حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ : ایک خدا ترس صحابی

حد درجہ مقامات ادب کا تصور کریں تو رسول اکرم ﷺ ، آپؐ کا خاندان، صحابہ کرامؓ، تابعین، اولیاء کرام ادب کے اعلیٰ ترین مقام پر متمکن نظر آتے ہیں لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ ادنیٰ صحابیؓ کا مقام بڑے سے بڑے ولی اللہ سے کہیں زیادہ بلند ہے۔ ان مقامات ادب کا ذکر کرتے ہوئے حد درجہ احتیاط کی ضرورت ہوتی ہے کہ کہیں ادب کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ یہ احتیاط عقیدت سے پھوٹتی ہے کیونکہ اللہ سبحانہ تعالیٰ کی ان عزیز ترین ہستیوں کا ذکر عقیدت کے آنسوئوں کی نمی اور خون دل کی روشنائی سے ہی کیا جا سکتا ہے۔ میں خود کو اس کا اہل نہیں سمجھتا لیکن جب کوئی معزز کالم نگار آفتاب رسالت ؐ کے ستاروں میں سے کسی کا ذکر رواروی میں اس طرح کرے کہ اس سے تھوڑا سا ابہام پیدا ہوتا ہو تو پھر ان پر لکھنے کے لئے اللہ پاک سے رہنمائی مانگتا ہوں اور سامان بخشش سمجھ کر بوجھ اٹھا لیتا ہوں۔

حضرت ابوذر غفاریؓ کا ذکر ہوا تو جی چاہا کہ دستیاب مواد کی روشنی میں ان کی عظمت کا خاکہ، بےشک مختصر، قارئین کی خدمت میں پیش کروں۔ حضرت ابوذر غفاریؓ کی عظمت، عشق رسولؐ ، عشق الٰہی، جذب و مستی، دنیا سے دوری، فاقہ کشی اور ایثار و بہادری کا اندازہ ان کے قبول اسلام کی تفصیل سے ہوتا ہے لیکن کالم کی مجبوری ہے کہ ذکر مختصر ہو۔ سب سے پہلے یہ سمجھ لیجئے کہ حضرت ابوذر غفاریؓ انتہائی قدیم الاسلام تھے اور مسلمان ہونے سے قبل ہی توحید پرست اور عبادت گزار تھے۔ اسلام قبول کرنے والوں میں وہ چوتھے نمبر پر آتے ہیں (بحوالہ نقوش رسول نمبر جلد نمبر8 صفحہ نمبر 466) آپؓ مزاجاً تارک الدنیا تھے اور آپؓ کا شمار اصحاب صُفہ کی اعلیٰ ترین ہستیوں میں ہوتا ہے جن کے بارے حضور اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ یہ حضرات جنت میں میرے قریب ترین ہوں گے۔

حضرت اسماء بنت یزید سے روایت ہے کہ حضرت ابوذر ؓ ہمہ وقت خدمت نبوی ؐ میں مصروف رہتے تھے اور مسجد ہی عملی طور پر ان کا گھر تھا۔ حضرت ابوذرؓ بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ ان کے پاس سے گزرے جب وہ مسجد میں اوندھے منہ سوئے ہوئے تھے۔ آپؐ نے انہیں ٹھوکر ماری اور فرمایا اے جندب (ابوذر اصلی نام) اس طرح منہ کے بل لیٹنا شیطان کا لیٹنا ہے۔ حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ (المعروف داتا گنج بخشؒ) کشف المجحوب میں فرماتے ہیں، نبی کریمﷺ کی احادیث میں ہے کہ حضور اکرمؐ نے ابوذر غفاریؓ اور سلمانؓ کے درمیان برادری قائم کی۔ یہ دونوں اہل صُفہ کے سپاہی اور باطن کے رئیسوں میں سے تھے۔

