رمضان، قرآن اور ہم

چوں کہ روزہ ایک ایسی ریاضت کا نام ہے جو انسان کی نفسانی خواہشات و دیگر تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالتا ہے۔ پہلی امّتوں کو بھی روزے کا حکم دیا گیا تھا۔ مگر امت محمدیؐ کے لیے سال میں صرف ایک ماہ کے روزے فرض کیے گئے۔ اور روزے کا وقت طلوع سحر سے لے کر غروب آفتاب تک رکھا گیا، جو مزاج انسانی کے لیے انتہائی معتدل اور مناسب وقت ہے۔ اگر اس وقت میں کمی یا زیادتی کر کے دیکھا جائے تو بھی انسان وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکتا جو طلوع سحر سے غروب آفتاب کے درمیان اپنے نفس کی تربیّت اور ریاضت کر کے حاصل کر لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان اس مبارک ماہ میں اپنے رب کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے نبی اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر سحر و افطار اور عبادت و ریاضت کا خصوصی اہتمام کرتے ہوئے سعادت و نیک بختی کے راستے پر گامزن ہوتے ہیں۔

رسول کریمؐ کے فرمان گرامی کا مفہوم ہے : ’’جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنّات جکڑ دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ ان میں سے کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا۔ اور جنّت کے تمام دروازے کھول دیے جاتے ہیں، اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا، اور اﷲ کا منادی پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب! قدم بڑھا کے آگے آ، اور اے بدی اور بدکاری کے شائق رک، آگے نہ آ، اور ﷲ کی طرف سے بہت سے گناہ گار بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے۔ اور یہ سب رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔‘‘  سنن ابن ماجہ

حضرت سلمان فارسیؓ فرماتے ہیں کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول ﷲ ﷺ نے ایک خطبے میں فرمایا، مفہوم: ’’ اے لوگو! تم پر عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے۔ اس مبارک مہینے کی ایک رات (شب قدر) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اس مہینے کے روزے ﷲ تعالی نے فرض کیے ہیں اور اس کی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں (نماز تراویح) کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔ جو شخص اس مہینے میں ﷲ کی رضا اور اس کا قُرب حاصل کرنے کے لیے کوئی غیر فرض عبادت (سنّت یا نفل) ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر ثواب ملے گا۔

اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستّر فرضوں کے برابر ملے گا۔ یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنّت ہے۔ یہ ہم دردی اور غم خواری کا مہینہ ہے، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔ جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (ﷲ کی رضا اور ثواب کے لیے) افطار کرایا تو اس کے لیے گناہوں کی مغفرت اور آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہو گا، اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔ بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔

صحابہ کرامؓ نے عرض کیا: اے ﷲ کے رسول ﷺ! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کرانے کا سامان میسر نہیں ہوتا (تو کیا غرباء اس ثواب سے محروم رہیں گے؟) آپ ﷺ نے فرمایا: ’’ ﷲ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروا دے۔ پھر فرمایا کہ جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو ﷲ تعالی میرے حوض (کوثر) سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی۔ یہاں تک کہ وہ جنّت میں پہنچ جائے گا۔ اس کے بعد فرمایا: اس ماہ مبارک کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی مغفرت ہے اور آخری آتش جہنّم سے آزادی ہے۔ جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں کمی کر دے گا، ﷲ تعالی اس کی مغفرت فرما دے گا اور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے گا۔

حضرت ابوہریرہ ؓروایت فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیّت سے رمضان کے روزے رکھے اور شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیّت سے عبادت کرے، تو اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔‘‘ حضرت عبداﷲ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا: ’’روزہ اور قرآن دونوں بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ عرض کرے گا: اے میرے پروردگار! میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا، آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمائیے۔ اور قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا۔ پروردگار! آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمائیے۔ چناں چہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس کے حق میں قبول فرمائی جائے گی۔

