سعودی عرب کی جانب سے غیر ملکیوں کو عمرے کی اجازت، لیکن شرائط کیا ہوں گی؟

سعودی عرب نے کرونا کی ویکسین لگوانے والے غیر ملکی زائرین کو نو اگست سے عمرے کی اجازت دے دی ہے۔ البتہ پاکستان سمیت نو ممالک سے آنے والے زائرین کو کسی تیسرے ملک میں 14 روزہ قرنطینہ کے بعد سعودی عرب میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ سعودی اخبار ’سعودی گزٹ‘ کے مطابق سعودی عرب کی قومی کمیٹی برائے حج و عمرہ کے رکن ہانی علی الامیری کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر عمرے کے خواہش مند افراد 30 الیکٹرانک سائٹس اور منظور شدہ کمپنیوں کے ذریعے عمرہ پیکج حاصل کر سکتے ہیں۔ حج و عمرہ کمیٹی کے رکن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عمرے کے ویزے کے لیے صرف وہی افراد رجوع کر سکتے ہیں جو کرونا کی ویکسین مکمل طور پر لگوا چکے ہوں۔ علاوہ ازیں عمرے کے خواہش مند افراد کی صحت بہترین حالت میں ہونے کی بھی شرط رکھی گئی ہے اور انہیں احتیاطی تدابیر کے لیے بنائے گئے پروٹوکول پر عمل درآمد بھی کرنا ہو گا۔

ہانی علی الامیری کے مطابق وزارتِ حج و عمرہ کے منظور شدہ مقامی اور عالمی بکنگ پلیٹ فورمز سے ’بزنس ٹو بزنس‘ گروپ سسٹم یا ’بزنس ٹو کنزیومر‘ انفرادی سسٹم کے تحت خدمات اور پیکجز دستیاب ہیں جب کہ سعودی کمپنیاں رہائش، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر خدمات کے پیکج فراہم کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ زائرین عمرے کے لیے الیکٹرانک پلیٹ فورمز سے سروس کمپنی کا انتخاب کر کے دستیاب پروازوں، ٹرانسپورٹیشن ، ہوٹلز اور کھانے پینے کے مکمل پروگرام بھی خرید سکتے ہیں۔  ہانی علی الامیری ںے بتایا کہ 500 عمرہ سروس کمپنیاں اور چھ ہزار عمرہ ایجنٹس نے نو اگست سے ویکسین لگوانے والے زائرین کو خدمات فراہم کرنے کے لیے تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ نو اگست (یکم محرم) سے غیر ملکی زائرین کو عمرے کی اجازت دے دی جائے گی۔ واضح رہے حج کے بعد گزشتہ روز سے مقامی سطح پر عمرے کا آغاز ہو گیا ہے۔ سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق مقامی زائرین کو کرونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کے ساتھ مسجد حرام کے مخصوص دراوزوں سے داخلے کی اجازت دی گئی تھی اور اس کے علاوہ دیگر احتیاطی تدابیر بھی اختیار کی گئی ہیں۔

براہ راست پروازیں اور قرنطینہ کی شرائط
حج وعمرہ اور مسجد حرام اور مسجد نبوی سے متعلق خبریں فراہم کرنے والی ویب سائٹ کے مطابق نو ممالک کے سوا دیگر دنیا سے عمرے کے لیے براہ راست پروازوں کی اجازت ہو گی۔ بھارت، پاکستان، انڈونیشیا، مصر، ترکی، ارجنٹائن، برازیل، جنوبی افریقہ اور لبنان کے زائرین کو کسی تیسرے ملک میں 14 روز کا قرنطینہ مکمل کرنے کے بعد عمرے کے لیے سعودی عرب میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔  ویب سائٹ کے مطابق زائرین کے لیے فائز، موڈرنا، آسٹرازینیکا یا جانسن اینڈ جانسن کی تیار کردہ ویکسین کی مکمل خوراکیں لگوانا ضروری ہو گا۔ جب کہ چینی ویکسین لگوانے والوں کے لیے فائزر، موڈرنا، آسٹرازینیکا یا جانسن اینڈ جانسن میں سے کسی ایک کا بوسٹر ڈوز لگوانا ضروری ہو گا۔ اس کے علاوہ عمرے کے لیے سعودی وزارتِ حج و عمرہ کی منظور شدہ ایجنسی کے ذریعے رجوع کرنا ہو گا۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

