کورونا وائرس : قدرت کا انتقام یا اعمال کی سزا ؟

اس وقت پوری دنیا ایک جان لیوا وائرس کا شکار ہو چکی ہے۔ کورونا وائرس نے ساری دنیا کو قید تنہائی میں ڈال دیا ہے۔ لوگ جو چند سیکنڈوں کےلیے گھر میں بیٹھنے کو تیار نہیں تھے اب سارے کام چھوڑ کر اپنی زند گی کو بچانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس وائرس نے اللہ کی طاقت اور انسان کو اس کی اپنی بے بسی کے بارے میں آگاہ کر دیا ہے۔ اس نے انسان کو بتا دیا ہے کہ اصل میں انسان کیا ہے۔ اس نے انسان کے سامنے چند حقیقتیں واضح کر دی ہیں، وہ حقیقتیں جنہیں بھول کر انسان اپنی زندگی گزار رہا تھا۔ اس نے بتا دیا ہے کہ جس زندگی کا آغاز روزانہ انسان ناشکری کے ساتھ کرتا تھا، وہ زندگی اصل میں کتنی قیمتی ہے۔ اس نے یہ بھی بتا دیا ہے کہ انسان چاہے جتنی بھی ترقی کر لے، سمندروں کو فتح کرے یا چاند کو تسخیر کرے، وہ ازل سے قدرت کے سامنے بے بس تھا اور ابد تک بے بس ہی رہے گا۔ قدرت انسان کو اتنا ہی اُڑنے کی صلاحیت دیتی ہے جتنا وہ دینا چاہتی ہے۔ اور جب انسان قدرت کے دائرے سے نکلنے یا پھر قدرت کا منکر ہونا شروع کرتا ہے تو قدرت اپنی اصل طاقت دکھا دیتی ہے۔

اب بھی ایسا ہی لگ رہا ہے کہ قدرت ہمیں یہ بتا رہی ہے کہ انسان ناشکرا ہونے کے ساتھ ساتھ مجبور و بے بس بھی ہے۔ خود کو ’’سپر پاور‘‘ کہلوانے والی طاقتیں بھی اس سے چھپ کر قید تنہائی میں رہ رہی ہیں۔ پوری انسانیت ہی ایک عجیب سی کشمکش کا شکار نظر آرہی ہے۔ لوگ موت کے خوف سے گھروں میں بند ہو کر زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ ہر کسی کے دل میں نئے آنے والے دن کے حوالے سے خوف اور خدشات بڑھتے جارہے ہیں۔ آنے والا دن اپنے ساتھ کیا خبر لائے گا ؟ اس بات نے لوگوں کی زندگی میں بے چینی اور ڈپریشن پیدا کر دیا ہے۔ لوگ اپنے اور اپنے پیاروں کےلیے فکرمند ہیں اور اسی فکر نے زندگی میں سکون ختم کر دیا ہے۔ یہ مشکل ترین وقت ضرور ہے مگر یہ وقت ہمیں مضبوط کرنے کے لیے آیا ہے۔ اس مشکل وقت میں ہمیں اپنی زندگی اور اپنے اعمال کا بغور جائزہ لینا چاہیے۔ ہمیں خود احتسابی کرنی ہے اور شکر گزاری کی عادت اپنانی ہے، کیونکہ قدرت کو اس کی نعمت کی ناقدری سخت ناپسند ہے۔ اور ہم تو بے وجہ خواہشات کے اسیر بن کر اپنی زندگی کی اصل نعمتوں ہی کو بھول چکے تھے۔