ایک رات حضرت عمر ؓ شہر کی دیکھ بھال کے لیے نکلے تو ایک مکان سے کسی مسلمان کے قرآن پڑھنے کی آواز سنائی دی، آپؓ نے سواری روکی اور کھڑے ہو کر سننے لگے۔ جب وہ اس آیت پر پہنچے: ’’ بے شک آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر ہی رہے گا، اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں۔‘‘ تو حضرت عمرؓ کی زبان بے ساختہ یہ الفاظ نکلے: ’’رب کعبہ کی قسم سچ ہے۔‘‘ پھر آپ ؓ سواری سے اترے اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے، یہاں تک کے چلنے پھرنے کی طاقت بھی نہ رہی۔ یہ تو وہ بزرگ، مقدس و مطہر شخصیات تھیں جن سے ﷲ رب العزت راضی ہو نے کا اعلان خود قرآن میں کر چکے تھے، مگر اس کے باوجود بھی ان کا یہ حال تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہم مسلمانی کا دعوی کرنے کے بعد کس موڑ پر کھڑے ہیں؟ کیا ہم نے اس طرح قرآن کریم میں غوطہ زن ہو کر اس کے رموز و اسرار کو پانے کی کوشش کی؟ کیا ہماری نوجوان نسل شعور قرآنی کو حاصل کرنے کی خواہاں ہے ؟ کیا ہماری خواتین مسائل قرآنی کو سمجھنے کی کوشش کرتی ہیں؟ کیا ہم میں قرآن کو سمجھنے کی تڑپ ہے۔۔۔۔ ؟

آئیے، آج سچی تڑپ کے ساتھ اپنے قلوب کو بیدار کیجیے، اور اس ماہ رمضان کی آمد پر عہد کیجیے کہ نبی آخرالزماں ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر، ان کے صحابہؓ کی سی تڑپ کو اپنے دلوں میں سلگا کر، قرآن کریم کو صرف پڑھنے ہی نہیں بل کہ ہر حرف میں ڈوب کر، آیات کو سمجھ کر ﷲ رب العزت کے دیے گئے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔

محمد عمر قاسمی

رمضان المبارک : نیکیوں کا موسم ِ بہار

رمضان المبارک کا ماہ ِ مبارک اپنے جلو میں بہت زیادہ رحمتوں کو لے کر آتا ہے ۔اس مہینے میں نیکیوں کے امکانات دیگر مہینوں کے مقابلے میں بہت زیادہ بڑھ جاتے ہیں۔ رمضان المبارک میں کی جانے والی کئی عبادات خصوصی اہمیت کی حامل ہیں جن میں سے چند اہم عبادات درج ذیل ہیں:۔

 ۔ روزہ: رمضان المبارک کے ماہِ مبارک میں روزہ رکھنا ہر بالغ اور صحت مند مسلمان پر فرض ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183 میں اعلان فرماتے ہیں : ”رمضان کا مہینہ وہ ہے ‘جو نازل کیا گیا ہے‘ اس میں قرآن (جو) ہدایت ہے لوگوں کے لیے اور روشن دلائل ہیں ہدایت کے اور (حق و باطل کے درمیان) فرق کرنے کے پس جو موجود ہو (گھر میں) تم میں سے کوئی (اس) مہینے میں تو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے۔‘‘ رمضان المبارک کے ماہ مبارک میں جہاں ہر بالغ اور صحت مند پر روزہ رکھنا فرض ہے‘ وہیں پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے اس مہینے میں مریضوں اور مسافروں کو خصوصی رعایت دی۔ اگر کوئی شخص سفر یا مرض کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکے تو اُسے سال کے باقی ماندہ ایام میں گنتی کو پورا کرنے کی رخصت دی گئی ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 185 میں ارشاد فرماتے ہیں: ” اور جو بیمار ہو یا سفر پر ہو تو گنتی پوری کرے دوسرے دنوں سے۔ چاہتا ہے اللہ تمہارے ساتھ آسانی کرنا اور وہ نہیں چاہتا تمہارے ساتھ سختی کرنا اور تاکہ تم پورا کر لو گنتی (تعداد) کو اور تاکہ تم بڑائی بیان کرو اللہ کی اس (احسان) پر جو اس نے ہدایت دی تم کو اور (اس لیے) تاکہ تم شکر ادا کرو۔‘‘ روزہ دار رمضان المبارک کے ماہ مبارک میں صبح سے لے کر شام تک اپنی بھوک‘ پیاس اور جائز نفسانی خواہشات پر قابو پا کر درحقیقت اس بات کی مشق اور اظہار کرتا ہے کہ جس رب تعالیٰ کے حکم پر حلال چیزوں کو عارضی طور پر ترک کر دیا گیا اُسی پروردگار کے حکم پر حرام چیزوں سے بھی مکمل اجتناب کیا جائے گا ۔ اللہ تعالیٰ نے روزے کے اس عظیم مقصد کو بڑے خوبصورت انداز میں سورہ بقرہ کی آیت نمبر 183 میں یوں بیان فرمایا ہے : ”اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو فرض کئے گئے ہیں تم پر روزے جیسا کہ فرض کئے گئے ان لوگوں پر جو تم سے پہلے (تھے) تاکہ تم بچ جاؤ (گناہوں سے) ۔