ایک دن سلمان ؓ ، ابوذر ؓ کے گھر آئے۔ ابوذرؓ کی اہلیہ نے سلمانؓ کے روبرو ابوذرؓ کی شکایت کی کہ تیرا یہ بھائی دن بھر روزے سے رہتا ہے اور رات کو سوتا نہیں۔ سلمان ؓ نے کہا کہ کھانے کی کوئی چیز لائو۔ جب کھانا لایا گیا تو آپؓ نے ابوذرؓ سے کہا’’اے میرے بھائی تجھے میری موافقت کرنی چاہئے کیونکہ یہ تیرا روزہ فرض نہیں ہے‘‘، چنانچہ ابوذرؓ نے ان کے ساتھ کھانا کھایا، جب رات ہوئی تو سلمان ؓ نے کہا کہ ’’بھائی اب سونے میں بھی آپ ؓ کو میری موافقت کرنی چاہئےکیونکہ تیرے وجود کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق ہے۔‘‘ دوسرے روز ابوذرؓ نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپؐ نے فرمایا کہ میں بھی وہی کہتا ہوں جو کچھ کل سلمانؓ نے تجھ سے کہا تھا۔ (ص 361)

حضرت ابوذرؓ کا اسلام لانے کا واقعہ صحیح بخاری میں تفصیل سے درج ہے لیکن میں اسے اختصار سے بیان کروں گا تاکہ آپ ان کے عشق کی جھلک ملاحظہ کر سکیں۔ آپ ؓ اللہ کے آخری رسول ؐ کی تلاش میں مکہ معظمہ تشریف لائے اور کئی روز تک حرم شریف میں مقیم رہے۔ بالآخر رضائے ا لٰہی سے ان کا رابطہ حضرت علیؓ سے ہوا جن کے پیچھے وہ محتاط اور خفیہ انداز سے حضور اکرمؐ کے گھر پہنچے۔ فرماتے ہیں،عرض پرداز ہوا کہ آپؐ مجھ پر اسلام پیش کریں۔ آپؐ نے اسلام پیش فرمایا اور میں وہیں مسلمان ہو گیا۔ اس کے بعد آپؐ نے مجھ سے فرمایا:اے ابوذرؓ اس معاملے کو پس پردہ رکھو اور اپنے علاقے میں واپس چلے جائو، جب ہمارے ظہور کی خبر ملے تو آجانا۔ میں نے کہا، اس ذات کی قسم جس نے آپ ؐ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں تو ان کے درمیان ببانگ دہل ا س کا اعلان کروں گا۔

اس کے بعد میں مسجد حرام آیا، قریش موجود تھے میں نے کہا، قریش کے لوگو!اشھدان لاالٰہ الااللہ واشھد ان محمد عبدہ و رسولہ لوگوں نے کہا، اٹھو اس بے دین کی خبر لو، لوگ اٹھ پڑے اور مجھے اس قدر مارا گیا کہ مرجائوں لیکن حضرت عباس ؓ نے مجھے آبچایا۔ انہوں نے مجھے جھک کر دیکھا، پھر قریش کی طرف پلٹ کر بولے، تمہاری بربادی ہو، تم لوگ غفار کے ایک آدمی کو مارے دے رہے ہو؟ حالانکہ تمہاری تجارت گاہ اور گزر گاہ غفار ہی سے ہو کر جاتی ہے، اس پر لوگ مجھے چھوڑ کر ہٹ گئے۔ دوسرے دن صبح ہوئی تو میں پھر وہیں گیا اور جو کچھ کل کہا تھا آج پھر کہا اور لوگوں نے پھر کہا کہ اٹھو اس بے دین کی خبر لو۔ اس کے بعد پھر میرے ساتھ وہی ہوا جو کل ہو چکا تھا اور آج بھی حضرت عباس ؓ ہی نے مجھے آبچایا۔ وہ مجھ پر جھکے پھر ویسی ہی بات کہی جیسی کل کہی تھی۔
(بحوالہ الرحیق المختوم از مولانا صفی الرحمن مبارکپوری صفحات (190-92) ایمان افروز تفصیل حیاۃ الصحابہ ؓ تالیف مولانا محمد یوسف کاندھلوی میں دی گئی ہے۔