آزادی سے اپنے گھر سے کام پر جانا، آزادی سے اپنے پسندیدہ ریسٹورنٹ سے کھانا کھانا، آزادی سے سینما میں اپنی پسند کی فلم دیکھنا، یہ سب چیزیں ہم بغیر کسی رکاوٹ کے کیا کرتے تھے۔ آج احساس ہوا کہ یہ تو زندگی کی بہت بڑی نعمتیں تھیں۔ سب سے مشکل بات یہ ہے کہ اللہ کا گھر بھی خالی ہو گیا ہے۔ وہ گھر جہاں ہر درد مند اپنی آرزو لے کر اس یقین کے ساتھ جاتا تھا کہ خالی ہاتھ واپس نہیں آئے گا، اس گھر کے دروازے بھی ہم پر بند کر دیئے گئے ہیں۔ اب بھی وقت ہے اگر ہم سچے دل سے توبہ کر لیں، اللہ کو راضی کر لیں تو وہ رحمان ہم پر رحم کر دے گا۔ کیونکہ قرآن میں اللہ نے خود فرمایا ہے: ’’میری رحمت میرے غضب پر بھاری ہے۔‘‘ بس اب اللہ کی رحمت ہی ہمیں اس آفت سے نجات دے سکتی ہے۔ کورونا وائرس کے بڑھتے ہوئے کیسز کی وجہ سے پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کی صورت حال ہے اور عوام سے بھی یہی اپیل کی جارہی ہے کہ وہ گھروں میں رہیں۔

اس مشکل وقت میں جہاں سب لوگ اپنے اپنے پیاروں کے ساتھ گھروں میں بیٹھے ہیں، پیرا میڈیکل اسٹاف، پولیس اور مسلح افواج اپنی ڈیوٹی سرانجام دے    رہے ہیں۔ پاک فوج پر تنقید کرنے والے خود تو اپنے پیاروں کے ساتھ گھر میں بیٹھے ہیں مگر مسلح افواج عوام کی سیفٹی کے لیے اپنی خدمات سر انجام دے رہی ہے۔ وقت کی یہی حسین بات ہے کہ یہ جیسا بھی ہو، گزر جاتا ہے۔ اس لیے اللہ سے اُس کی رحمت کی امید کرنی ہے اور اُس سے ہمارے اعمال کی معافی مانگنے کا وقت ہے۔ وہ معاف کر دے گا، کیونکہ وہ انسان کو اس کی ہمت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ وہ ہمارے صبر اور برداشت کرنے کی ہمت کو جانتا ہے اس لیے وہ کبھی ہم پر وہ بوجھ نہیں ڈالے گا جو ہم اُٹھا نہ سکتے ہوں۔

اس مشکل ترین وقت کو ہمیں ہمت کے ساتھ ساتھ مثبت طریقے سے بھی گزارنا ہے۔ ہمیں اپنے ساتھ ساتھ اپنے ارد گرد کے لوگوں کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ہمیں لوگوں کی ہر حد تک مدد کر نی ہے جن کےلیے زند گی کا پہیہ چلانا مشکل ہو رہا ہے۔ اپنے گھر ہی صرف راشن سے نہیں بھرنے بلکہ دیہاڑی دار اور سفید پوش طبقے کا بھی خیال رکھنا ہے۔ ایک ذمہ دار شہری ہونے کا ثبوت دیجیے اور اپنے گھروں میں مقیم رہیے تاکہ نہ آپ خود تکلیف اُٹھائیں اور نہ کسی دوسرے کی تکلیف کا موجب بنیں۔ اتحاد، یقین اور امید کا دامن تھام کر ہی ہم اس مشکل وقت سے گزر سکتے ہیں۔

ندا ڈھلوں
بشکریہ ایکسپریس نیوز

اسلام کا سب سے بڑا مبلغ

کورونا آیا اور آتے ہی دنیا پر اسلام کی حقانیت ثابت کر دی‘ دنیا اس سے پہلے کبھی اس طرح بند نہیں ہوئی تھی کہ انسان ‘ انسان کے لمس تک کو ترس جائے‘ ماں بچوں‘ میاں بیوی‘ بھائی بھائی اور بہن بہن سے چھ فٹ کے فاصلے پر چلی جائے‘ کوئی کسی کے ہاتھ سے پانی کا گلاس تک نہ لے‘ ڈاکٹر مریض کو ہاتھ نہ لگائے‘ مریض ڈاکٹر کی کھانسی سے دور بھاگے‘ امام نمازیوں سے ڈرتے رہیں اور نمازی امام سے بچ بچا کر نماز ادا کرنے کی کوشش کریں‘ دنیا میں یہ وقت اس سے پہلے کہاں آیا تھا؟ کرہ ارض پر پہلی بار تمام مذاہب کی عبادت گاہیں بند ہیں‘ شادیاں اور جنازے رکے ہوئے ہیں اور لوگ خود حکومتوں سے ہاتھ جوڑ کر ملک میں کرفیو اور لاک ڈاؤن کی درخواست کر رہے ہیں۔

