہ نمبر کے ذریعہ رجسٹر کرنا ہو گا‘۔ ’ایپلی کیشن میں تین آپشن دیئے جائیں گے، عمرے کی ادائیگی، حرم میں نماز یا مسجد نبوی شریف کے روضہ اطہر میں نماز کی ادائیگی، ان میں سے کسی آپشن پر کلک کرنا ہو گا‘۔

’بعد ازاں دستیابی کو دیکھتے ہوئے صارف کو دن اور وقت کا آپشن دیا جائے گا جسے پسند کرنے کے بعد طے شدہ دن اور وقت پر صارف کو مکہ مکرمہ میں قائم کیے جانے والے مراکز میں جمع ہونا ہو گا‘۔ ’ان مراکز کی تفصیل اور مقامات بعد ازاں جاری کی جائیں گے۔ یہاں پہنچ کر موجود اہلکار کو اپنا اجازت نامہ دکھانا ہو گا‘۔ ’حفاظتی واحتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے اور ہدایات کی پابندی کے ساتھ عمرہ ادا کرنا ہو گا‘۔ ’عمرہ کی ادائیگی کے بعد دوبارہ اسی مرکز کی طرف واپس آنا ہو گا‘۔ وزارت نے کہا ہے کہ ’صارف عمرہ کی ادائیگی کے بعد مکہ مکرمہ کے کسی ہوٹل میں قیام کرنا چاہے تو اسے اختیار ہو گا البتہ حرم میں نماز کی ادائیگی کے لیے اسے اجازت نامہ حاصل کرنا ہو گا‘۔ ’حرم مکی شریف کے حوالے سے یہ ضابطہ مکہ مکرمہ کے رہائشیوں پر لاگو ہو گا۔ وہ اگر حرم میں نماز ادا کرنا چاہیں تو انہیں اس کے لیے اجازت نامہ لینا ہو گا‘۔

بشکریہ اردو نیوز

کورونا وائرس کے بحران میں حج کیسا ہو گا، ضوابط کیا ہیں؟

مکہ گورنریٹ اور وبائی امراض سے بچاؤ اور انسداد کے لیے قائم قومی مرکز نے اس سال حج سے متعلق صحت ضوابط جاری کیے ہیں۔ العربیہ نیٹ کے مطابق 18 جولائی 2020، 28 ذیقعد سے 12 ذی الحج تک منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں اجازت کے بغیر جانا منع ہو گا۔ حج پر جانے والوں اور حج کرانے والوں کو حفاظتی ماسک اور دستانے پہننا ہوں گے۔ سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ہو گا۔ عازمین رابطے کے وسائل، ملبوسات، سر کے بال تراشنے، مونڈنے، داڑھی بنانے والے آلات اور ایک دوسرے کے تولیے استعمال نہیں کر سکیں گے۔ نمازی ایک دوسرے سے دو میٹر کے فاصلے کی پابندی کریں گے لفٹ استعمال کرتے وقت سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ہو گا۔ ذاتی صفائی کا ہر حاجی کے لیے دھیان رکھنا ضروری ہوگا۔ سینیٹائزر نمایاں مقامات پر رکھنا ہوں گے۔

رہائشی عمارتوں اور ہوٹلوں میں بیٹھنے اور انتظار کرنے کی جگہوں کو مسلسل سینیٹائز کیا جائے گا۔ دروازوں کے ہینڈل، کھانے کی میز، کرسیوں اور صوفوں کے ہتھے سینیٹائز کیے جائیں گے۔ جماعت کے ساتھ نماز کی اجازت ہو گی تاہم نماز کے دوران ماسک پہننا لازمی ہو گا۔ نمازی ایک دوسرے سے دو میٹر کے فاصلے کی پابندی کریں گے۔ کولرز ہٹا دیے جائیں گے۔ مسجد الحرام، منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں کولرز ہٹا دیے جائیں گے۔ پانی پینے یا زمزم کے استعمال کے لیے ایسی بوتلیں اور ڈبے استعمال کیے جائیں گے جو صرف ایک مرتبہ کے بعد غیر موثر ہو جائیں۔ صفا و مروہ کی سعی کرنے والوں کے درمیان سماجی پابندی کرائی جائے گی کھانا تیار کرنے، پیش کرنے سے قبل حمام سے نکلنے کے بعد رفقائے کار یا مسافروں کو چھونے یا براہ راست رابطے کے بعد صابن اور پانی سے کم از کم بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھونا ہوں گے