سبحان اللہ حضرت علی بن عثمان ہجویری ؒ نے حضرت ابوذر غفاریؓ کے زہد کو آٹھ لفظوں میں سمو دیا ہے۔ اصحاب صُفہ کے ذکر میں لکھتے ہیں کہ ابوذر جندب بن جنادہ غفاریؓ زہد میں عیسیٰ اور شوق میں موسیٰ صفت (کشف المحجوب ص 147) سبحان اللہ دو نبیوں کی صفات والے ہمارے نبی اکرمﷺ کے صحابیؓ کا مقام کیا ہو گا ؟ میں گنہگار تو اندازہ کر ہی نہیں سکتا لیکن ذرا تصور کیجئے کہ حضور اکرمﷺ کے صحابہ کرام کتنے عظیم تھے، کتنے بلند درجہ تھے۔ ادب سے ان کا ذکر اور ان سے محبت و عقیدت بخشش ہے، جسے اللہ پاک توفیق دے۔

روضہ الطالبین از مولانا محمد عاشق الٰہی ایک تحقیقی معتبر کتاب ہے جس میں حضرت ابوذرؓ کے مختصر ترین حالات درج ہیں۔ نام جندب، ابوذر کنیت، مسیح الاسلام لقب، شروع اسلام میں مکہ میں مسلمان ہوئے، قد دراز، رنگ سیاہی مائل، داڑھی گھنی، آخری عمر میں بال بالکل سفید ہو گئے تھے (ابن سعد169/4) غزوہ خندق کے بعد سے سارا وقت آپؐ کی خدمت میں رہے، اس سے پہلے اپنے قبیلہ غفار میں تھے(مسند احمد 174/5) حضرت ابوذر ؓ فطرتاً فقیر، زہد پیشہ تارک الدنیا تھے۔ حضرت عثمانؓ کے کہنے پر یا انہوں نے خود مقام’’ربذہ‘‘ میں قیام کی خواہش کی اور وہاں ہی رہے اور وہاں ہی انتقال ہوا۔ وفات کے بعد ایک یمنی قافلہ جو کوفہ سے آرہا تھا ان میں حضرت عبداللہ بن مسعودؓ بھی تھے اس جگہ پر پہنچے تو انہوں نے ہی ان کو غسل دے کر نماز جنازہ پڑھائی اور اسی جگہ پر دفن کر دیا گیا (مستدرک حاکم346/3)۔

حضرت ابوذر غفاریؓ نبی کریمؐ کی حیات طیبہ تک مدینہ منورہ میں ہی رہے۔ بعد ازاں کچھ عرصہ شام میں گزارہ اور پھر مدینہ منورہ واپس تشریف لے آئے۔ خلفائے راشدین کا دور مشاورت کا زمانہ تھا جہاں اختلاف رائے کو احترام سے دیکھا جاتا تھا۔ جن حضرات کو حضرت ابوذر غفاریؓ کے حضرت عثمان ؓ سے اختلافات کا شبہ ہے وہ محترم مناظر احسن گیلانی کی تحقیقی کتاب’’حضرت ابوذر غفاریؓ‘‘ پڑھیں۔ گیلانی صاحب کا تعلق جامعہ عثمانیہ کے شعبہ دینیات سے تھا۔ صفحہ نمبر 203-4 پر ان حضرات کا ذکر کرنے کے بعد جنہوں نے حضرت ابوذرؓ کو خلیفہ عثمانؓ کے خلاف اکسانے کی کوشش کی مصنف نے حضرت ابوذرؓ کا بیان نقل کیا ہے جس کا ہر لفظ حضرت عثمانؓ کی اطاعت و محبت میں ڈوبا ہوا ہے۔ کوئی لغزش ہوئی ہو تو اللہ پاک معاف فرمائے کہ رضائے الٰہی کے علاوہ اور کوئی مقصد یا منزل نہیں۔

ڈاکٹر صفدر محمود

حضرت خباب بن الارت رضی اللہ عنہ

حضرت خباب بن الارت کا شمار حضورنبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کے بہت ہی مقرب صحابہ کرام میں ہوتا ہے۔ اسلام قبول کرنے والے خوش بخت افراد میں ان کا چھٹا نمبر ہے، اس لئے ـ ’’سادس الاسلام‘‘کہلاتے ہیں، اس طرح السابقون الا ولون کی بشارت سے خورسند ہوئے۔ قبیلہ بنو تمیم سے تعلق تھا،شجرہ نسب اس طرح ہے۔ خباب بن ارت بن جندلہ بن سعد بن خزیمہ بن کعب بن سعد بن مناۃ بن تمیم۔ اپنے صاحبزادہ عبداللہ کی مناسبت سے ام عبداللہ کنیت اختیار فرمائی، وجیہہ ، شکیل اورمضبوط تن وتوش کے مالک تھے ۔ مرورزمانہ نے غلام بنا دیا، مکہ کی ایک قریشی خاتون اُم انمار نے انہیں خرید لیا، اُم انمار نے انھیں آہن گری کا فن سکھایا اور اس کے رموزو اسرار سے واقف ہونے کے بعد انھیں دکان پر بٹھا دیا تا کہ کسب کریں اور کما کر اسے رقم ادا کریں ۔
اپنی سلیم الفطرتی کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ ہوئے اور بعثت مبارکہ کے بعد دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے۔ اس زمانے میں اہل مکہ کے نزدیک یہ ایک شدید ترین جرم تھا، جسے وہ کسی صورت قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھے، اسلام اور وہ بھی ایک غلام کا قبول اسلام ،اور اس پر مستزادیہ کہ وہ غلا م اس پر کسی عذر خواہی کا اظہار بھی نہیں کر رہا بلکہ ببانگ دہل اس کا اعلان و اعتراف کر رہا تھا۔ کفار مکہ اس جرأت اظہار پر برا فروختہ ہو گئے اور انھوں نے آپ کو ہر قسم کی ایذاء رسانیوں کا ہدف بنا لیا۔ مکہ کے اس ماحول میں ان کا نہ تو اپنا خاندان تھا اور نہ کوئی ایسا حامی ومد د گار جو انھیں اپنی امان میں لیتا، لہٰذا قریش نے اپنی ساری بھڑاس خباب اور ان جیسے دوسرے بے سہاراافراد پر نکالنی شروع کی، ان کی مالکہ نے بھی ان درندہ صف لوگوں کو ان پر ظلم وستم ڈھانے کی مکمل چھوٹ دے رکھی تھی.
 وہ زمین پر دہکتے ہوئے انگارے ڈال دیتے اور خباب کو ان پر لٹا دیتے، ایک   بھاری پتھر ان کے سینے پر رکھ کر اسے مسلا جاتا، یہ اذیت اس وقت تک جاری رہتی جب تک کہ وہ انگارے ان کے زخموں کی رطوبت سے سرد نہ ہو جاتے، بسا اوقات لوہے کا گرم خود ان کے سر پر کَس دیا جاتا اور اس پر ضربیں لگائی جاتیں، لیکن اس اذیت کے با وجود ان کے پائے استقلال میں کسی قسم کی لغزش نہ آ سکی، ایسے ہی حضور رحمت للعالمین علیہ الصلوٰۃ والسلام ان کی تالیف قلب فرماتے انھیں حوصلہ دیتے اور بشارت سے بہرور کرتے، ان کی مالکہ سے یہ برداشت نہ ہوا تواس نے ایک لوہے کی سلاخ کو گرم کیا اور آپ کے سر اقدس کو اس سے داغ دیا، ایسے میں آپ کی درخواست اللہ کریم کے حضور میں تھی یا التماس دعاء نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں ،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بارگا ہ ایزدی میں دعاء کی! یااللہ! خباب کی مدد فرما۔
(اسد الغابہ)