تاریخ میں پہلی بار گھر بار‘ اسپتال‘ مسجد اور ایوان صدر سب غیر محفوظ ہیں اور غریب امیر‘ ملزم قاضی‘ ماتحت افسر اور حاکم اور محکوم دونوں کم زور اور عاجز نظر آ رہے ہیں‘ یہ تخریب اور بے بسی کی انتہا ہے لیکن اس انتہا کے اندر سے بھی تعمیر کے بے شمار مثبت پہلو نکل رہے ہیں‘ میں نے کل یہ مثبت پہلو گننے شروع کیے تو حیران رہ گیا‘ کورونا کے سات حیران کن مثبت نتائج سامنے آئے‘یہ تمام نتائج حیران کن ہیں لیکن سات کی اس فہرست کا پہلا نتیجہ اف خدایا! یہ کمال ہے‘ اسلامی دنیا کے تمام مبلغ مل کر اسلام کے لیے وہ کام نہیں کر سکے جو اکیلے کورونا نے کر دیا‘ میں اپنی یہ ’’ریسرچ‘‘ آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں‘ مجھے یقین ہے آپ بھی قائل ہو جائیں گے۔

کورونا کا سب سے بڑا پہلو اسلام کی حقانیت ہے‘ اسلام دنیا کا پہلا مذہب تھا جس نے صفائی کو نصف ایمان قرار دیا تھا‘ ہم مسلمان دن میں پانچ بار وضو کرتے ہیں‘ ہم پر جنابت کے فوری بعد غسل فرض ہے‘ ہم مسلمان ہر جمعہ کو ناخن تراشتے ہیں‘ بدن کے غیر ضروری بال صاف کرتے ہیں اور ہم تھوکنے اور جمائی لینے کو بدتہذیبی سمجھتے ہیں‘آپ نے کبھی سوچا کیوں؟ میں نے کورونا کے بعد وائرس کو پڑھنا شروع کیا تو پتا چلا ہماری فضا میں 196 وائرس‘ بیکٹیریا اور جراثیم ہوتے ہیں‘ یہ ہمارے جسم کے سات سوراخوں کے ذریعے ہمارے بدن میں داخل ہوتے ہیں‘ ان کا مقابلہ صرف ہماری قوت مدافعت کر سکتی ہے اور اس قوت کا گراف صبح نیند کے بعد سب سے اونچا‘ سب سے اوپر ہوتا ہے‘ یہ گراف ظہر کے بعد نیچے آنا شروع کرتا ہے اور یہ عشاء کے بعد اپنی پستی کو چھونے لگتا ہے لہٰذا بیماریوں کے وائرس زیادہ تر سہ پہر کے بعد انسان پر اثر انداز ہوتے ہیں‘ ہم مسلمان دن میں پانچ مرتبہ وضو کرتے ہیں۔

یہ وضو ہمارے جسم کے سات سوراخوں میں بیٹھے وائرس دھو دیتا ہے اور یوں ہم بیماریوں سے بچ جاتے ہیں‘آپ دیکھ لیجیے دنیا بھر کے ڈاکٹرز کورونا کے بعد مریضوں کو کیا مشورے دے رہے ہیں؟ یہ پوری دنیا کو کہہ رہے ہیں آپ بار بار ہاتھ اور منہ دھوئیں‘ ناک میں پانی ڈالیں اور غرارے کریں اور غسل بھی زیادہ سے زیادہ کریں‘ یہ کیا ہے؟ کیا یہ آدھا وضو نہیں اور کیا ہم مسلمان روز پانچ مرتبہ یہ نہیں کرتے؟ آپ کمال دیکھئے‘ قدرت جسمانی صفائی کے اس عمل کو سہ پہر کے بعد تیز کر دیتی ہے‘ ہم تین سے چار گھنٹوں کے درمیان ظہر‘ عصر اور مغرب کا وضو کرتے ہیں اور یہ وہ وقت ہے جب ہماری قوت مدافعت کا گراف نیچے جا رہا ہوتا ہے۔ ہمارے بزرگ ظہر کے وقت قیلولہ بھی کرتے تھے‘ کیوں؟