کرونا وائرس : رواں برس حج کے لیے عازمین کا انتخاب کس طرح کیا گیا ؟

سعودی عرب نے رواں برس محدود تعداد میں عازمین کو حج کی اجازت دی ہے جس کے بعد یہ سوال یقیناََ آپ کے ذہن میں بھی گردش کر رہا ہو گا کہ ان افراد کا انتخاب آخر کیسے کیا گیا ہے؟ حج دنیا میں ہونے والے بڑے انسانی اجتماعات میں سے ایک ہے۔ لیکن کرونا وائرس کی وجہ سے حالیہ دہائیوں میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ دیگر ممالک کے لاکھوں عازمین کو حج کی اجازت نہیں مل سکی ہے۔ کرونا وائرس کے پھیلاؤ کے بعد سعودی حکام نے مکہ میں مسلمانوں کے مقدس مقام مسجد الحرام میں عبادات کو محدود کر دیا تھا۔ لیکن اس کے باوجود سعودی عرب میں مقیم ہزاروں افراد نے حج کے لیے درخواستیں ارسال کی تھیں۔ جن میں سے قرعہ اندازی کے ذریعے 10 ہزار افراد کا انتخاب کیا گیا ہے۔ سعودی حکومت نے سعودی عرب میں مقیم 160 ممالک کے شہریوں سے بھی آن لائن درخواستیں طلب کی تھیں اور کہا تھا کہ رواں برس منتخب ہونے والے 70 فی صد عازمینِ حج غیر ملکی تارکین وطن ہوں گے۔

اس سال حج کے لیے منتخب ہونے والے افراد میں دارالحکومت ریاض میں مقیم اردن کے ایک 29 سالہ انجینئر اور ان کی 26 سالہ اہلیہ بھی شامل ہیں۔ خبر رساں ادارے ‘اے ایف پی’ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حج کے لیے اس قدر زیادہ درخواستیں آئی تھیں کہ ہمیں ایک فی صد بھی امید نہیں تھی کہ رواں برس حج کے لیے ہمارا انتخاب ہو گا۔ ان کے بقول قرعہ اندازی میں حج کے لیے منتخب ہونے پر جہاں وہ حیرت کا شکار ہوئے وہیں انہیں بہت زیادہ خوشی بھی ہوئی۔ شناخت ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر ان کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے حج کے لیے منتخب ہو جانے سے متعلق سوشل میڈیا پر اپنی پوسٹ بھی اس وجہ سے ڈیلیٹ کر دی کہ کہیں اس بنیاد پر ان کی درخواست مسترد نہ کر دی جائے۔ ریاض میں ہی مقیم نائیجیریا کے ناصر بھی اپنے انتخاب پر بہت خوش ہیں اور اس بار حج کی اجازت کو ‘گولڈن ٹکٹ’ سے تشبیہہ دیتے ہیں۔

ناصر نے ‘اے ایف پی’ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنے احساسات کو بیان کرنا مشکل ہے۔ واضح رہے کہ ہر سال حج کے لیے سعودی عرب سمیت دنیا بھر کے ممالک کے شہریوں کا کوٹا مخصوص ہوتا ہے۔ اس مخصوص کوٹے کے تحت حج کے لیے مکہ آنے والے عازمین کا انتخاب بیشتر ملکوں میں قرعہ اندازی کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ گزشتہ برس 25 لاکھ کے قریب افراد نے حج کیا تھا جن کا تعلق دنیا کے لگ بھگ 200 ملکوں سے تھا۔ کرونا کی وبا کے زور پکڑ جانے کے بعد سعودی حکام نے پہلے کہا تھا کہ رواں برس حج کے لیے صرف ایک ہزار افراد کو اجازت دی جائے گی۔ البتہ مقامی میڈیا کی رپورٹس میں بتایا جا رہا ہے کہ اب 10 ہزار کے قریب افراد کو حج کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔ سعودی عرب کی وزارتِ حج کو سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے اور کئی افراد اپنی مسترد ہونے والی درخواستوں کے اسکرین شاٹس لگا کر سوال کر رہے ہیں کہ ان کی درخواست مسترد ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟

بعض خواتین نے جن میں بیوائیں بھی شامل ہیں کہا ہے کہ ان کی درخواستیں شاید اس وجہ سے مسترد کی گئی ہیں کیوں کہ ان کے ہمراہ کوئی مرد محرم نہیں تھا۔
سوشل میڈیا پر بعض صارفین یہ سوال بھی کر رہے ہیں کہ کیا اس بار حج کے لیے سفارت کاروں، کاروباری شخصیات یا شاہی خاندان کے افراد کو بھی اجازت دی گئی ہے یا نہیں؟ سعودی وزارتِ حج کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کے شہریوں میں سے ان افراد کو حج کے لیے منتخب کیا گیا ہے جن کا تعلق فوج سے ہے یا وہ صحت کے ماہرین ہیں اور کرونا وائرس سے صحت یاب ہو چکے ہیں۔  تاہم حکومت نے یہ اعداد و شمار جاری نہیں کیے کہ کتنے غیر ملکیوں نے حج کے لیے درخواست دی اور ان کے انتخاب کے لیے قرعہ اندازی کس طرح کی گئی۔ اس معاملے پر برطانیہ کے ‘رائل یونائیٹڈ سروس انسٹی ٹیوٹ’ سے وابستہ ماہر عمر کریم کہتے ہیں کہ سعودی حکام نے سارے معاملے کو اس لیے مخفی اور مبہم رکھا ہے کیوں کہ یہ انتہائی حساس معاملہ ہے۔

ان کے بقول اس عمل کو عوام کی نظروں سے دور رکھنے کا مقصد بھی یہ ہے کہ اس بارے میں کم سے کم شور ہو کہ حج کے لیے کسے اور کس بنیاد پر منتخب کیا گیا۔ سعودی خبر رساں ادارے ‘عرب نیوز’ کی رپورٹ کے مطابق سیکیورٹی حکام کا کہنا ہے کہ عازمین حج کی حفاظت ان کی اولین ترجیح ہے اور سیکیورٹی اہلکاروں کی کوشش ہو گی کہ کرونا وائرس سے پیدا شدہ صورتِ حال میں عازمین کے مابین سماجی دوری برقرار رہے۔ خیال رہے کہ سعودی حکام نے حج کے لیے منتخب افراد کو پہلے ہی ایک ہفتے کے لیے اپنے اپنے گھروں میں خود کو قرنطینہ کرنے کے احکامات دے دیے ہیں۔ یہ عازمین سات دن تک قرنطینہ کے بعد حج کے مناسک میں شریک ہوں گے۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

کورونا وائرس کے بحران میں حج کیسا ہو گا، ضوابط کیا ہیں؟

مکہ گورنریٹ اور وبائی امراض سے بچاؤ اور انسداد کے لیے قائم قومی مرکز نے اس سال حج سے متعلق صحت ضوابط جاری کیے ہیں۔ العربیہ نیٹ کے مطابق 18 جولائی 2020، 28 ذیقعد سے 12 ذی الحج تک منیٰ، مزدلفہ اور عرفات میں اجازت کے بغیر جانا منع ہو گا۔ حج پر جانے والوں اور حج کرانے والوں کو حفاظتی ماسک اور دستانے پہننا ہوں گے۔ سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ہو گا۔ عازمین رابطے کے وسائل، ملبوسات، سر کے بال تراشنے، مونڈنے، داڑھی بنانے والے آلات اور ایک دوسرے کے تولیے استعمال نہیں کر سکیں گے۔ نمازی ایک دوسرے سے دو میٹر کے فاصلے کی پابندی کریں گے لفٹ استعمال کرتے وقت سماجی فاصلہ برقرار رکھنا ہو گا۔ ذاتی صفائی کا ہر حاجی کے لیے دھیان رکھنا ضروری ہوگا۔ سینیٹائزر نمایاں مقامات پر رکھنا ہوں گے۔