کھانے پینے میں استعمال ہونے والے برتن دوبارہ استعمال نہ کیے جائیں- کھانے بند پیکٹوں میں ہوں گے۔ بسوں میں مسافروں کی تعداد متعین ہو گی- پورے سفر کے دوران ہر حاجی کی نشست متعین ہو گی- کسی بھی حاجی کو بس میں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں ہو گی- ڈرائیوروں اور تمام مسافروں کو بس میں سفر کے دوران ماسک اتارنے کی اجازت نہیں ہو گی- میدان عرفات اور مزدلفہ میں مخصوص مقامات پر قیام کی پابندی کرنا ہو گی- عبادت کے دوران حاجیوں کو ماسک اتارنے کی اجازت نہیں ہو گی- تمام حجاج ماسک اور سینیٹائزر رکھنے کے پابند ہوں گے  حاجیوں کو بند پیکٹوں والے کھانے پیش کیے جائیں گے

خانہ کعبہ اور حجر اسود کو چھونا منع
طواف کے لیے مطاف جانے والوں کی قافلہ بندی ہو گی- طواف کے دوران ہر حاجی کو دوسرے حاجی سے کم از کم ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ برقرار رکھنا ہو گا- طواف کے عمل کو منظم کیا جائے گا- صفا و مروہ کی سعی ہر منزل سے ہو گی- اس حوالے سے سعی کرنے والوں کے درمیان سماجی فاصلے کی پابندی کرائی جائے گی- خانہ کعبہ یا حجر اسود کو چھونا منع ہو گا- چھونے اور چومنے سے روکنے کے لیے رکاوٹیں رکھی جائیں گی۔ اس پر عمل درآمد کے لیے نگراں تعینات ہوں گے- آب زمزم کے کولرز کے پاس اژدحام منع ہو گا۔ سماجی فاصلے کی پابندی کرانے کے لیے علامتیں نصب ہوں گی۔ کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے شبے پر الگ گروپ میں رکھا جائے گا اپنی جانماز لانا ہو گی۔ مسجد الحرام میں کھانے کی اشیا لانے پر پابندی ہو گی اور خارجی صحنوں میں کھانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ طواف کی جگہ اور صفا و مروہ کے علاقے کو حاجیوں کے ہر کارواں کے بعد سینیٹائز کیا جائے گا- مسجد الحرام سے قالین اٹھا لیے جائیں گے۔ ہر حاجی کو اپنی جانماز استعمال کرنے کی تاکید کی جائے گی۔ وہیل چیئر ہر حاجی کے استعمال کے بعد سینیٹائز کی جائے گی۔

کورونا کا شبہ ہونے پر الگ گروپ
اخبار 24 نے وبائی امراض سے بچاؤ اور انسداد کے لیے قائم قومی مرکز کی جاری کردہ صحت ایس او پیزکے حوالے سے بتایا ہے کہ اہم ترین ضابطہ یہ طے کیا گیا ہے کہ اگر کسی حاجی کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا شبہ ہو جائے اور طبی معائنے کے بعد میڈیکل رپورٹ سے بھی یہ بات واضح ہو جائے تو اسے حج مکمل کرنے کا موقع دیا جائے گا البتہ اس قسم کے حجاج کا ایک خاص گروپ بنایا جائے گا۔ ان کے لیے عمارت یا فلیٹ کا الگ سے انتظام ہو گا۔ بس خاص ہو گی اور حج مقامات پر انہیں دیگر حاجیوں سے الگ تھلگ رکھا جائے گا۔ وبائی امراض سے بچاؤ اور انسداد کے قومی مرکز نے بھی ایس او پیز جاری کیے ہیں
دوسرا اہم ضابطہ یہ ہے کہ ایسے کسی بھی شخص کو حج مقامات پر حج کی اجازت نہیں دی جائے گی جس پر انفلوائنزا جیسی علامتیں نمودار ہو گئی ہوں۔ ایسے کسی بھی شخص کو علامتیں ختم ہونے تک حج مقامات پر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اجازت نامے کے لیے اسے ڈاکٹر سے فٹنس سرٹیفیکیٹ لینا ہو گا۔ قومی مرکز نے رہائشی عمارتوں، کھانے پینے کے مقامات، بسوں، باربر شاپس، عرفات، مزدلفہ، مسجد الحرام، صفا و مروہ سے متعلق تمام ضروری ضوابط مقرر کر دیے ہیں

رمی کے لیے سینیاٹائز کنکریاں
قومی مرکز کے مطابق منیٰ میں جمرات کی رمی کے لیے سینیٹائز کنکریاں فراہم کی جائیں گی۔ منیٰ میں 10، 11، 12 اور 13 ذی الحج کو حجاج رمی جمرات کرتے ہیں۔ جمرات کی رمی کے حوالے سے طے کیا گیا ہے کہ 50 افراد پر مشتمل ایک گروپ کو ہر منزل پر رمی کے لیے جانے کی اجازت دی جائے گی۔ رمی کرتے وقت ڈیڑھ سے دو میٹر تک کا فاصلہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔ کسی بھی خیمے میں 10 سے زیادہ حاجیوں کو ٹھہرانے کی اجازت نہیں ہو گی منیٰ میں جمرات کی رمی کرتے ہوئے تمام حجاج اور کارکنان کے لیے حفاظتی ماسک اور سینیٹائزر رکھنے کی پابندی کرنا ہو گی۔ خیمے میں دس سے زیادہ حجاج نہیں ہوں گے۔ کسی بھی خیمے میں 10 سے زیادہ حاجیوں کو ٹھہرانے کی اجازت نہیں ہو گی اور ہر خیمہ 50 مربع میٹر کا ہو گا۔ منیٰ میں باربر شاپس کھولی جائیں گی۔ باربرز پر پابندی ہو گی کہ وہ ہر حاجی کا سر مونڈنے یا بال کاٹنے کے بعد تراشنے اور مونڈنے میں استعمال ہونے والے آلات تلف کر دے۔

بشکریہ اردو نیوز

حج کو محدود رکھنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا ؟

سعودی حکومت نے آئندہ ماہ حج کی ادائیگی کی اجازت دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ کورونا کے باعث 1441 ہجری یعنی 2020 عیسوی کیلئے عازمین حج کی تعداد کو محدود رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، صرف ان غیر ملکی شہریوں کو حج کی اجازت ہو گی جو پہلے سے سعودیہ میں مقیم ہیں۔ صحت عامہ کے پیش نظر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کی جانیں بچانے کی غرض سے سماجی فاصلے اور دیگر تمام ضروری اقدامات کو یقینی بنایا جائے گا۔ پاکستان کی وزارت مذہبی امور بھی سعودی حکومت کے فیصلے کی پریس ریلیز جاری کر چکی ہے۔ کورونا قہر بن کر دنیا پر ٹوٹا اور اس کے پھیلائو کی وجہ سامنے آئی تو نہ صرف مصر کی جامعہ الازہر بلکہ دنیا بھر کے علماء کرام نے مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے بارے رائے دی کہ جماعت واجب جبکہ جان بچانا فرض ہے چنانچہ مسلمان گھروں میں نماز پڑھیں۔ مارچ میں جب یہ وبا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر ہزاروں افراد کو لقمہ اجل بنا رہی تھی سعودی حکومت نے مقامات مقدسہ بند کر کے دنیا بھر سے استدعا کی تھی کہ حج کی تیاریوں کو موخر کر دیا جائے۔

انڈونیشیا اور ملائشیا نے اپنے شہری نہ بھیجنے کا باقاعدہ اعلان بھی کیا تھا۔ جہاں تک حج کی بات ہے کوئی شک نہیں کہ یہ ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہو تاہم یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ یہ سفر نصیب پر منحصر ہے۔ رپورٹس کے مطابق گزشتہ برس قریباً 25 لاکھ مسلمانوں نے حج کیا اب اگر اتنی بڑی تعداد کو دیکھا جائے تو یقیناً کورونا سے بچائو کے مکمل انتظامات ممکن نہیں بلکہ جتنے لوگ اس سال حج کریں گے ان کے لئے بھی حفاظتی اقدمات آسان نہ ہوں گے۔ خدائے بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ وہ سب حاجیوں کو محفوظ رکھے اور دنیا سے اس وبا کا مکمل خاتمہ کر دے تاکہ آئندہ سال ہم رمضان المبارک کے فیوض و برکات بھی سمیٹیں اور حرمین شریفین کی حاضری بھی خوش نصیبوں کا مقدر بنے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

گھروں میں نماز عید کیسے ادا کریں ؟

سعودی عرب میں میں عید الفطر کے موقع پر اگرچہ مساجد میں تکبیروں کی اجازت دی گئی ہے تاہم عوام الناس کو ہدایت کی گئی ہے کہ گھروں میں ہی نماز عید ادا کریں اور سماجی فاصلوں کے اصول پر سختی سے عمل کریں. ادارہ امور حرمین کی جانب سے گھروں میں نماز عید ادا کرنے کے طریقے کی وضاحت انفوگراف کے ذریعے کی گئی ہے. ویب نیوز ’سبق ‘ کے مطابق ادارہ امور حرمین شریفین نے مملکت کے شہریوں اورمقیم غیر ملکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سال مملکت اور دنیا کو جس وبائی مرض کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کے لیے لازمی ہے کہ سماجی فاصلوں کی دوری کے اصول پر سختی سے عمل کیا جائے. ادارے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’ہر کوئی اپنے اہل خانہ کے ساتھ نماز عید ادا کرے.

نماز عید گھروں میں ادا کرنے کےلیے خطبہ نہیں دیا جائے صرف نماز اضافی تکبیروں کے ساتھ ادا کی جائے. نماز فجر کی ادائیگی کے بعد طاق تعداد (ایک ، تین ، پانچ) کھجور کھانا بھی سنت ہے. گھر میں مصلے پر بیٹھ کر تکبیریں پڑھتے رہیں. نماز عید کا وقت سورج نکلنے کے 15 منٹ بعد شروع ہوتا ہے اور زوال تک جاری رہتا ہے. نماز عید میں اضافی تکبیر ہوتی ہیں جن میں تکبیر تحریمہ یعنی نماز کی نیت کی تکبیر کے ساتھ 6 اضافی تکبیریں کہنی ہیں اس کے بعد سورۃ الفاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھی جائے. دوسری رکعت میں 5 تکبیریں ہوں گی اور اس کے بعد سورہ الفاتحہ اور کوئی سورہ پڑھنے کے بعد دوسری رکعت مکمل کی جائے. گھروں میں نماز ادا کرنے کے بعد خطبہ عید نہیں ہو گا کیونکہ خطبہ عید کے لیے اجتماع کی شرط ہے. عام طور پر خطبہ عید میں معاشرے کو درپیش مسائل کے جانب اشارہ کر کے ان کے حل کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے

Celebrating Eid al-Fitr During A Pandemic

Eid al-Fitr celebrations mark the end of Ramadan, the Muslim holy month that has been altered by coronavirus restrictions on group prayers and public iftars.