قیلولہ بھی انرجی بوسٹر ہوتا ہے‘ یہ ہماری قوت مدافعت بڑھاتا ہے اور عشاء کے وقت جب ہماری قوت مدافعت کا گراف زمین کو چھو رہا ہوتا ہے‘ اللہ ہم سے آخری وضو اور عشاء ادا کروا کر ہمیں نیند کی آغوش میں لے جاتا ہے اور ہم فجر کے وقت قوت مدافعت کے نئے گرڈ کے ساتھ دوبارہ اٹھ جاتے ہیں‘ ڈاکٹرز کورونا کے مریضوں کو یہ مشورہ بھی دے رہے ہیں آپ آٹھ سے دس گھنٹے نیند لیں اور ہلکی غذا کھائیں‘ یہ دونوں مشورے بھی ہمارے مذہب کا حصہ ہیں‘ مکمل نیند اور رات کے وقت ہلکی غذا‘ یہ دونوں عادتیں قوت مدافعت بڑھاتی ہیں‘ آپ ایک اور حقیقت ملاحظہ کیجیے‘ آپ کورونا کے حملے کے بعد دنیا کا ڈیٹا نکال کر دیکھیں‘ آپ کو دنیا کا ہر وہ شہر وائرس سے زیادہ متاثر ملے گا جہاں لوگ راتوں کو جاگتے رہتے تھے‘ جہاں لوگوں کی نیند کم تھی اور یہ جسمانی صفائی کا خیال نہیں رکھتے تھے‘ میں فرانس اور اٹلی بہت گیا ہوں‘ میں چینیوں کو بھی جانتا ہوں۔

یہ لوگ جسمانی صفائی میں بہت پست ہیں‘ چینی اوسطاً مہینے میں ایک بار نہاتے ہیں‘ فرانس اور اٹلی میں بھی نہانے بلکہ ہاتھ منہ دھونے کی روایت نہیں‘ آپ کسی دن صبح کے وقت میٹرو میں سفر کر کے دیکھ لیں‘ آپ کو لوگ بالخصوص خواتین تھوک سے آنکھیں صاف کرتی نظر آئیں گی‘یہ لوگ صبح اٹھتے ہیں‘ کپڑے پہنتے ہیں اور ہاتھ منہ دھوئے بغیر باہر نکل آتے ہیں‘ یہ کھانا کھانے سے پہلے اور بعد دونوں وقت ہاتھ نہیں دھوتے‘ یہ رفع حاجت کے بعد بھی صرف ٹشو استعمال کرتے ہیں لہٰذا یہ لوگ جسمانی صفائی میں ہم سے بہت پیچھے ہیں‘ یہ راتوں کو جاگتے شہروں میں بھی رہتے ہیں‘ اس کا یہ نتیجہ نکلتا ہے دنیا میں جب بھی کوئی بیماری پھیلتی ہے تو یہ اس کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں جب کہ ہم مسلمان ہر بار وباؤں سے بچ جاتے ہیں‘ ہم مسلمان اس بار بھی بچ رہے ہیں لیکن اس کا ہرگز ہرگز یہ مطلب نہیں ہمارے سسٹم میں سب اچھا ہے‘ ہم میں بھی بے شمار خرابیاں ہیں اور ہمیں اب ان پر توجہ دینا ہو گی مثلاً ہماری پہلی خرابی مسجدوں کے اندر استنجا خانے اور وضو خانے ہیں۔