رہائشی عمارتوں اور ہوٹلوں میں بیٹھنے اور انتظار کرنے کی جگہوں کو مسلسل سینیٹائز کیا جائے گا۔ دروازوں کے ہینڈل، کھانے کی میز، کرسیوں اور صوفوں کے ہتھے سینیٹائز کیے جائیں گے۔ جماعت کے ساتھ نماز کی اجازت ہو گی تاہم نماز کے دوران ماسک پہننا لازمی ہو گا۔ نمازی ایک دوسرے سے دو میٹر کے فاصلے کی پابندی کریں گے۔ کولرز ہٹا دیے جائیں گے۔ مسجد الحرام، منیٰ، عرفات اور مزدلفہ میں کولرز ہٹا دیے جائیں گے۔ پانی پینے یا زمزم کے استعمال کے لیے ایسی بوتلیں اور ڈبے استعمال کیے جائیں گے جو صرف ایک مرتبہ کے بعد غیر موثر ہو جائیں۔ صفا و مروہ کی سعی کرنے والوں کے درمیان سماجی پابندی کرائی جائے گی کھانا تیار کرنے، پیش کرنے سے قبل حمام سے نکلنے کے بعد رفقائے کار یا مسافروں کو چھونے یا براہ راست رابطے کے بعد صابن اور پانی سے کم از کم بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھونا ہوں گے

کھانے پینے میں استعمال ہونے والے برتن دوبارہ استعمال نہ کیے جائیں- کھانے بند پیکٹوں میں ہوں گے۔ بسوں میں مسافروں کی تعداد متعین ہو گی- پورے سفر کے دوران ہر حاجی کی نشست متعین ہو گی- کسی بھی حاجی کو بس میں کھڑے ہونے کی اجازت نہیں ہو گی- ڈرائیوروں اور تمام مسافروں کو بس میں سفر کے دوران ماسک اتارنے کی اجازت نہیں ہو گی- میدان عرفات اور مزدلفہ میں مخصوص مقامات پر قیام کی پابندی کرنا ہو گی- عبادت کے دوران حاجیوں کو ماسک اتارنے کی اجازت نہیں ہو گی- تمام حجاج ماسک اور سینیٹائزر رکھنے کے پابند ہوں گے  حاجیوں کو بند پیکٹوں والے کھانے پیش کیے جائیں گے

خانہ کعبہ اور حجر اسود کو چھونا منع
طواف کے لیے مطاف جانے والوں کی قافلہ بندی ہو گی- طواف کے دوران ہر حاجی کو دوسرے حاجی سے کم از کم ڈیڑھ میٹر کا فاصلہ برقرار رکھنا ہو گا- طواف کے عمل کو منظم کیا جائے گا- صفا و مروہ کی سعی ہر منزل سے ہو گی- اس حوالے سے سعی کرنے والوں کے درمیان سماجی فاصلے کی پابندی کرائی جائے گی- خانہ کعبہ یا حجر اسود کو چھونا منع ہو گا- چھونے اور چومنے سے روکنے کے لیے رکاوٹیں رکھی جائیں گی۔ اس پر عمل درآمد کے لیے نگراں تعینات ہوں گے- آب زمزم کے کولرز کے پاس اژدحام منع ہو گا۔ سماجی فاصلے کی پابندی کرانے کے لیے علامتیں نصب ہوں گی۔ کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کے شبے پر الگ گروپ میں رکھا جائے گا اپنی جانماز لانا ہو گی۔ مسجد الحرام میں کھانے کی اشیا لانے پر پابندی ہو گی اور خارجی صحنوں میں کھانے کی اجازت نہیں ہو گی۔ طواف کی جگہ اور صفا و مروہ کے علاقے کو حاجیوں کے ہر کارواں کے بعد سینیٹائز کیا جائے گا- مسجد الحرام سے قالین اٹھا لیے جائیں گے۔ ہر حاجی کو اپنی جانماز استعمال کرنے کی تاکید کی جائے گی۔ وہیل چیئر ہر حاجی کے استعمال کے بعد سینیٹائز کی جائے گی۔