قرآن مجید کے مختلف مقامات پر غوروفکر کرنے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تقویٰ اختیار کرنے کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ انسان کے معاملات کو آسان بنا دیتے‘ اس کے گناہوں کو معاف کر دیتے‘ اس کی تنگیوں کو دور کر دیتے اور      اس کو رزق وہاں سے دیتے ہیں‘ جہاں سے وہ گمان بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ کی نظروں میں متقی شخص عزت دار ہو جاتا ہے اور اللہ تبارک و تعالیٰ آسمان اور زمین سے اہل تقویٰ کے لیے برکات کو کھول دیتے ہیں۔ احادیث مبارکہ میں رمضان المبارک کے روزے رکھنے کے حوالے سے بہت سی خوبصورت باتیں ارشاد ہوئیں‘ جن میں سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:۔

صحیح بخاری میں حضرت ابوھریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ‘ جس نے رمضان کے روزے ایمان کی حالت میں اور اجر طلب کرتے ہوئے رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے۔ اس حدیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان اگر صحیح طریقے سے روزہ رکھے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی سابقہ خطاؤں کو معاف کر دیتے ہیں۔ انسان یقینا خطا کار ہے اور اس کو ہر اس موقع سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے‘ جس سے اُس کے گناہ معاف ہو جائیں۔ رمضان المبارک کا مہینہ یقینا ہمارے لیے غنیمت ہے اور ہمیں اس موقع کو کسی بھی طور پر ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

  ۔ تراویح : رمضان المبارک میں روزے کی فرضی عبادت کو بجا لانے کے ساتھ ساتھ اہم نفلی عبادت رات کو تراویح کا اہتمام کرنا ہے۔ تمام مسلمان اس نفلی عبادت کو خصوصیت سے بجا لانے کی کوشش کرتے ہیں اور دیکھنے میں آیا ہے کہ رمضان المبارک میں تراویح کی ادائیگی کے لیے بہت زیادہ ذوق وشوق کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ یہ قیام خصوصی اہمیت کا حامل ہے اور احادیث مبارکہ میں اس حوالے سے بہت سے خوبصورت ارشادات موجود ہیں۔ اس حوالے سے صحیح مسلم کی ایک حدیث درج ذیل ہے: ”حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس شخص نے ایمان ( کی حالت میں ) اور اجر طلب کرتے ہوئے رمضان کا قیام کیا اس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دیئے گئے ۔

  ۔ قرآن مجید کی تلاوت : ویسے تو مسلمانوں کو سارا سال قرآن مجید کو پڑھتے رہنا چاہیے‘ لیکن چونکہ رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید کا نزول فرمایا اس لیے خصوصیت سے اس مہینے میں قرآن مجید کی تلاوت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ قرآن مجید کی تلاوت ایک بہت بڑی نیکی ہے اور اس کی تلاوت کے حوالے سے بہت سی خوبصورت باتیں احادیث مبارکہ میں مذکور ہیں ۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے : ”صحیح بخاری میں حضرت عائشہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺنے فرمایا کہ اس شخص کی مثال جو قرآن پڑھتا ہے اور وہ اس کا حافظ بھی ہے‘ مکرم اور نیک لکھنے والے ( فرشتوں ) جیسی ہے اور جو شخص قرآن مجید باربار پڑھتا ہے‘ پھر بھی وہ اس کے لیے دشوار ہے تو اسے دوگنا ثواب ملے گا۔‘‘ قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر غور و فکر کرنا ‘ اس پر عمل کرنا ‘ اس کی تبلیغ کرنا اور اس کے قیام کی کوشش کرنا بھی اہل ایمان کی ذمہ داری ہے۔ رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے میں ہمیں قرآن مجید کے تمام حقوق کی ادائیگی کے لیے پر عزم ہوجانا چاہیے۔