اسلام کے ابتدائی آٹھ سو سال میں مساجد میں وضو خانے اور استنجا خانے نہیں ہوتے تھے‘ لوگ گھروں اور دکانوں میں وضو کرتے تھے اور نماز کے لیے مسجد آجاتے تھے تاہم لوگوں نے مسجدوں کے قریب پرائیویٹ استنجا خانے اور غسل خانے بنا رکھے تھے‘ یہ مسافروں کو ’’آن پے منٹ‘‘ وضو‘ غسل اور رفع حاجت کی سہولت دیتے تھے لیکن پھر مخیر حضرات نے مسافروں کی سہولت کے لیے مسجد کی حدود میں وضو خانے بنوانا شروع کر دیے‘ وضو خانے بنے تو استنجا خانے بھی بن گئے اور یوں بو‘ جراثیم اور گندا پانی مسجد کے اندر آنے لگا اور بیماریاں نمازیوں سے نمازیوں کو لگنے لگیں۔

کورونا نے ہمیں بھی ہماری غلطی سمجھا دی چناں چہ ہمیں بھی آج دوبارہ مسجد کی اصل روح کی طرف لوٹ جانا چاہیے‘ نمازی گھر‘ دکان یا دفتر سے وضو کر کے آئیں اور مسجد میں صرف نماز ادا کریں‘ اگر وضو خانے اور واش رومز ضروری ہوں تو یہ مسجد سے دور بنائے جائیں اور وہ بھی کیبن کی شکل میں ہوں تاکہ ایک نمازی کے چھینٹے دوسرے نمازی پر نہ پڑیں اور وضو کے بعد پانی بھی ’’پی ٹریپ‘‘ کے ذریعے فوراً نکل جائے‘ یہ رکے نہیں تاکہ جراثیم پیدا نہ ہوں‘ آپ اگر کبھی گوروں کے چرچ یا سیناگوگ میں جائیں تو یہ آپ کو صاف ستھرے ملتے ہیں‘کیوں؟ اس کی دو وجوہات ہیں‘ پہلی وجہ پانی ہے‘ چرچ اور سیناگوگ میں وضو خانے نہیں ہوتے لہٰذا فرش گیلے نہیں ہوتے چناں چہ وہاں داغ اور بو نہیں پھیلتی‘ دوسرا یہ ہال میں موم بتیاں جلاتے ہیں‘ موم بتی بو کو نگل جاتی ہے‘ ہماری مسجدوں میں بھی بجلی سے پہلے موم بتیاں جلائی جاتی تھیں‘ دوسرا لوگ مسجد میں وضو نہیں کر تے تھے اور یہ ننگے پاؤں مسجد کے ہال میں داخل نہیں ہو سکتے تھے۔

یہ بات آپ کے لیے یقینا حیران کن ہو گی مسجد اور جوتا یہ کیسے ممکن ہے لیکن یہ حقیقت ہے مسجد میں ننگے پاؤں ممانعت تھی‘ لوگ نماز کے لیے موزے پہنتے تھے‘ یہ باریک اور نرم چمڑے کی جرابیں ہوتی تھیں‘ لوگ مسجد کی دہلیز پر کھڑے ہو کر موزے پہن لیتے تھے اور واپس نکلتے ہوئے اتار کر تہہ کر کے جیب میں ڈال لیتے تھے‘ آپ پرانے کُرتے دیکھیں آپ کو ان کی دو سائیڈوں پر جیبیں ملیں گی‘ یہ جیبیں رقم کے لیے نہیں ہوتی تھیں‘ کیوں؟ کیوں کہ بیسویں صدی کے شروع تک دنیا میں نوٹ نہیں ہوتے تھے سکے ہوتے تھے اور سکے جیبوں میں نہیں ڈالے جاسکتے یہ تھیلیوں میں بھرے جاتے تھے لہٰذا سوال یہ پیدا ہوتا ہے پھر قمیضوں میں جیبیں کیوں ہوتی تھیں؟

یہ موزوں کے لیے ہوتی تھیں‘ دایاں موزہ دائیں جیب میں ڈالا جاتا تھا اور بایاں بائیں جیب میں چناں چہ ہم نے جب سے مسجدوں میں وضو شروع کیا اور موزے ترک کیے اس دن سے ہماری مسجدوں میں صفائی کا معیار خراب ہو گیا‘ آپ خود سوچیے ہم جب گیلے پاؤں لے کر اندر داخل ہوں گے تو مسجد کے فرش اور صفیں کیسے صاف رہیں گی لہٰذا میری درخواست ہے آپ مہربانی فرما کر اسلام کے اصل کی طرف لوٹ جائیں‘ پانچ وقت نماز پڑھیں‘ وضو کریں‘ وقت پر غسل کریں‘ مسجد میں صرف نماز ادا کریں‘ موزے یا جرابیں پہن کر مسجد جائیں‘ شریعت کے مطابق ہاتھ دھو کر کھانا کھائیں اور کھانے کے بعد بھی ہاتھ دھوئیں‘ مائع خوراک زیادہ لیں‘ آٹھ نو گھنٹے نیند لیں اور جہاں بیٹھتے ہیں اور جہاں سوتے ہیں وہ جگہ صاف رکھیں‘ آپ عمر بھر بیماریوں سے پاک رہیں گے۔

اسلام میں صفائی آدھا ایمان ہے اور یہ آدھا ایمان ہمارے ایمان کا پہلا حصہ ہے‘ ایمان کا دوسرا حصہ صفائی کے بعد آتا ہے‘ آپ کو اگر میری بات سمجھ نہیں آئی تو میں مزید عرض کر دیتا ہوں‘ نماز فرض ہے‘ اس فرض کے دو حصے ہیں‘ وضو اور پھر تکبیر تحریمہ‘ ہم اگر ( کسی شرعی عذر کے بغیر) وضو نہیں کرتے تو کیا ہم نماز کے لیے کھڑے ہو سکتے ہیں؟ جی نہیں لہٰذا پھر کیا مطلب ہوا؟ مطلب یہ ہوا صفائی ہمارے ایمان کا پہلا آدھا حصہ ہے‘ ہم جب تک یہ نہ کر لیں ہم ایمان کے دوسرے حصے یعنی عبادات کی طرف نہیں جا سکتے چناں چہ میں دل سے سمجھتا ہوں جو شخص صاف ستھرا نہیں وہ مسلمان نہیں ہو سکتا اور جو مسلمان ہے 196 وائرس مل کر بھی اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے! آپ یہ نقطہ ذہن میں رکھیں اور پھر بتائیں کیا کورونا مسلمانوں کا محسن نہیں‘ کیا یہ اسلام کا مبلغ ثابت نہیں ہو رہا؟ جی ہاں! یہ ہمارا بہت بڑا محسن ہے‘ اس نے ہمیں اسلام کی وہ روایات یاد کرا دیں جو ہم بھول چکے تھے اور یہ مبلغ اسلام بھی ہے‘ اس نے پوری دنیا کو بتا دیا مذہب صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے اسلام لہٰذا کورونا صاحب تسی گریٹ ہو‘ تسی زندہ باد ہو۔

جاوید چوہدری

بشکریہ ایکسپریس نیوز

ٹوکیو اولمپکس کے دوران نماز کی ادائیگی کے لیے موبائل مسجد

جاپان کے شہر ٹوکیو میں رواں سال ہونے والے اولمپک گیمز کے مسلمان ایتھلیٹس، حکام اور کھیلوں کے مقابلے دیکھنے والوں کے لیے ٹرکوں پر خصوصی مساجد کا قیام جاری ہے۔ ٹوکیو اولمپکس کا انعقاد رواں برس جولائی اور اگست میں ہو گا۔ جس میں نماز کی ادائیگی کے لیے ٹرکوں کے پچھلے حصے میں جگہ بنائی گئی ہے۔ ٹرک پر قائم مساجد شہر کی سڑکوں پر بھی گشت کرتی نظر آئیں گی۔ انہیں مسجد آن وہیل کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ ان چلتی پھرتی مساجد سے نماز کی جگہوں کا فقدان بھی ختم ہو جائے گا۔ اس سے پارک اور عوامی علاقوں میں نماز کی ادائیگی کی سہولت بھی میسر آجائے گی۔

موبائل مساجد جدید آلات سے آراستہ ہوں گی جن کی لمبائی، چوڑائی 48 مربع میٹر ہے۔ مسجد کا دروازہ ٹرک کے عقبی حصے میں کھلتا ہے۔ مسجد کی صفائی کے لیے جدید نظام بنایا گیا ہے جب کہ وضو کے لیے بھی متعدد نلکے نصب ہیں۔ مسجد میں قرآنی آیات آویزاں ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اسے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا سکے گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ٹوکیو 2020 تمام مذہبی گروہوں کے لیے مناسب سہولیات کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔ اس منصوبے کام کرنے والے ادارے ‘یاسو پروجیکٹ’ کے مطابق آرگنائزنگ کمیٹی کھیلوں کے دوران مذاہب اور مسالک کی فہرست تیار کر رہی ہے جس سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔
واسیڈا یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق 2018 کے آخر تک جاپان میں 105 مساجد تھیں۔

تحقیق میں سامنے آیا کہ بہت سی چھوٹی مساجد ٹوکیو کے مضافات میں واقع ہیں وہاں تک پہنچنے میں کافی وقت لگتا ہے اور پانچ وقت نماز کی ادائیگی کے اتنی دور جانے سے دقت پیش آ سکتی ہے۔ توپان رضکی اتراڈن، ایک انڈونیشی ہیں جو 12 سال سے جاپان میں مقیم ہیں وہ پہلی بار موبائل مسجد میں نماز کی ادائیگی کی غرض سے آئے۔ انہوں نے کہا کہ جاپان میں خاص طور پر ٹوکیو سے باہر نماز ادا کرنے کے لیے ایک پرسکون جگہ تلاش کرنا مشکل امر ہو سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرآپ شہر میں ہیں تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر آپ ٹوکیو سے باہر سڑک پر سفر کر رہے ہیں تو یہ مشکل ہے۔ کبھی کبھی میں ایک پارک میں نماز پڑھتا ہوں تو جاپانی مجھے دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

ٹوکیو اولمپکس کے دوران نماز کی ادائیگی کے لیے موبائل مسجد

جاپان کے شہر ٹوکیو میں رواں سال ہونے والے اولمپک گیمز کے مسلمان ایتھلیٹس، حکام اور کھیلوں کے مقابلے دیکھنے والوں کے لیے ٹرکوں پر خصوصی مساجد کا قیام جاری ہے۔ ٹوکیو اولمپکس کا انعقاد رواں برس جولائی اور اگست میں ہو گا۔ جس میں نماز کی ادائیگی کے لیے ٹرکوں کے پچھلے حصے میں جگہ بنائی گئی ہے۔ ٹرک پر قائم مساجد شہر کی سڑکوں پر بھی گشت کرتی نظر آئیں گی۔ انہیں مسجد آن وہیل کے نام سے پکارا جا رہا ہے۔ ان چلتی پھرتی مساجد سے نماز کی جگہوں کا فقدان بھی ختم ہو جائے گا۔ اس سے پارک اور عوامی علاقوں میں نماز کی ادائیگی کی سہولت بھی میسر آجائے گی۔

موبائل مساجد جدید آلات سے آراستہ ہوں گی جن کی لمبائی، چوڑائی 48 مربع میٹر ہے۔ مسجد کا دروازہ ٹرک کے عقبی حصے میں کھلتا ہے۔ مسجد کی صفائی کے لیے جدید نظام بنایا گیا ہے جب کہ وضو کے لیے بھی متعدد نلکے نصب ہیں۔ مسجد میں قرآنی آیات آویزاں ہیں۔ امید کی جا رہی ہے کہ اسے بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا سکے گا۔ حکومت کا کہنا ہے کہ ٹوکیو 2020 تمام مذہبی گروہوں کے لیے مناسب سہولیات کی فراہمی کے لیے کوشاں ہے۔ اس منصوبے کام کرنے والے ادارے ‘یاسو پروجیکٹ’ کے مطابق آرگنائزنگ کمیٹی کھیلوں کے دوران مذاہب اور مسالک کی فہرست تیار کر رہی ہے جس سے رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ واسیڈا یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق 2018 کے آخر تک جاپان میں 105 مساجد تھیں۔

تحقیق میں سامنے آیا کہ بہت سی چھوٹی مساجد ٹوکیو کے مضافات میں واقع ہیں وہاں تک پہنچنے میں کافی وقت لگتا ہے اور پانچ وقت نماز کی ادائیگی کے اتنی دور جانے سے دقت پیش آ سکتی ہے۔ توپان رضکی اتراڈن، ایک انڈونیشی ہیں جو 12 سال سے جاپان میں مقیم ہیں وہ پہلی بار موبائل مسجد میں نماز کی ادائیگی کی غرض سے آئے۔ انہوں نے کہا کہ جاپان میں خاص طور پر ٹوکیو سے باہر نماز ادا کرنے کے لیے ایک پرسکون جگہ تلاش کرنا مشکل امر ہو سکتا ہے۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگرآپ شہر میں ہیں تو کوئی حرج نہیں لیکن اگر آپ ٹوکیو سے باہر سڑک پر سفر کر رہے ہیں تو یہ مشکل ہے۔ کبھی کبھی میں ایک پارک میں نماز پڑھتا ہوں تو جاپانی مجھے دیکھ کر اندازہ لگانے کی کوشش کرتے ہیں کہ میں کیا کر رہا ہوں۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

مسواک کا استعمال کتنا فائدہ مند ہے ؟

مسواک کا استعمال سنت نبوی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہے جو کہ دانتوں کی صفائی کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔ نیم، زیتون، پیلو یا کسی بھی پودے کی ریشہ دار ٹہنی کو کہتے ہیں جو عام طور پر انگلی جتنی باریک اور ایک بالشت لمبی ہوتی ہے۔

مگر کیا آپ اس کے استعمال کے فائدے جانتے ہیں ؟

مسوڑوں کی سوزش اور پلاک سے تحفظ
دانتوں کی صفائی کے لیے مسواک کے استعمال سے منہ میں بیکٹریا کی سرگرمیوں کو روکنے میں مدد ملتی ہے جس سے پلاک (دانتوں پر جمنے والی گندگی) اور مسوڑوں کی سوزش جیسے مرض سے بچنے میں مدد ملتی ہے، مسواک میں موجود اینٹی بایوٹک بیکٹریا کی نشوونما کو روکتے ہیں۔

کسی لت سے نجات میں مددگار
طبی ماہرین کے مطابق اگر آپ کسی لت جیسے تمباکو نوشی وغیرہ کے عادی ہیں، تو مسواک کا استعمال اس سے نجات میں مدد دے سکتا ہے۔

مسوڑوں کو مضبوط بنائے
مسواک نہ صرف دانتوں کی صفائی کرتی ہے بلکہ مسوڑوں کو بھی مضبوط بناتی ہے۔

سانس کی بو سے نجات
مسواک کا استعمال معمول بنا لینا سانس میں بو کے مسئلے کو ہمیشہ دور رکھتا ہے۔

دانتوں کی سطح مضبوط بنائے
مسواک میں پوٹاشیم، سوڈیم، کلورائیڈ، کیلیشیئم آکسائیڈ اور سوڈیم بائی کاربونیٹ موجود ہوتا ہے، یہ منرلز دانتوں کی سطح مضبوط بنانے میں مدد دیتے ہیں۔

دانتوں کو سفید کرے
مسواک کا استعمال چائے، کافی، کھانے کے ذرات، تمباکو کی مصنوعات اور چھالیہ وغیرہ سے دانتوں پر لگنے والے داغوں کو کم کرنے بلکہ سفیدی واپس لانے کے لیے بھی فائدہ مند ہے۔

دانتوں کی فرسودگی سے بچائے
عمر بڑھنے کے ساتھ دانتوں کی فرسودگی عام مسئلہ ہوتا ہے اور وہ جلد ٹوٹنے لگتے ہیں، مسواک کا استعمال اس سے تحفظ دینے میں مدد دیتا ہے کیونکہ یہ جراثیموں کا خاتمہ کرتا ہے۔

دانت کا درد دور کرے
چونکہ مسواک کا استعمال بیکٹریا اور جراثیموں کا خاتمہ کرتا ہے تو دانتوں کے درد سے ریلیف کے لیے بھی یہ مدد دیتا ہے۔