کورونا کا شبہ ہونے پر الگ گروپ
اخبار 24 نے وبائی امراض سے بچاؤ اور انسداد کے لیے قائم قومی مرکز کی جاری کردہ صحت ایس او پیزکے حوالے سے بتایا ہے کہ اہم ترین ضابطہ یہ طے کیا گیا ہے کہ اگر کسی حاجی کے کورونا وائرس میں مبتلا ہونے کا شبہ ہو جائے اور طبی معائنے کے بعد میڈیکل رپورٹ سے بھی یہ بات واضح ہو جائے تو اسے حج مکمل کرنے کا موقع دیا جائے گا البتہ اس قسم کے حجاج کا ایک خاص گروپ بنایا جائے گا۔ ان کے لیے عمارت یا فلیٹ کا الگ سے انتظام ہو گا۔ بس خاص ہو گی اور حج مقامات پر انہیں دیگر حاجیوں سے الگ تھلگ رکھا جائے گا۔ وبائی امراض سے بچاؤ اور انسداد کے قومی مرکز نے بھی ایس او پیز جاری کیے ہیں
دوسرا اہم ضابطہ یہ ہے کہ ایسے کسی بھی شخص کو حج مقامات پر حج کی اجازت نہیں دی جائے گی جس پر انفلوائنزا جیسی علامتیں نمودار ہو گئی ہوں۔ ایسے کسی بھی شخص کو علامتیں ختم ہونے تک حج مقامات پر جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ اجازت نامے کے لیے اسے ڈاکٹر سے فٹنس سرٹیفیکیٹ لینا ہو گا۔ قومی مرکز نے رہائشی عمارتوں، کھانے پینے کے مقامات، بسوں، باربر شاپس، عرفات، مزدلفہ، مسجد الحرام، صفا و مروہ سے متعلق تمام ضروری ضوابط مقرر کر دیے ہیں

رمی کے لیے سینیاٹائز کنکریاں
قومی مرکز کے مطابق منیٰ میں جمرات کی رمی کے لیے سینیٹائز کنکریاں فراہم کی جائیں گی۔ منیٰ میں 10، 11، 12 اور 13 ذی الحج کو حجاج رمی جمرات کرتے ہیں۔ جمرات کی رمی کے حوالے سے طے کیا گیا ہے کہ 50 افراد پر مشتمل ایک گروپ کو ہر منزل پر رمی کے لیے جانے کی اجازت دی جائے گی۔ رمی کرتے وقت ڈیڑھ سے دو میٹر تک کا فاصلہ ضروری قرار دیا گیا ہے۔ کسی بھی خیمے میں 10 سے زیادہ حاجیوں کو ٹھہرانے کی اجازت نہیں ہو گی منیٰ میں جمرات کی رمی کرتے ہوئے تمام حجاج اور کارکنان کے لیے حفاظتی ماسک اور سینیٹائزر رکھنے کی پابندی کرنا ہو گی۔ خیمے میں دس سے زیادہ حجاج نہیں ہوں گے۔ کسی بھی خیمے میں 10 سے زیادہ حاجیوں کو ٹھہرانے کی اجازت نہیں ہو گی اور ہر خیمہ 50 مربع میٹر کا ہو گا۔ منیٰ میں باربر شاپس کھولی جائیں گی۔ باربرز پر پابندی ہو گی کہ وہ ہر حاجی کا سر مونڈنے یا بال کاٹنے کے بعد تراشنے اور مونڈنے میں استعمال ہونے والے آلات تلف کر دے۔

بشکریہ اردو نیوز

حج کو محدود رکھنے کا فیصلہ کیوں کیا گیا ؟

سعودی حکومت نے آئندہ ماہ حج کی ادائیگی کی اجازت دیتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ کورونا کے باعث 1441 ہجری یعنی 2020 عیسوی کیلئے عازمین حج کی تعداد کو محدود رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے، صرف ان غیر ملکی شہریوں کو حج کی اجازت ہو گی جو پہلے سے سعودیہ میں مقیم ہیں۔ صحت عامہ کے پیش نظر اسلامی تعلیمات کی روشنی میں لوگوں کی جانیں بچانے کی غرض سے سماجی فاصلے اور دیگر تمام ضروری اقدامات کو یقینی بنایا جائے گا۔ پاکستان کی وزارت مذہبی امور بھی سعودی حکومت کے فیصلے کی پریس ریلیز جاری کر چکی ہے۔ کورونا قہر بن کر دنیا پر ٹوٹا اور اس کے پھیلائو کی وجہ سامنے آئی تو نہ صرف مصر کی جامعہ الازہر بلکہ دنیا بھر کے علماء کرام نے مساجد میں باجماعت نماز کی ادائیگی کے بارے رائے دی کہ جماعت واجب جبکہ جان بچانا فرض ہے چنانچہ مسلمان گھروں میں نماز پڑھیں۔ مارچ میں جب یہ وبا پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر ہزاروں افراد کو لقمہ اجل بنا رہی تھی سعودی حکومت نے مقامات مقدسہ بند کر کے دنیا بھر سے استدعا کی تھی کہ حج کی تیاریوں کو موخر کر دیا جائے۔