عمیر بن سعدؓ : شمع رسالت کا ننھا پروانہ

نفاق وہ مرض ہے جسے کفر سے بھی بدتر قرار دیا گیا ہے۔ قرآن پاک میں منافقین کو جہنم کے نچلے ترین حصے میں پھینکے جانے کا تذکرہ ہے۔ مدینہ کے منافقین میں سے ایک منافق کا نام الجلاس بن سوید بن صامت بیان کیا گیا ہے۔ اس نے جس صحابیہ سے شادی کی ، وہ بیوہ تھی اور اس کا ایک بیٹا عمیر بن سعدؓ اس کے گھر میں پرورش پا رہا تھا۔ الجلاس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بیٹھ کر آنحضورؐ کے بارے میں بہت ہی گستاخانہ گفتگو کی، اس نے کہا یہ شخص اگر اپنے دعووں میں سچا ہو تو خدا کی قسم پھر ہم گدھوں سے بھی بدتر ہیں۔ اس کا خیال تھا کہ چھوٹا سا بچہ اس بات کو کیا سمجھتا ہوگا مگر عمیر بن سعدؓ کے دل میں ایمان کی روشنی تھی اور وہ بچہ آنحضورؐ کا سچا محب تھا۔ اس نے کہا اے جلاس تو مجھے بہت محبوب تھا اور میں تیری بے پناہ عزت کرتا تھا مگر خدا کی قسم تم نے جو بات کہی ہے، اس نے میرا دل زخمی کر دیا ہے۔ اگر میں اسے چھپاؤں گا تو ہلاک ہو جاؤں گا اور اگر اسے بیان کردوں گا تو یہ بڑی شرم اور عار والی بات ہے مگر جو کچھ بھی ہو، میں تمھارا راز فاش کردوں گا۔ درِّ یتیمؐ کا یہ یتیم امتی واقعی نہایت قیمتی ہیرا تھا۔ جلاس نے اس بچے کو کہا کہ تم میری بات کو سمجھے ہی نہیں ہو مگر اس سعادت مند بچے نے جواب میں کہا کہ میں خوب سمجھتا ہوں، یہ کہہ کر عمیرؓ مجلس سے اٹھ گیا۔ الجلاس بھی فوراً اٹھا اور عمیرؓ سے پہلے آنحضورؐ کی مجلس میں پہنچ گیا۔

عمیرؓ بھی تھوڑی دیر بعد خدمت نبوی میں حاضر ہو گئے۔ مجلس میں ان کا سوتیلا باپ جلاس بھی موجود تھا۔ انھوں نے جب آنحضورؐ کی خدمت میں پورا واقعہ پیش کیا تو الجلاس نے حلف اٹھا کر کہا کہ میں نے ایسی کوئی بات نہیں کہی۔ بزرگ صحابہ نے بھی عمیر سے کہا برخوردار تم بہت چھوٹے ہو تمھیں شاید بات کی سمجھ نہیں آئی۔ اس نے بڑے حزم کے ساتھ کہا خدا کی قسم جو کچھ ان کانوں نے سنا ہے وہی اس زبان نے بیان کیا ہے مگر بچہ ہونے کی وجہ سے لوگوں نے اس کی بات کو زیادہ وزن نہ دیا۔ معصوم بچے کو اس کا بڑا افسوس ہوا اور اس نے دل میں کہا کہ میری سچائی کو اللہ خود بیان کر دے گا۔ حضرت عمیرؓ بیان کیا کرتے تھے کہ انھیں منافقین کی دل آزار باتوں سے تو دکھ پہنچا ہی تھا، جب ان کی بات اہلِ حق کی مجلس میں بھی نہ مانی گئی تو وہ اور بھی آزردہ ہو گئے اور آنکھوں میں آیت آنسو آ گئے۔ سبحان اللہ یہ معصوم آنسو اللہ کو کس قدر پسند آئے کہ وحی ربانی نے آکر ان کے آنسو پونچھے اور ان کی تصدیق فرمائی۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی:
یہ آیت اس سلسلۂ آیات کا حصہ ہے جن میں منافقین کو طشت از بام کر دیا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا:’’یہ لوگ خدا کی قسم کھا کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے وہ بات نہیں کہی، حالانکہ انھوں نے ضرور وہ کافرانہ بات کہی ہے۔ وہ اسلام لانے کے بعد کفر کے مرتکب ہوئے اور انھوں نے وہ کچھ کرنے کا ارادہ کیا جسے کر نہ سکے۔ یہ ان کا سارا غصہ اسی بات پر ہے کہ اللہ اور اس کے رسولؐ نے اپنے فضل سے ان کو غنی کر دیا ہے! اب اگر یہ اپنی اس روش سے باز آئیں تو انھی کے لئے بہتر ہے، اور اگر یہ باز نہ آئے تو اللہ ان کو نہایت دردناک سزا دے گا، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، اور زمین میں کوئی نہیں جو ان کا حمایتی اور مددگار ہو۔‘‘ (التوبۃ۹:۴۷) الجلاس نے اس کے بعد سچی توبہ کرلی اور بعد کی زندگی نفاق سے پاک ہو کر اسلام کے مخلص پیروکار کی حیثیت سے گزاری۔ (تفسیر ابن کثیر ج۳، ص ۴۲۴۔۵۲۴ تفسیر آیت محولہ بالا)
زندہ معاشروں کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ ان کا ماحول بذاتِ خود ایک درس گاہ کا کام کرتا ہے۔ نسلِ جدید کو ایسا پاکیزہ، منظم اور بامقصد ماحول میسر آجاتا ہے جو ایک خاص اور متعین سمت میں ان کی راہ نمائی کا فریضہ سرانجام دیتا رہتا ہے۔ ایسے معاشروں میں اگر کچھ عناصر بنیادی مقاصد اور طے شدہ اخلاقی ومعاشرتی اقدار کے خلاف طرزِ عمل اپنانا چاہیں تو معاشرے کا مجموعی ضمیر اور عمومی فضا اسے قبول کرنے سے انکار کر دیتے ہیں۔ یوں بے قاعدگی کے شکار افراد اور گروہ معاشرے میں نکو بن کر رہ جاتے ہیں۔ جب معاشرے اپنی سمت ہی متعین نہ کرسکیں تو ہر چیز افراتفری کا شکار ہوجاتی ہے اور تخریب کاروں کوکھل کھیلنے کا موقع مل جاتا ہے۔ دورِ نبوی کے پاکیزہ معاشرے میں نوخیز بچے بھی اپنی ذمہ داریوں کو اچھی طرح جانتے تھے اور ان کو بکمال و تمام ادا بھی کرتے تھے۔ سیرتِ نبوی کا مطالعہ اور سیرت صحابہ کی ورق گردانی کرتے ہوئے ایسے بے شمار ایمان افروز واقعات سامنے آتے ہیں جو واضح کرتے ہیں کہ اس زندہ ضمیر معاشرے میں بے ضمیروں کے لئے کوئی گنجائش اور رو رعایت نہ تھی۔ اسلامی ریاست اور اس کے سربراہ نبئ رحمتؐ کے خلاف جہاں کسی نے خبث باطن کا مظاہرہ کیا وہیں اس کا محاسبہ کرنے کے لئے زندہ ضمیر ابنائے اسلام میدان میں آجاتے تھے۔
پاکستان کی بنیاد اسلام ہے۔ اسلام میں حب رسول اور اطاعت رسولؐ کے ساتھ طاغوتی نظام سے نفرت کا بھی درس دیا گیا ہے۔ آج ہمارا پورا نظام طاغوتی بنیادوں پر قائم ہے۔ یہ ایک المیہ ہے۔ گھر اور گلی محلہ، سکول اور کالج، ماحول اور معاشرہ جس سانچے میں نسلِ نو ڈھالنے کے لئے سرگرم عمل ہو، نوخیز بچے اور نوجوان اسی رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ مسلم معاشرے کے ہر گھر میں بچوں کے لئے اگر ماحول ایسا فراہم کیا جائے جہاں روزمرہ کے معمولات اور گھروں کے شب وروز سیرت مصطفی ؐاور سیرت صحابہؓ و صحابیاتؓ کے واقعات کے گرد گھومنے لگیں تو کوئی داخلی سازش اور خارجی دشمن اس کی بنیادیں کھوکلی کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ ہمارا المیہ ہی یہ ہے کہ ہم اپنی تہذیب و ثقافت کو بھول چکے ہیں، اپنی اصل سے کٹ گئے ہیں اور ہر سراب کو آب حیات سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ آبِ حیات ہمارے اور صرف ہمارے پاس ہے۔ پوری دنیا تو روشن خیالی کے محض دعوے کرتی ہے، حقیقت میں وہ اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں کہ جو خدا کو بھول جائے، وہ اپنی اصلیت کو بھی بھول جاتا ہے۔ اے کاش امت اس حقیقت کو پاسکے۔ اگر ایسا ہو تو آج بھی عمیر بن سعدؓ، اسامہ بن زیدؓ اور علیؓ بن ابی طالب کی مثالیں نظر آسکتی ہیں۔ جوہرِ قابل آج بھی موجودہے مگر ہمارا نظام لارڈمیکالے اور کلائیو کے نقشے پر استوار ہے۔ اسے بدلیں گے تو ان شاء اللہ قسمت بدل جائے گی۔ اقبالؒ امید کی شمع روشن رکھتے تھے۔ فرمایا
نہیں ہے نا اُمید اقبالؔ اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی!
انھوں نے بد دل اور مایوس دانش وروں اور رہبروں کو یہ نکتہ یوں سمجھایا
نو مید نہ ہو ان سے اے رہبرِ فرزانہ
کم کوش تو ہیں لیکن بے ذوق نہیں راہی
حافظ محمد ادریس

Owais Qarni and his love for Prophet

Owais Qarni’s is a story that sets an example for all the Muslims as how even without meeting the Prophet Muhammad (peace be upon him), one may still earn Allah’s favor and His pleasure, on account of his unflinching love for the Prophet Muhammad (peace be upon him). Owais Qarni (may Allah bless him) could never meet the Prophet (peace be upon him) in person, but he is arguably the only person in Islamic history who is said to have been accorded the status of sahabi (companion) by none other than Prophet Muhammad (peace be upon him) himself. (To be a companion, it required the criterion of meeting the Prophet while having faith.)
Imam Muslim named one full chapter in his one of the most reliable tomes of Hadith in Qarni’s name: “The Virtues of Owais Qarni” in Sahih Muslim. It records a Hadith quoting Umar ibn Al-Khattab, who said: “I heard Allah’s Messenger, peace be upon him, saying: ‘There would come to you Owais b. Amir, of Qarn, a branch of the Murid tribe, along with the reinforcement of the people of Yemen. He had been suffering from leprosy which would have been cured but for the space of a dirham. His treatment with his mother would have been very kind. If he would take an oath in the name of Allah (for something), He would honor it. Ask him to beg forgiveness for you (from Allah) in case it is possible for you.”
Qarni was born in Asir region of Saudi Arabia, 594CE. His father, Aamir, was a God-fearing person. He gave Islamic education to his son but died leaving Owais an orphan at a young age. The family was poor and could not afford higher education for him. He devoted him to praying, fasting and service to his mother. Owais had profound love for Islam and its Messenger. Owais learned that there is a great reward in Islam for serving parents. His mother was sick and blind. So he devoted himself solely to the service of his mother. He was 28 years of age when Holy Prophet (peace be upon him) had migrated to Madinah Munawwarah. He had a keen desire to visit him, but was preoccupied with the service of his sick mother. Yet he would keep a tab on the developments in Hijaz.
When he heard about the sad news of the Battle of Ohud (625CE), when a tooth of the Prophet was martyred, Qarni out of love for him, broke all his teeth. Thus was his love for the Holy Prophet (peace be upon him). The Holy Prophet (peace be upon him) knew about Qarni and his love for him. He once told Omar ibn Khattab about Qarni and had predicted that Omar would meet Qarni after his (the Prophet’s) departure from the world. He gave all the details about him and advised him to seek prayers for his forgiveness and for the whole Ummah. The companions asked if they could see him but the Holy Prophet (peace be upon him) replied: “No, only Omar bin Khattab and Ali would meet him,” and gave identity marks of Qarni. He directed Omar and Ali: “When you see him, convey to him my salaam and ask him to pray for my Ummah.”
During Prophet (peace be upon him)’s last days, he asked Omar and Ali to pass his Jubba (the blessed cloak) to Qarni and ask him to pray for the forgiveness of the Muslim Ummah. This demonstrates the exalted status of Qarni. Qarni, the Prophet is said to have remarked, is the best among tabeiin, (second generation of the companions). Qarni rubbed the blessed cloak over his face and eyes, and kissed it, when he finally received it. The blessed cloak, it is said, is preserved in Istanbul, Turkey. Referring to Qarni, the Holy Prophet (peace be upon him) once told his companions: “There is a person in my Ummah whose prayers would bring forgiveness to as many sinners as the number of the sheep in the tribes of Rabia and Mudar.”
The two tribes of Rabia and Mudar were well known for raising sheep during the time of the Holy Prophet (peace be upon him). Usair bin Jabir reported that when people from Yemen came to help (the Muslim army during battle), Caliph Omar would ask them: “Is there among you Owais bin Amir? (He continued finding him out) until he met Qarni. He told him the saying of Holy Prophet (peace be upon him) about him and asked him for his prayer and said: “Where do you intend to go?
He said: To Kufa. Umar said: Let me write a letter for you to its governor, But Owais said: I love to live among the poor people.
Umar was impressed with his simple personality and asked Owais Qarni to pray for him. He replied, “I pray for the forgiveness of everyone at the end of every prayer. If you keep your faith in Allah and His Messenger (peace be upon him), you will receive my prayers in your graves.”Here is the famous invocation of Owais Qarni: “O Allah, You created me when I was not worthy of mention; And You provided for me when I had nothing; And I wronged my soul and sinned, and I confess my guilt. If You forgive me, that will in no way reduce Your sovereignty; And if You punish me, that will in no way augment Your authority. You can find others to punish besides me, But I can find no one to forgive me but You. Truly, You are the most Merciful of those who show mercy. The Holy Prophet (peace be upon him) said “Owais will come to Madinah to meet me, but he will not find me physically, for I shall then be united with my Lord.”
When the people in Qarn began revering him and considering him a saint, on account of his status in Islam, he left Qarn for Kufa where he engaged in imparting Islamic education. Later, he took part in the unfortunate Battle of Siffin (37AH) where he was fatally wounded, subsequently dying at the age of 63. He was buried at Al-Raqqah, Syria. A grand Aal-Zaria Mosque as Jaame Owais Qarni stands at Qarn in Asir region and another Owais Qarni Mosque in Ilford UK. The love of the Holy Prophet is the boon that can be achieved without meeting him. This opens the door for millions of Muslims living in different areas and eras of the world. The life of Owais Qarni encourages us to love Holy Prophet (Peace be upon him) though we have not seen him and to get higher ranks as got by Owais.
Abu Tariq Hijazi