مکہ مکرمہ کی تمام مساجد میں نماز کا ثواب مسجد الحرام جیسا ؟

مسجد الحرام میں زائرین کی غیر معمولی تعداد کے پیش نظر سعودی عرب کی وزارت اسلامی امور و دعوت و رہنمائی کے ڈائریکٹر جنرل شیخ علی بن سالم العبدلی نے کہا ہے کہ مکہ مکرمہ کی تمام مساجد میں نماز کا اجر و ثواب حرم شریف جیسا ہی ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں مسجد الحرام میں دنیا بھر سے آئے ہوئے زائرین کا انتہائی غیر معمولی رش ہے جبکہ مقامی افراد کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ وہ نمازوں کی ادائیگی مسجد الحرام میں ہی کریں جس سے آج کل وہاں اژدحام کی کیفیت ہے۔ حرم شریف کے تمام صحن نمازیوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں، بعض لوگ صحن میں جگہ نہ ملنے پر اطراف کی سڑکوں ، راہداریوں، فٹ پاتھوں ، تجارتی مراکز کی گزر گاہوں تک میں صفیں بچھا لیتے ہیں جس کی وجہ سے وہاں سے گزرنے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور بعض علائے کرام نے تو ایسی جگہ صفیں بچھا کر نماز کو مکروہ قرار دیا ہے۔

صورت حال کے پیش نظر سعودی عرب کی وزارت اسلامی امور و دعوت و رہنمائی کے ڈائریکٹر جنرل شیخ علی بن سالم العبدلی نے کہا ہے کہ مکہ مکرمہ کی مساجد کے ائمہ ، خطیب اور منتظمین معتمرین و زائرین میں اس شرعی مسئلے کو واضح شکل میں بیان کریں، انہیں سمجھائیں کہ وہ اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھیں گے تب بھی انہیں حرم شریف میں نماز ادا کرنے جیسا اجر و ثواب حاصل ہو گا۔ آپ حضرات از خود دیکھ رہے ہیں کہ رمضان کے آخری عشرے میں حرم شریف کے سارے صحن نمازیوں سے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ بعض لوگ صحنوں میں جگہ نہ ملنے پر اطراف کی سڑکوں ، راہداریوں، فٹ پاتھوں ، تجارتی مراکز کی گزر گاہوں تک میں صفیں بچھائے ہوئے ہیں۔ ایسے عالم میں خشوع و خضوع کی کیفیت حاصل نہیں ہو سکتی۔ سکون و اطمینان کیساتھ نمازیں اپنے محلے کی مساجد میں ادا کریں، اللہ تعالیٰ نے نماز کیلئے مساجد مختص کی ہیں، جو لوگ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر نماز ادا کر رہے ہیں وہ ایک طرح سے راہگیروں کی حق تلفی کر رہے ہیں اور انہیں آنے جانے میں مشکلات دے رہے ہیں، اس سے گریز واجب ہے۔

دوران وضو 80 فیصد پانی بچانے والے نل کی تیاری

وضو کے دوران غیر ضروری پانی کو ضائع ہونے سے بچانے کےلیے خاص قسم کا نل تیار کیا جا رہا ہے جومخصوص مقدار میں پانی فراہم کرے گا۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ بعض لوگ وضو کے دوران ضرورت سے زیادہ پانی کا استعمال کرتے ہیں۔ کچھ لوگ نل کھول کر دوران وضو میں باتیں کرنے لگتے ہیں، فون کالز کرتے ہیں، موزے اتارنے میں وقت لگاتے ہیں یا پھر دیر تک وضو مکمل کرتے ہیں کہ جو پانی کے ضیاع کا سبب بنتا ہے اور خاصی مقدار میں پانی بغیر استعمال ہوئے نالیوں میں بہہ جاتا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق مساجد اور گھروں میں لگے عام نل (ٹونٹی) میں ایک منٹ کے دوران 6 لیٹر سے زائد پانی نکلتا ہے تاہم اب ایک ایسا نل تیار کیا جا رہا ہے کہ جو ایک منٹ میں ڈیڑھ لیٹر سے بھی کم پانی فراہم کرے گا۔ اس طرح وضو کے دوران 80 فیصد تک پانی کو ضائع ہونے سے بچایا جا سکے گا۔ نل تیار کرنے والی کمپنی کے حکام کا کہنا ہے کہ ایک شخص سال بھرمیں وضو کے دوران کم و بیش 35 ہزار لیٹر پانی استعمال کرتا ہے لیکن جدید نلوں کی مدد سے اس شرح کو کم کر کے 7650 لیٹر تک لایا جا سکتا ہے۔ یہ خاص قسم کے نل ابتدائی طور پر دبئی میں تیار کیے جا رہے ہیں اور پہلے مرحلے میں شہر بھر کی مساجد میں انہیں نصب کیا جائے گا۔
 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا شوقِ نماز

حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ خوبصورت اور پُرسوز نماز اور کس کی ہو سکتی ہے۔ کون ہے جو آپ ﷺ سے زیادہ اللہ کی معرفت کا جو یاں ہو اور آپﷺ سے زیادہ نماز کی روحانی اسرار اور معنویت سے واقف ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ تو اس کیفیت کی اس طرح عکاسی فرماتی ہیں کہ نماز کا وقت شروع ہو جاتا تو یوں محسوس ہوتا کہ آپ ﷺ ہمیں پہچانتے ہی نہیں ہیں۔ کبھی کبھی آپ پر نماز کے درمیان رقت طاری ہو جاتی، چشم مبارک سے موتیوں کی لڑی بہنے لگتی، ایک صحابی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی منظر کشی کچھ یوں کی: میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چشم ھائے مبارک سے آنسو جاری ہیں روتے روتے ہچکیاں بندھ گئی ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا کہ گویا کوئی چکی چل رہی ہے یا کوئی ہنڈیا ابل رہی ہے۔ (ترمذی)

رات کی خلوتوں میں آپ ﷺ جس سوز و گداز اور آہ و بکا کے ساتھ اللہ کے حضور میں حاضر ہوتے اور کس انہماک سے قیام فرماتے اس کا ادراک سورۃ مزمل کی تلاوت سے ہو سکتا ہے۔

کس بلا کی وہ ریاضت تھی کہ خود رب نے کہا
میرے محبوب توکیوں رات کو اکثر جاگے

’’رات کی نماز میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر عجیب ذوق و شوق کا عالم طاری ہوتا تھا، قرآن پڑھتے چلے جاتے، جب خدا کی عظمت کبریائی کا ذکر آتا سبحان اللہ کہتے، عذاب کا ذکر آتا تو پناہ مانگتے۔ جب رحم و کرم کی آیتیں تو دعاء کرتے۔ (مسند احمد بن حنبل) 

آپ ﷺ نے فرمایا: کہ (رات کی نفل نماز) نماز دو دو رکعت کر کے ہے، اور ہر دوسری رکعت میں تشہد ہے اور تضرع وزاری ہے، خشوع و خضوع ہے، عاجزی اور مسکنت ہے اور ہاتھ اٹھا کر اے رب کہنا ہے،جس نے ایسا نہ کہا تو اس کی نماز ناقص رہی ۔ (ابودائود)‘‘

آپ ﷺ خود بھی نماز کے جملہ آداب بجا لاتے اور دوسروں کو ان کی تعلیم فرماتے۔ ایک بار کسی شخص نے مسجد نبوی میں آکر نہایت عجلت اور تیزی میں نماز پڑھی آپ ﷺ ملاحظہ فرما رہے رہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: اے شخص اپنی نماز پھر پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ اس نے دوبارہ اسی طرح نماز ادا کی، آپ ﷺ نے پھر اسی طرح ارشاد فرمایا۔ جب تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا تو اس نے عرض کیا۔ یا رسول اللہ ﷺ میں کس طرح نمازادا کروں۔ ارشاد ہوا: اس طرح کھڑے ہو، اس طرح قرأت کرو، اس طرح اطمینان اور سکون کے ساتھ رکوع اور سجدہ کرو۔ (بخاری)