انڈونیشیا اور ملائشیا نے اپنے شہری نہ بھیجنے کا باقاعدہ اعلان بھی کیا تھا۔ جہاں تک حج کی بات ہے کوئی شک نہیں کہ یہ ہر مسلمان کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہو تاہم یہ بھی سبھی جانتے ہیں کہ یہ سفر نصیب پر منحصر ہے۔ رپورٹس کے مطابق گزشتہ برس قریباً 25 لاکھ مسلمانوں نے حج کیا اب اگر اتنی بڑی تعداد کو دیکھا جائے تو یقیناً کورونا سے بچائو کے مکمل انتظامات ممکن نہیں بلکہ جتنے لوگ اس سال حج کریں گے ان کے لئے بھی حفاظتی اقدمات آسان نہ ہوں گے۔ خدائے بزرگ و برتر سے دعا ہے کہ وہ سب حاجیوں کو محفوظ رکھے اور دنیا سے اس وبا کا مکمل خاتمہ کر دے تاکہ آئندہ سال ہم رمضان المبارک کے فیوض و برکات بھی سمیٹیں اور حرمین شریفین کی حاضری بھی خوش نصیبوں کا مقدر بنے۔

بشکریہ روزنامہ جنگ

گھروں میں نماز عید کیسے ادا کریں ؟

سعودی عرب میں میں عید الفطر کے موقع پر اگرچہ مساجد میں تکبیروں کی اجازت دی گئی ہے تاہم عوام الناس کو ہدایت کی گئی ہے کہ گھروں میں ہی نماز عید ادا کریں اور سماجی فاصلوں کے اصول پر سختی سے عمل کریں. ادارہ امور حرمین کی جانب سے گھروں میں نماز عید ادا کرنے کے طریقے کی وضاحت انفوگراف کے ذریعے کی گئی ہے. ویب نیوز ’سبق ‘ کے مطابق ادارہ امور حرمین شریفین نے مملکت کے شہریوں اورمقیم غیر ملکیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس سال مملکت اور دنیا کو جس وبائی مرض کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اس کے لیے لازمی ہے کہ سماجی فاصلوں کی دوری کے اصول پر سختی سے عمل کیا جائے. ادارے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’ہر کوئی اپنے اہل خانہ کے ساتھ نماز عید ادا کرے.

نماز عید گھروں میں ادا کرنے کےلیے خطبہ نہیں دیا جائے صرف نماز اضافی تکبیروں کے ساتھ ادا کی جائے. نماز فجر کی ادائیگی کے بعد طاق تعداد (ایک ، تین ، پانچ) کھجور کھانا بھی سنت ہے. گھر میں مصلے پر بیٹھ کر تکبیریں پڑھتے رہیں. نماز عید کا وقت سورج نکلنے کے 15 منٹ بعد شروع ہوتا ہے اور زوال تک جاری رہتا ہے. نماز عید میں اضافی تکبیر ہوتی ہیں جن میں تکبیر تحریمہ یعنی نماز کی نیت کی تکبیر کے ساتھ 6 اضافی تکبیریں کہنی ہیں اس کے بعد سورۃ الفاتحہ اور کوئی دوسری سورت پڑھی جائے. دوسری رکعت میں 5 تکبیریں ہوں گی اور اس کے بعد سورہ الفاتحہ اور کوئی سورہ پڑھنے کے بعد دوسری رکعت مکمل کی جائے. گھروں میں نماز ادا کرنے کے بعد خطبہ عید نہیں ہو گا کیونکہ خطبہ عید کے لیے اجتماع کی شرط ہے. عام طور پر خطبہ عید میں معاشرے کو درپیش مسائل کے جانب اشارہ کر کے ان کے حل کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے