Celebrating Eid al-Fitr During A Pandemic

Eid al-Fitr celebrations mark the end of Ramadan, the Muslim holy month that has been altered by coronavirus restrictions on group prayers and public iftars.

Celebrating Ramadan During A Pandemic

During the holy month of Ramadan, Muslims the world over join their families to break the fast at sunset and go to mosques to pray. But the pandemic has changed priorities, with curbs on large gatherings for prayers and public iftars.

کورونا وائرس : انسانیت کے لیے لمحۂ فکر

سورۃ بقرہ کی چند آیات میں ﷲ تعالیٰ کے ارشاد گرامی کا مفہوم ہے: ’’اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے، کچھ ڈر اور بھوک سے، اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوش خبری سُنا دیجیے اُن صبر کرنے والوں کو کہ جب اُن پر کوئی مصیبت پڑے تو کہیں کہ ہم ﷲ کے مال ہیں اور ہم کو اُسی کی جانب واپس لوٹنا ہے، یہ لوگ ہیں جن پر اُن کے رب کی عنایات ہیں اور رحمت اور یہی لوگ صحیح راہ پر ہیں۔‘‘ آج کل مشرق سے مغرب اور شمال سے جنوب تک دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جو کورونا وائرس کی تباہی سے متاثر نہ ہوا ہو۔ یہ ایک مہلک ترین اور جان لیوا وبا ہے، پھر اس بحران سے متعلق تازہ ترین اعداد و شمار نے پوری دنیا کو خوف و ہراس اور مایوسی کی ہیجانی کیفیت میں مبتلا اور ایک غیر یقینی صورت حال سے دوچار کر دیا ہے۔

انسان کی زندگی میں کبھی غم تو کبھی خوشی، کبھی غربت تو کبھی ثروت، کبھی امن و آشتی تو کبھی بدامنی اور کبھی صحت و تن درستی تو کبھی بیماری کی کیفیت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ یہ سب اتار چڑھاؤ ﷲ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے۔ ان آزمائشوں کو صبر و تحمل اور توکل علی ﷲ کے ساتھ برداشت کرنا ایک مسلمان کا عقیدہ ہے لیکن زندگی کی حفاظت کرنا، علاج کرنا اور احتیاطی تدابیر اختیار کرنا بھی بہ حیثیت مسلمان ہمارا اولین فریضہ ہے پھر ﷲ تبارک و تعالیٰ سے اچھی امید رکھنا بھی ضروری ہے۔ ایک جائزے کے مطابق 97 فی صد مریض صحت یاب بھی ہو جاتے ہیں۔

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ﷲ تعالیٰ نے انسان کو احسن تقویم کے ساتھ پیدا کیا پھر اس کو اشرف المخلوقات کے شرف سے نوازا۔ اس اعلیٰ منصب پر فائز کرنے کی وجہ علم تھی، علم ہی کی وجہ سے فرشتوں نے حضرت آدمؑ کو سجدہ کیا۔ پھر یہ دعا بھی سکھا دی گئی کہ ﷲ تعالیٰ علم نافع دے لیکن جب انسان علم نافع کے بہ جائے نقصان دہ علم کی طرف بڑھنے لگا یعنی علم کا استعمال بنی نوع انسان کی تباہی و ہلاکت کا سبب بننے لگا اور انسانی جان کے لیے مہلک ترین ہتھیاروں، بایولوجیکل ہتھیاروں اور زہریلی گیسوں کی ایجادات کی دوڑ میں لگ گیا۔ پھر نام نہاد سپر پاور بننے کا خواب، دنیا کی قابل تسخیر قوت اور پوری دنیا پر غلبہ پانے اور حکم رانی کی خواہش کرنے لگا تو انسانیت حیوانیت میں تبدیل ہو گئی اور انسانی جانوں کے اوپر ظالم و جابر حکمران مسلط ہو کر ظلم و بربریت، ناروا سلوک، قتل و غارت گری، عصمت دری، انسانیت کی تذلیل اور بے حرمتی اور ملک بدری سمیت لغت کے تمام الفاظ ناکافی لگنے لگے۔

انسان کو کسی تکلیف کا اندازہ اسی وقت ہوتا ہے جب وہ خود اس تکلیف کا شکار ہو جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے روزے دار کو غریبوں کی بھوک پیاس کا اندازہ ہو جاتا ہے یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ جب کشمیریوں کے نہتے معصوم شہریوں کو کرفیو لگا کر قید کر دیا گیا تو پوری عالم انسانیت حتیٰ کہ کئی مسلمان حکم ران بھی خاموش تماشائی بن گئے اور ظالم و جابر حکم ران کے خلاف ایک لفظ بھی منہ سے نہ نکالا۔ ہمارے پیارے نبی آخرالزماں محمدؐ نے چودہ سو سال پہلے ہی بتا دیا تھا، مفہوم: ’’جب لوگ ظالم کو ظلم کرتا ہوا دیکھیں اور روکنے کی کوششیں نہ کریں تو ﷲ کی طرف سے عمومی عذاب اترتا ہے۔‘‘ ابوداؤد۔ حدیث نمبر 4338

اب مندرجہ بالا حدیث کی روشنی میں پوری انسانیت خصوصی طور پر ملت اسلامیہ اپنا محاسبہ خود کرے کہ کیا ایسا ہی نہیں ہوا کہ خالق کائنات نے ایک چھوٹے سے جرثومے سے غفلت میں ڈوبی دنیا کو بیدار کر دیا اور ہمیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔ بڑی سے بڑی طاقتوں کو زیر اور بے بس کر دیا۔ ترقی کا سارا غرور خاک میں ملا دیا، بڑے سے بڑے سائنس دان اور ان کے جدید طبی آلات و ادویات سب بے سود نظر آتی ہیں اور اب خود ہی پوری دنیا نے کرفیو لگا کر اپنے آپ کو مقید کر دیا۔ نہ اس کورونا وائرس کی ابتداء کا پتا نہ انتہا کا اور نہ ہی انجام کا۔ تمام بنی نوع انسان اس کی تباہی کا شکار ہو گئی۔ پھر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ آج انسان کی حیثیت جانور سے بھی بدتر ہو گئی ہے کہ وہ تو آزاد بغیر متاثر ہوئے پھر رہے ہیں اور انسان جس کو ﷲ تعالیٰ نے عقل و شعور اور علم کی وجہ سے اشرف المخلوقات کے اعلیٰ منصب پر فائز کیا تھا آج اپنے ہی اعمال کی وجہ سے مظلوم و مقید ہو گیا ہے۔

اس چھوٹے سے ان دیکھے جرثومے نے گنجان آباد شہروں کو بے رونق و ساکت کر دیا۔ نہ اونچی اونچی عمارتیں محفوظ نہ مضبوط سے مضبوط قلعے و محل محفوظ۔ ترقی یافتہ انسان بھی ساکت و بے بس ہو گیا۔ قرآن کریم میں سابقہ امتوں کی تباہی پر آنے والی سزاؤں کی وجہ بھی ان کے ہی گناہ تھے۔ قرآن میں ان کے بارے میں فرمان ہے، مفہوم: ’’پھر ہم نے، ہر ایک کو اس کے گناہ کی وجہ سے سزا دی تھی، ان میں سے بعض پر ہم نے پتھروں کی بارش برسائی اور ان میں سے بعض کو زوردار سخت آواز نے دبوچ لیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور ان میں سے بعض کو ہم نے پانی میں غرق کر دیا۔ ﷲ تعالیٰ ایسا نہیں کہ ان پر ظلم کرے بل کہ یہی لوگ اپنی جانوں پر ظلم (یعنی گناہ اور شرک) کرتے تھے۔

سورۃ انعام آیت نمبر 48 مفہوم درج کیا جاتا ہے: ’’اور جو لوگ ہماری آیتوں کو جھٹلاتے ہیں ان کو عذاب اس وجہ سے پہنچے گا کہ وہ نافرمانی کرتے ہیں۔‘‘ یعنی جب ﷲ تعالیٰ کی قائم کردہ حدود کو پامال کیا جاتا ہے۔ حلال کو حرام اور حرام کو حلال کیا جانے لگتا ہے تو پھر ﷲ تعالیٰ کا عذاب نازل ہوتا ہے۔ فی زمانہ ہمارا پہناوا، رہن سہن کے طریقے اور شادی بیاہ کی رسومات سب کچھ تو خلاف شرع ہوتا ہوا نظر آتا ہے اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہتے ہیں۔ یعنی امر بالمعروف و نہی عن المنکر سے بھی ہم غافل ہو چکے ہیں۔ معاشرے میں بے حیائی عام ہو چکی ہے۔ عفت و حیا اسلامی اخلاق کی بنیادی صفت میں سے ہے جیسا کہ سرور کائنات نے فرمایا، مفہوم: ’’ہر دین کے کچھ اخلاق ہیں اور اسلام کا اخلاق حیا سے ہے۔

ایک اور موقع پر آپؐ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب تُو حیا کھو دے تو جو مرضی میں آئے کر۔‘‘ یعنی حیا اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں جب ایک اٹھ جاتا ہے تو دوسرا بھی اٹھ جاتا ہے۔ اور انسان وحشی درندے کی مانند ہو جاتا ہے۔ حیا کا ہی تقاضا ہے کہ انسان اپنے منہ کو فحش باتوں سے پاک رکھے اور بے حیائی کی بات زبان پر نہ رکھے۔ اب ہمارے لیے یہ نعرہ لمحہ فکریہ ہے جس کا گزشتہ دنوں بڑا چرچا تھا ’’میرا جسم میری مرضی‘‘ کہنے والے ہمارا خالق و مالک ﷲ ہے اسی کی مرضی اور حکم چلے گا ہماری کیا مجال اور بساط کے ہم منہ سے ایسی فحش بات نکالیں؟ یہ سراسر ﷲ کی حدود کو توڑنا ہی تو ہے۔ حضور پاکؐ نے 14 سو سال پہلے ہی فرما دیا تھا، مفہوم: ’’جس قوم میں بے حیائی عام ہو جائے تو ﷲ تعالیٰ ان پر ایسی بیماریاں مسلط فرماتے ہیں جس کا تصور ان کے اسلاف میں نہیں ہوتا۔‘‘ سنن ابن ماجہ 4019

ہمارے حالات میں ہمارے اعمال کا ضرور دخل ہوتا ہے۔ سورۃ انعام آیت 65 مفہوم: ’’کہو وہ ﷲ اس پر قادر ہے کہ تم پر کوئی عذاب اوپر سے نازل کر دے یا تمہارے قدموں کے نیچے سے برپا کر دے یا تمہیں گروہوں میں تقسیم کر کے ایک گروہ کو دوسرے گروہ کی طاقت کا مزہ چکھوا دے۔‘‘ مذکورہ آیات کا مفہوم تو آج کل کے حالات پر بالکل صادق آتا ہے۔ یہ ﷲ کا عذاب ہی تو ہے جو ایک چھوٹے سے جرثومے سے ہمارے ہی قدموں کے نیچے سے پھیل رہا ہے۔ پھر پوری دنیا کے ممالک ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش میں مہلک ترین ہتھیار بنانے میں پوری طاقت و توانائی صرف کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بات بھی ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ﷲ تعالیٰ کی رحمت ہمارے گناہوں پر غالب ہے وہ تو ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے پھر مایوسی کفر ہے۔

ہمیں چاہیے کہ اپنے حقیقی مالک و آقا کی طرف پلٹ آئیں۔ شاید ہمارا مالک و آقا ہم سے ناراض ہو گیا ہے۔ یہ عذاب کسی کے لیے سخت بے چینی تو کسی کے لیے ﷲ کی طرف رجوع ہونے، توبہ و استغفار کرنے، خالق کی قربت اختیار کرنے اور مخلوق خدا کی خدمت کر کے ثواب کمانے کا ذریعہ ہے۔ خالق کائنات تو قرآن پاک میں جگہ جگہ دعوت دیتا ہے کہ میرے بندوں میری طرف رجوع کر لو کہ میں معاف کروں۔ سورۃ انعام کی آیت کا مفہوم: ’’جو شخص تم میں سے بُرا کام جہالت سے کر بیٹھے پھر وہ اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کر لے تو ﷲ کی یہ شان ہے کہ وہ بڑی مغفرت والا بڑی رحمت والا ہے۔

ہم سب کو اس مصیبت کی گھڑی میں خلوص دل کے ساتھ توبہ استغفار زیادہ سے زیادہ کریں، اپنی اصلاح کریں پختہ عزم کے ساتھ اس کے علاوہ زیادہ سے زیادہ صدقہ و خیرات کا اہتمام کریں۔ بے شک صدقہ و خیرات بلاؤں کو آزمائشوں کو ختم کر دیتا ہے۔ آج ہمیں اپنے ارد گرد کے سفید پوش لوگوں کی مدد کرنا چاہیے۔ ایسے لوگ جن کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ تم انہیں ان کے چہروں سے پہچان لو گے۔ ان کی مدد بالکل اسی طرح سے کریں کہ ایک ہاتھ سے دیں تو دوسرے ہاتھ کو پتا بھی نہ چلے۔ مخلوق کو ﷲ تعالیٰ نے اپنا کنبہ کہا ہے تو ﷲ تعالیٰ کے کنبے کی جس قدر ممکن ہو مدد کیجیے یہ وقت ہے نیکیاں کمانے کا حضورؐ نے فرمایا: ’’تم زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔

کرو مہربانی تم اہلِ زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر

یااﷲ! ہم نے تیری حدود کو پامال کیا، ہم اقرار کرتے ہیں، ہم نادم ہیں، ہم تجھ ہی سے رجوع کرتے ہیں، یا ﷲ! ہمیں معاف کر دے، ہم سے راضی ہو جا، ہمیں کوئی راستہ نظر نہیں آتا ارحم الرحمین! اپنی قدرت کاملہ سے ہم سب کی حفاظت فرما دے، اے عرشِ عظیم کے مالک! جو بیمار ہیں ان کو صحت کاملہ عطا فرما دے۔ ہم تیرے کن فیکون کہنے کا انتظار کر رہے ہیں بے شک تُو ہر چیز پر قادر ہے۔

ماہ طلعت نثار

کورونا وائرس : قدرت کا انتقام یا اعمال کی سزا ؟

اس وقت پوری دنیا ایک جان لیوا وائرس کا شکار ہو چکی ہے۔ کورونا وائرس نے ساری دنیا کو قید تنہائی میں ڈال دیا ہے۔ لوگ جو چند سیکنڈوں کےلیے گھر میں بیٹھنے کو تیار نہیں تھے اب سارے کام چھوڑ کر اپنی زند گی کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس وائرس نے اللہ کی طاقت اور انسان کو اس کی اپنی بے بسی کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے۔ اس نے انسان کو بتا دیا ہے کہ اصل میں انسان کیا ہے۔ اس نے انسان کے سامنے چند حقیقتیں واضح کر دی ہیں، وہ حقیقتیں جنہیں بھول کر انسان اپنی زندگی گزار رہا تھا۔ اس نے بتا دیا ہے کہ جس زندگی کا آغاز روزانہ انسان ناشکری کے ساتھ کرتا تھا، وہ زندگی اصل میں کتنی قیمتی ہے۔ اس نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ انسان چاہے جتنی بھی ترقی کر لے، سمندروں کو فتح کرے یا چاند کو تسخیر کرے، وہ ازل سے قدرت کے سامنے بے بس تھا اور ابد تک بے بس ہی رہے گا۔ قدرت انسان کو اتنا ہی اُڑنے کی صلاحیت دیتی ہے جتنا وہ دینا چاہتی ہے۔ اور جب انسان قدرت کے دائرے سے نکلنے یا پھر قدرت کا منکر ہونا شروع کرتا ہے تو قدرت اپنی اصل طاقت دکھا دیتی ہے۔

اب بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ قدرت ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ انسان ناشکرا ہونے کے ساتھ ساتھ مجبور و بے بس بھی ہے۔ خود کو ’’سپر پاور‘‘ کہلوانے والی طاقتیں بھی اس سے چھپ کر قید تنہائی میں رہ رہی ہیں۔ پوری انسانیت ہی ایک عجیب سی کشمکش کا شکار نظر آرہی ہے۔ لوگ موت کے خوف سے گھروں میں بند ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہر کسی کے دل میں نئے آنے والے دن کے حوالے سے خوف اور خدشات بڑھتے جارہے ہیں۔ آنے والا دن اپنے ساتھ کیا خبر لائے گا ؟ اس بات نے لوگوں کی زندگی میں بے چینی اور ڈپریشن پیدا کر دیا ہے۔ لوگ اپنے اور اپنے پیاروں کےلیے فکرمند ہیں اور اسی فکر نے زندگی میں سکون ختم کر دیا ہے۔ یہ مشکل ترین وقت ضرور ہے مگر یہ وقت ہمیں مضبوط کرنے کے لیے آیا ہے۔ اس مشکل وقت میں ہمیں اپنی زندگی اور اپنے اعمال کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔ ہمیں خود احتسابی کرنی ہے اور شکر گزاری کی عادت اپنانی ہے، کیونکہ قدرت کو اس کی نعمت کی ناقدری سخت ناپسند ہے۔ اور ہم تو بے وجہ خواہشات کے اسیر بن کر اپنی زندگی کی اصل نعمتوں ہی کو بھول چکے تھے۔

آزادی سے اپنے گھر سے کام پر جانا، آزادی سے اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ سے کھانا کھانا، آزادی سے سینما میں اپنی پسند کی فلم دیکھنا، یہ سب چیزیں ہم بغیر کسی رکاوٹ کے کیا کرتے تھے۔ آج احساس ہوا کہ یہ تو زندگی کی بہت بڑی نعمتیں تھیں۔ سب سے مشکل بات یہ ہے کہ اللہ کا گھر بھی خالی ہو گیا ہے۔ وہ گھر جہاں ہر درد مند اپنی آرزو لے کر اس یقین کے ساتھ جاتا تھا کہ خالی ہاتھ واپس نہیں آئے گا، اس گھر کے دروازے بھی ہم پر بند کر دیئے گئے ہیں۔ اب بھی وقت ہے اگر ہم سچے دل سے توبہ کر لیں، اللہ کو راضی کر لیں تو وہ رحمان ہم پر رحم کر دے گا۔ کیونکہ قرآن میں اللہ نے خود فرمایا ہے: ’’میری رحمت میرے غضب پر بھاری ہے۔‘‘ بس اب اللہ کی رحمت ہی ہمیں اس آفت سے نجات دے سکتی ہے۔ کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کی صورت حال ہے اور عوام سے بھی یہی اپیل کی جارہی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں۔

اس مشکل وقت میں جہاں سب لوگ اپنے اپنے پیاروں کے ساتھ گھروں میں بیٹھے ہیں، پیرا میڈیکل اسٹاف، پولیس اور مسلح افواج اپنی ڈیوٹی سرانجام دے    رہے ہیں۔ پاک فوج پر تنقید کرنے والے خود تو اپنے پیاروں کے ساتھ گھر میں بیٹھے ہیں مگر مسلح افواج عوام کی سیفٹی کے لیے اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ وقت کی یہی حسین بات ہے کہ یہ جیسا بھی ہو، گزر جاتا ہے۔ اس لیے اللہ سے اُس کی رحمت کی امید کرنی ہے اور اُس سے ہمارے اعمال کی معافی مانگنے کا وقت ہے۔ وہ معاف کر دے گا، کیونکہ وہ انسان کو اس کی ہمت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ وہ ہمارے صبر اور برداشت کرنے کی ہمت کو جانتا ہے اس لیے وہ کبھی ہم پر وہ بوجھ نہیں ڈالے گا جو ہم اُٹھا نہ سکتے ہوں۔

اس مشکل ترین وقت کو ہمیں ہمت کے ساتھ ساتھ مثبت طریقے سے بھی گزارنا ہے۔ ہمیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد کے لوگوں کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ہمیں لوگوں کی ہر حد تک مدد کر نی ہے جن کےلیے زند گی کا پہیہ چلانا مشکل ہو رہا ہے۔ اپنے گھر ہی صرف راشن سے نہیں بھرنے بلکہ دیہاڑی دار اور سفید پوش طبقے کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیجیے اور اپنے گھروں میں مقیم رہیے تاکہ نہ آپ خود تکلیف اُٹھائیں اور نہ کسی دوسرے کی تکلیف کا موجب بنیں۔ اتحاد، یقین اور امید کا دامن تھام کر ہی ہم اس مشکل وقت سے گزر سکتے ہیں۔

ندا ڈھلوں
بشکریہ ایکسپریس نیوز

اسلام کا سب سے بڑا مبلغ

کورونا آیا اور آتے ہی دنیا پر اسلام کی حقانیت ثابت کر دی‘ دنیا اس سے پہلے کبھی اس طرح بند نہیں ہوئی تھی کہ انسان ‘ انسان کے لمس تک کو ترس جائے‘ ماں بچوں‘ میاں بیوی‘ بھائی بھائی اور بہن بہن سے چھ فٹ کے فاصلے پر چلی جائے‘ کوئی کسی کے ہاتھ سے پانی کا گلاس تک نہ لے‘ ڈاکٹر مریض کو ہاتھ نہ لگائے‘ مریض ڈاکٹر کی کھانسی سے دور بھاگے‘ امام نمازیوں سے ڈرتے رہیں اور نمازی امام سے بچ بچا کر نماز ادا کرنے کی کوشش کریں‘ دنیا میں یہ وقت اس سے پہلے کہاں آیا تھا؟ کرہ ارض پر پہلی بار تمام مذاہب کی عبادت گاہیں بند ہیں‘ شادیاں اور جنازے رکے ہوئے ہیں اور لوگ خود حکومتوں سے ہاتھ جوڑ کر ملک میں کرفیو اور لاک ڈاؤن کی درخواست کر رہے ہیں۔

تاریخ میں پہلی بار گھر بار‘ اسپتال‘ مسجد اور ایوان صدر سب غیر محفوظ ہیں اور غریب امیر‘ ملزم قاضی‘ ماتحت افسر اور حاکم اور محکوم دونوں کم زور اور عاجز نظر آ رہے ہیں‘ یہ تخریب اور بے بسی کی انتہا ہے لیکن اس انتہا کے اندر سے بھی تعمیر کے بے شمار مثبت پہلو نکل رہے ہیں‘ میں نے کل یہ مثبت پہلو گننے شروع کیے تو حیران رہ گیا‘ کورونا کے سات حیران کن مثبت نتائج سامنے آئے‘یہ تمام نتائج حیران کن ہیں لیکن سات کی اس فہرست کا پہلا نتیجہ اف خدایا! یہ کمال ہے‘ اسلامی دنیا کے تمام مبلغ مل کر اسلام کے لیے وہ کام نہیں کر سکے جو اکیلے کورونا نے کر دیا‘ میں اپنی یہ ’’ریسرچ‘‘ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں‘ مجھے یقین ہے آپ بھی قائل ہو جائیں گے۔

کورونا کا سب سے بڑا پہلو اسلام کی حقانیت ہے‘ اسلام دنیا کا پہلا مذہب تھا جس نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا تھا‘ ہم مسلمان دن میں پانچ بار وضو کرتے ہیں‘ ہم پر جنابت کے فوری بعد غسل فرض ہے‘ ہم مسلمان ہر جمعہ کو ناخن تراشتے ہیں‘ بدن کے غیر ضروری بال صاف کرتے ہیں اور ہم تھوکنے اور جمائی لینے کو بدتہذیبی سمجھتے ہیں‘آپ نے کبھی سوچا کیوں؟ میں نے کورونا کے بعد وائرس کو پڑھنا شروع کیا تو پتا چلا ہماری فضا میں 196 وائرس‘ بیکٹیریا اور جراثیم ہوتے ہیں‘ یہ ہمارے جسم کے سات سوراخوں کے ذریعے ہمارے بدن میں داخل ہوتے ہیں‘ ان کا مقابلہ صرف ہماری قوت مدافعت کر سکتی ہے اور اس قوت کا گراف صبح نیند کے بعد سب سے اونچا‘ سب سے اوپر ہوتا ہے‘ یہ گراف ظہر کے بعد نیچے آنا شروع کرتا ہے اور یہ عشاء کے بعد اپنی پستی کو چھونے لگتا ہے لہٰذا بیماریوں کے وائرس زیادہ تر سہ پہر کے بعد انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ ہم مسلمان دن میں پانچ مرتبہ وضو کرتے ہیں۔

یہ وضو ہمارے جسم کے سات سوراخوں میں بیٹھے وائرس دھو دیتا ہے اور یوں ہم بیماریوں سے بچ جاتے ہیں‘آپ دیکھ لیجیے دنیا بھر کے ڈاکٹرز کورونا کے بعد مریضوں کو کیا مشورے دے رہے ہیں؟ یہ پوری دنیا کو کہہ رہے ہیں آپ بار بار ہاتھ اور منہ دھوئیں‘ ناک میں پانی ڈالیں اور غرارے کریں اور غسل بھی زیادہ سے زیادہ کریں‘ یہ کیا ہے؟ کیا یہ آدھا وضو نہیں اور کیا ہم مسلمان روز پانچ مرتبہ یہ نہیں کرتے؟ آپ کمال دیکھئے‘ قدرت جسمانی صفائی کے اس عمل کو سہ پہر کے بعد تیز کر دیتی ہے‘ ہم تین سے چار گھنٹوں کے درمیان ظہر‘ عصر اور مغرب کا وضو کرتے ہیں اور یہ وہ وقت ہے جب ہماری قوت مدافعت کا گراف نیچے جا رہا ہوتا ہے۔ ہمارے بزرگ ظہر کے وقت قیلولہ بھی کرتے تھے‘ کیوں؟

قیلولہ بھی انرجی بوسٹر ہوتا ہے‘ یہ ہماری قوت مدافعت بڑھاتا ہے اور عشاء کے وقت جب ہماری قوت مدافعت کا گراف زمین کو چھو رہا ہوتا ہے‘ اللہ ہم سے آخری وضو اور عشاء ادا کروا کر ہمیں نیند کی آغوش میں لے جاتا ہے اور ہم فجر کے وقت قوت مدافعت کے نئے گرڈ کے ساتھ دوبارہ اٹھ جاتے ہیں‘ ڈاکٹرز کورونا کے مریضوں کو یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں آپ آٹھ سے دس گھنٹے نیند لیں اور ہلکی غذا کھائیں‘ یہ دونوں مشورے بھی ہمارے مذہب کا حصہ ہیں‘ مکمل نیند اور رات کے وقت ہلکی غذا‘ یہ دونوں عادتیں قوت مدافعت بڑھاتی ہیں‘ آپ ایک اور حقیقت ملاحظہ کیجیے‘ آپ کورونا کے حملے کے بعد دنیا کا ڈیٹا نکال کر دیکھیں‘ آپ کو دنیا کا ہر وہ شہر وائرس سے زیادہ متاثر ملے گا جہاں لوگ راتوں کو جاگتے رہتے تھے‘ جہاں لوگوں کی نیند کم تھی اور یہ جسمانی صفائی کا خیال نہیں رکھتے تھے‘ میں فرانس اور اٹلی بہت گیا ہوں‘ میں چینیوں کو بھی جانتا ہوں۔

یہ لوگ جسمانی صفائی میں بہت پست ہیں‘ چینی اوسطاً مہینے میں ایک بار نہاتے ہیں‘ فرانس اور اٹلی میں بھی نہانے بلکہ ہاتھ منہ دھونے کی روایت نہیں‘ آپ کسی دن صبح کے وقت میٹرو میں سفر کر کے دیکھ لیں‘ آپ کو لوگ بالخصوص خواتین تھوک سے آنکھیں صاف کرتی نظر آئیں گی‘یہ لوگ صبح اٹھتے ہیں‘ کپڑے پہنتے ہیں اور ہاتھ منہ دھوئے بغیر باہر نکل آتے ہیں‘ یہ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد دونوں وقت ہاتھ نہیں دھوتے‘ یہ رفع حاجت کے بعد بھی صرف ٹشو استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ لوگ جسمانی صفائی میں ہم سے بہت پیچھے ہیں‘ یہ راتوں کو جاگتے شہروں میں بھی رہتے ہیں‘ اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے دنیا میں جب بھی کوئی بیماری پھیلتی ہے تو یہ اس کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں جب کہ ہم مسلمان ہر بار وباؤں سے بچ جاتے ہیں‘ ہم مسلمان اس بار بھی بچ رہے ہیں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہمارے سسٹم میں سب اچھا ہے‘ ہم میں بھی بے شمار خرابیاں ہیں اور ہمیں اب ان پر توجہ دینا ہو گی مثلاً ہماری پہلی خرابی مسجدوں کے اندر استنجا خانے اور وضو خانے ہیں۔

اسلام کے ابتدائی آٹھ سو سال میں مساجد میں وضو خانے اور استنجا خانے نہیں ہوتے تھے‘ لوگ گھروں اور دکانوں میں وضو کرتے تھے اور نماز کے لیے مسجد آجاتے تھے تاہم لوگوں نے مسجدوں کے قریب پرائیویٹ استنجا خانے اور غسل خانے بنا رکھے تھے‘ یہ مسافروں کو ’’آن پے منٹ‘‘ وضو‘ غسل اور رفع حاجت کی سہولت دیتے تھے لیکن پھر مخیر حضرات نے مسافروں کی سہولت کے لیے مسجد کی حدود میں وضو خانے بنوانا شروع کر دیے‘ وضو خانے بنے تو استنجا خانے بھی بن گئے اور یوں بو‘ جراثیم اور گندا پانی مسجد کے اندر آنے لگا اور بیماریاں نمازیوں سے نمازیوں کو لگنے لگیں۔

کورونا نے ہمیں بھی ہماری غلطی سمجھا دی چناں چہ ہمیں بھی آج دوبارہ مسجد کی اصل روح کی طرف لوٹ جانا چاہیے‘ نمازی گھر‘ دکان یا دفتر سے وضو کر کے آئیں اور مسجد میں صرف نماز ادا کریں‘ اگر وضو خانے اور واش رومز ضروری ہوں تو یہ مسجد سے دور بنائے جائیں اور وہ بھی کیبن کی شکل میں ہوں تاکہ ایک نمازی کے چھینٹے دوسرے نمازی پر نہ پڑیں اور وضو کے بعد پانی بھی ’’پی ٹریپ‘‘ کے ذریعے فوراً نکل جائے‘ یہ رکے نہیں تاکہ جراثیم پیدا نہ ہوں‘ آپ اگر کبھی گوروں کے چرچ یا سیناگوگ میں جائیں تو یہ آپ کو صاف ستھرے ملتے ہیں‘کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ پانی ہے‘ چرچ اور سیناگوگ میں وضو خانے نہیں ہوتے لہٰذا فرش گیلے نہیں ہوتے چناں چہ وہاں داغ اور بو نہیں پھیلتی‘ دوسرا یہ ہال میں موم بتیاں جلاتے ہیں‘ موم بتی بو کو نگل جاتی ہے‘ ہماری مسجدوں میں بھی بجلی سے پہلے موم بتیاں جلائی جاتی تھیں‘ دوسرا لوگ مسجد میں وضو نہیں کر تے تھے اور یہ ننگے پاؤں مسجد کے ہال میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔

یہ بات آپ کے لیے یقینا حیران کن ہو گی مسجد اور جوتا یہ کیسے ممکن ہے لیکن یہ حقیقت ہے مسجد میں ننگے پاؤں ممانعت تھی‘ لوگ نماز کے لیے موزے پہنتے تھے‘ یہ باریک اور نرم چمڑے کی جرابیں ہوتی تھیں‘ لوگ مسجد کی دہلیز پر کھڑے ہو کر موزے پہن لیتے تھے اور واپس نکلتے ہوئے اتار کر تہہ کر کے جیب میں ڈال لیتے تھے‘ آپ پرانے کُرتے دیکھیں آپ کو ان کی دو سائیڈوں پر جیبیں ملیں گی‘ یہ جیبیں رقم کے لیے نہیں ہوتی تھیں‘ کیوں؟ کیوں کہ بیسویں صدی کے شروع تک دنیا میں نوٹ نہیں ہوتے تھے سکے ہوتے تھے اور سکے جیبوں میں نہیں ڈالے جاسکتے یہ تھیلیوں میں بھرے جاتے تھے لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے پھر قمیضوں میں جیبیں کیوں ہوتی تھیں؟

یہ موزوں کے لیے ہوتی تھیں‘ دایاں موزہ دائیں جیب میں ڈالا جاتا تھا اور بایاں بائیں جیب میں چناں چہ ہم نے جب سے مسجدوں میں وضو شروع کیا اور موزے ترک کیے اس دن سے ہماری مسجدوں میں صفائی کا معیار خراب ہو گیا‘ آپ خود سوچیے ہم جب گیلے پاؤں لے کر اندر داخل ہوں گے تو مسجد کے فرش اور صفیں کیسے صاف رہیں گی لہٰذا میری درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر اسلام کے اصل کی طرف لوٹ جائیں‘ پانچ وقت نماز پڑھیں‘ وضو کریں‘ وقت پر غسل کریں‘ مسجد میں صرف نماز ادا کریں‘ موزے یا جرابیں پہن کر مسجد جائیں‘ شریعت کے مطابق ہاتھ دھو کر کھانا کھائیں اور کھانے کے بعد بھی ہاتھ دھوئیں‘ مائع خوراک زیادہ لیں‘ آٹھ نو گھنٹے نیند لیں اور جہاں بیٹھتے ہیں اور جہاں سوتے ہیں وہ جگہ صاف رکھیں‘ آپ عمر بھر بیماریوں سے پاک رہیں گے۔

اسلام میں صفائی آدھا ایمان ہے اور یہ آدھا ایمان ہمارے ایمان کا پہلا حصہ ہے‘ ایمان کا دوسرا حصہ صفائی کے بعد آتا ہے‘ آپ کو اگر میری بات سمجھ نہیں آئی تو میں مزید عرض کر دیتا ہوں‘ نماز فرض ہے‘ اس فرض کے دو حصے ہیں‘ وضو اور پھر تکبیر تحریمہ‘ ہم اگر ( کسی شرعی عذر کے بغیر) وضو نہیں کرتے تو کیا ہم نماز کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں؟ جی نہیں لہٰذا پھر کیا مطلب ہوا؟ مطلب یہ ہوا صفائی ہمارے ایمان کا پہلا آدھا حصہ ہے‘ ہم جب تک یہ نہ کر لیں ہم ایمان کے دوسرے حصے یعنی عبادات کی طرف نہیں جا سکتے چناں چہ میں دل سے سمجھتا ہوں جو شخص صاف ستھرا نہیں وہ مسلمان نہیں ہو سکتا اور جو مسلمان ہے 196 وائرس مل کر بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے! آپ یہ نقطہ ذہن میں رکھیں اور پھر بتائیں کیا کورونا مسلمانوں کا محسن نہیں‘ کیا یہ اسلام کا مبلغ ثابت نہیں ہو رہا؟ جی ہاں! یہ ہمارا بہت بڑا محسن ہے‘ اس نے ہمیں اسلام کی وہ روایات یاد کرا دیں جو ہم بھول چکے تھے اور یہ مبلغ اسلام بھی ہے‘ اس نے پوری دنیا کو بتا دیا مذہب صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام لہٰذا کورونا صاحب تسی گریٹ ہو‘ تسی زندہ باد ہو۔

جاوید چوہدری

بشکریہ ایکسپریس نیوز