آپ ﷺ نے ارشا فرمایا : ’’جب تم میں سے کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو تو وہ خدا کی طرف پوری طرح متوجہ رہے یہاں تک کہ نماز سے فارغ ہو جائے اور نمازمیں ادھر ادھر نہ دیکھو کیونکہ جب تم نماز میں ہو خدا سے باتیں کر رہے ہو۔ (طبرانی)
 

فضیلت صلوٰة اور احادیث

جس طرح قرآن مجید میں نماز کا کثرت سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس طرح احادیث مبارکہ کا ذخیرہ نماز کی فضیلت، اہمیت اور اس کے متعلقہ مسائل کے ذکر سے معمور ہے۔ حدیثِ پاک کے کسی بھی مجموعے کا مطالعہ کیجئے کتاب الصلوٰة، ابواب الصلوٰة کے زیر عنوان نماز ہی کا ذکر ہے۔ احادیث مبارکہ میں نماز ہی کو مرکزِ عبادات کا درجہ حاصل ہے۔

٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ”قیامت کے روز لوگوں سے ان کے اعمال میں سے سب سے اوّل حساب نماز کا لیا جائے گا۔ (سنن ابوداﺅد) یہی حدیث مبارکہ الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ جامع الترمذی میں بھی موجود ہے جبکہ سنن نسائی میں اس میں یہ الفاظ بھی شامل ہیں۔

٭سو اگر نماز کا معاملہ درست ٹھہرا تو وہ بندہ فلاح و نجات پا گیا۔ اور یہی معاملہ بگڑ گیا تو وہ نامراد اور خسارہ پانے والا ہوا۔ (سنن نسائی)

امتحان کی پہلی منزل میں کامیابی نصیب ہو جائے تو یہ اگلی منزلوں میں بھی نجات کی نوید ثابت ہو گی۔ اور اگر خدانخواستہ پہلے مرحلے ہی میں لغزش سامنے آ جائے تو اس کے اثرات آئندہ کے لیے بھی بڑے ضرر رساں اور مہلک ثابت ہو سکتے ہیں۔

٭حضرت علی کر م اللہ وجہہ فرماتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال فرماتے ہوئے جو آخری کلام فرمایا وہ تھا۔ الصلوٰة، الصلوٰة اور یہ کہ تم اپنے غلاموں کے بارے میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ (سنن ابی داﺅد)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک فریضہء صلوٰة کی کتنی اہمیت ہے کہ آپ ﷺ نے دنیا سے جاتے ہوئے بھی اس کی تاکید بلکہ تاکید بالائے تاکید کو انتہائی ضروری سمجھا ۔ تعلق بااللہ کی اس استواری کے ساتھ آپ ﷺ  نے اس وقت معاشرے کے سب سے کمزور اور زیردست طبقے یعنی ”غلاموں“ کی خیر خواہی کا پیغام بھی ارشاد فرمایا ۔ یہ دین اسلام کی جامعیت کی طرف واضح اشارہ ہے۔ جہاں حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کو اہمیت حاصل ہے اور توازن اور اعتدال کا پیغام ہر جگہ نمایاں نظر آتا ہے۔

٭حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (بڑے انہماک اور استواری سے) نماز پڑھتے یہاں تک کہ آپ ﷺ کے دونوں قدم زخمی ہو جاتے۔آپ سے کہا گیا یا رسول اللہ آپ یہ کچھ کر رہے ہیں حالانکہ آپ کے لیے بخشش ہی کہ آپ پہلے بھی گناہوں سے محفوظ رہے ہیںاور آئندہ بھی رہیںگے۔ آپ نے ارشاد فرمایا:۔ ”کیا میں (اپنے رب تعالیٰ کا ) شکر گزار بندہ نہ بنوں“۔ (بخاری)

٭حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نمازدین کا ستون ہے“۔ (شعب الایمان) ستون پر ہی کوئی عمارت استوار ہوتی ہے، اور دین کی عمارت کا مرکزی ستون نماز ہے۔ یہ حدیث ہمیں اس امر کا احساس دلاتی ہے کہ نماز محض ذاتی مسئلہ یا انفرادی عمل نہیں ہے بلکہ اسلامی معاشرے کے حقیقی قیام اور بقا کے لیے اس فریضہ صلوٰة کی ادائیگی بہت ضروری ہے اور یہ اس کا نشان امتیاز ہے۔

نماز آئینہ ہے

آپ نے کبھی آئینہ دیکھا ہے؟ وہ آپ کو آپ کی شکل دِکھاتا ہے، کپڑے دکھاتا ہے،
بتاتا ہے کہ آپ کتنے خوبصورت لگ رہے ہیں اور اگر کوئی داغ دھبہ کہیں لگا ہوا ہے تو وہ بھی۔ اب اگر آپ کے بال گردآلود ہیں، چہرے پر سیاہی ملی ہوئی ہے، کپڑے شکن آلود ہیں، جسم زخمی ہے، کانوں سے خون رِس رہا ہے، کالے لمبے دانت باہر نکلے ہوئے ہیں، آنکھیں لال و سیاہ ہو رہی ہیں تو آئینہ آپ کو یہ سب کچھ بھی دکھائے گا اور یقین جانیئے، اِس میں آئینے کا کوئی قصور نہیں۔ آپ جتنے چاہیں آئینے تبدیل کر لیں۔ صورتِ حال ویسی کی ویسی ہی رہے گی۔ اسی لئے ہم سب صبح نہا دھو کر تیار ہو کر، اچھے کپڑے پہن کر آئینہ دیکھنے کے عادی ہیں کہ سب کچھ اچھا اچھا ہی نظر آئے۔

نماز بھی ایک آئینہ ہی ہے باطن کا، آپ وضو کر کے دن میں پانچ بار اِس کے سامنے کھڑے ہو جاتے ہیں، اور یہ آپ کو آپ کا باطن دِکھا دیتی ہے۔ اگر آپ کو نماز میں کوفت ہوتی ہے، دماغ منتشر رہتا ہے، گھبراہٹ ہوتی ہے، وحشت ہوتی ہے تو سمجھ جائیں کہ باطن کی حالت کیا ہے، اور یقین جانیئے کہ اِس میں نماز کا کوئی قصور نہیں ہے۔ جائے نماز بدل لینے سے، غسل کر لینے سے، مولوی صاحب یا مسجد تبدیل کرلینے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اب نماز جھوٹ تھوڑا ہی بولتی ہے، جیسے پیسہ پیسے کو کھینچتا ہے بالکل ایسے ہی گناہ گناہ کو اور نیکی نیکی کو کھینچ لیتی ہے۔ آپ ایک نماز پڑھتے ہیں تو دوسری کی توفیق مل جاتی ہے اور ایک چھوڑ دیں تو اگلی چھوڑنی بھی آسان ہو جاتی ہے۔

نماز دن میں اعراب (punctuation marks) کی طرح آپ کو سہولت فراہم کرتی ہے کہ آپ اپنے 24 گھنٹوں کا پوسٹ مارٹم کر سکیں۔ نماز روزمرہ زندگی میں اللہ کی حضوری کی مقدار جانچنے کا ایک لٹِمس ٹیسٹ ہے۔ صبح کی نماز کا آئینہ آپ کو دکھاتا ہے کہ رات کیسی گزری۔ ہم ایسے گئے گزرے کہ رات کی سیاہی نہ دیکھنے کے لئے آئینے کے سامنے ہی نہیں جاتے اور سمجھتے ہیں کہ کوئی داغ کوئی دھبّہ ہی نہیں ہے۔ ظہر کی نماز کا آئینہ دکھاتا ہے کہ نوکری اور بزنس کے دوران احکاماتِ الہٰی کا کتنا خیال رکھا، عصر کی نماز کا آئینہ دن کہاں اور کیسے گزرا کا احوال بتاتا ہے، مغرب کا آئینہ خاندان اور نفس پر کی جانے والی محنت کا عکس دکھاتا ہے اور عشاء! کیا کہنے عشاء کے، آئینے میں عاشق کو اِس کا چہرہ دکھاتی ہے کہ محبت نور بن کر چہرے پر چمکے۔

آج میں نے کتنے پراڈکٹ بیچے، کتنے لوگوں سے میٹننگز کیں، بینک کے حساب سے لے کر ٹیکسوں کے گوشوارے تک، اور رات دیکھی جانے والی فلم سے لے کر موبائل فون کی پُر تکلف گفتگو تک، یہ سب کچھ ہی تو دورانِ نماز یاد آتا ہے۔ آئینے میں ان کو دیکھ کر عبرت پکڑنی چاہئیے۔ ہر وہ چیز جو آپ کی نماز کے حُسن کو خراب کر دے، حضوری کی لذت چھین لے، یقین جانیئے! اِس قابل ہی نہیں کہ اس کا ذکر کیا جائے۔ بات چل نکلی ہے، عشق کی تو سمجھ لینا چاہئیے کہ رتبے میں عاشق و معشوق کا کوئی موازنہ نہیں۔ عاشق تو معشوق کی صفات سے عشق کرتا ہے، یہ تو معشوق ہے جو عاشق کی ذات سے عشق کرتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ عاشق کو عشق کی سچائی صفات سے گزار کر ذات تک لے جائے اور ایک مقام وہ آئے کہ معشوق کی صفات عاشق میں جلوہ گر ہوں۔

آپ کو تو محبوب سے عشق اِس کی مسکراہٹ کی ملاحت، رخسار کی صباحت، قد کی آراستگی، گفتگو کی مٹھاس، غمزوں کا ناز و انداز، چاہ ذقن، پُر شکن گیسو، خمدار ابرو اور پُرشکوہ جوانی دیکھ کر ہوا۔ اِس نے کیا دیکھا آپ میں؟ یہ ہے اصل سوال۔ بالکل اسی طرح یہ تو اللہ کا کرم ہے کہ وہ آپ کو توفیق دے کہ آپ اِس کے سامنے سجدہ کرسکیں۔ نماز چھٹ جائے تو سوچنا ہی چاہئیے کہ زندگی میں ایسا کیا کیا کہ یہ توفیق بھی چِھن گئی؟ نماز میں کم از کم ایک بار اللہ کے سامنے حاضری کا خیال فرض ہے۔ اب اگر نماز میں بزنس و جاب کے مسائل ہی نظر آتے رہیں تو اپنے آپ پر بڑی محنت و توجہ کی ضرورت ہے، اور نماز کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ آدمی جھوٹ نہیں بول پاتا۔ سوچتا ہی ہے کہ کیا کر رہا ہے، آپ جب ’’ایاک نعبد و ایاک نستعین‘‘ پر پہنچتے ہیں کہ اے اللہ! تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد چاہتے ہیں تو دل کچوکے لگاتا ہے۔ روک دیتا ہے، اور ایک اور آیت سناتا ہے کہ ’’لم یقولون ما لا تفعلون‘‘ تم ایسی باتیں کہتے کیوں ہو جو کرتے نہیں۔ اور آدمی شش و پنج میں کھڑا وہ جاتا ہے کہ سورہِ فاتحہ پوری کیسے کرے؟ 
آئیے، نماز کے باطنی آئینے پر بھی توجہ کریں کہ کاش ہماری ظاہری خوبصورتی کا عکس باطن تک بھی پہنچے یا باطن اتنا منور ہوجائے کہ ظاہر بھی دُھل جائے۔
اللہ ہمیں نمازوں میں کھڑا ہونے کا شرف بخشیں۔
آمین!
ذیشان الحسن عثمانی