 ۔ دعا: ویسے تو انسانوں کو سارا سال ہی اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا مانگتے رہنا چاہیے ‘ لیکن رمضان المبارک میں اس سلسلے کو خصوصیت سے جاری وساری رکھنا چاہیے۔ جب ہم قرآن مجید کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جہاں پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزوں کی فرضیت کا ذکر کیا اس کے ساتھ ہی دعا کا بھی ذکر کیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 186 میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اورجب آپ سے پوچھیں میرے بندے میرے بارے میں تو (بتا دیں) بے شک میں قریب ہوں میں قبول کرتا ہوں دعا کرنے والے کی پکار کو جب وہ پکارے مجھے پس چاہیے کہ (سب لوگ) حکم مانیں میرا اور چاہیے کہ وہ ایمان لائیں مجھ پر تاکہ وہ راہِ راست پا لیں۔

 ۔ عمرہ: عمرہ ایک خصوصی عبادت ہے ‘جس کو سال کے کسی بھی مہینے میں کیا جا سکتا ہے‘ لیکن رمضان المبارک کے مہینے میں کیے گئے عمرے کا خصوصی اجر وثواب ہے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: ”صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ ابن عباس ؓسے روایت ہے کہ جب رسول کریم ﷺ حجۃ الوداع سے واپس ہوئے تو آپ ﷺ نے اُم سنان (انصاریہ عورت) رضی اللہ عنہا سے دریافت فرمایا کہ تو حج کرنے نہیں گئی؟ انہوں نے عرض کی کہ فلاں کے باپ‘ یعنی میرے خاوند کے پاس دو اونٹ پانی پلانے کے تھے ایک پر تو خود حج کو چلے گئے اور دوسرا ہماری زمین سیراب کرتا ہے۔ آپ ﷺ نے اس پر فرمایا کہ رمضان میں عمرہ کرنا میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔

 ۔ لیلۃ القدر کی جستجو: رمضان المبارک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں لیلۃ القدر کی جستجو کرنا بھی انتہائی نیکی وثواب کا کام ہے۔ لیلۃ القدر میں کی گئی عبادت کا اجر و ثواب ایک ہزار مہینے کی گئی عبادت کے برابر ہے۔ لیلۃ القدر کی اہمیت کے حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ ؓسے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ‘جس نے رمضان کے روزے ایمان اور خالص نیت کے ساتھ رکھے اس کے پچھلے گناہ بخش دیئے گئے اور جو لیلۃ القدر میں ایمان اور احتساب کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے اس کے بھی اگلے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔

 ۔ اعتکاف: رمضان المبارک کے آخری عشرے کا اعتکاف کرنا نبی کریم ﷺ کی سنت مبارکہ ہے اوراس پر مداوم کرنے سے انسان کو علم ‘ حکمت‘ دانائی‘ بصیرت‘ للہیت حاصل ہوتی ہے۔ انسان حالت اعتکاف میں پوری دنیا سے کٹ کر جب اللہ تبارک وتعالیٰ کی قربت اور رضا کے حصول کی جستجو کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ بھی اس کی جستجو اور تمنا کو پورا کرتے ہوئے اپنی قربت اور رضا کے حصول کو اس کے لیے آسان بنا دیتے ہیں۔

  توبہ واستغفار: توبہ واستغفار ہر حال میں اور ہر موقع پر کرنی چاہیے‘ لیکن رمضان المبار ک میں خصوصیت سے انسان کو توبہ واستغفار کا التزام کرنا چاہیے۔ جو انسان خلوص نیت سے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں آکر توبہ واستغفار کرتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس کی تمام خطاؤں کو معاف فرما دیتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ نیکیوں کے اس موسم ِبہار (رمضان المبارک) سے ہمیں صحیح طریقے سے مستفید ہونے کی توفیق دے اور ہمیں بڑھ چڑھ کے نیک کاموں اور عبادت کرنے والے لوگوں میں شامل فرمائے۔ آمین

علامہ ابتسام الہٰی ظہیر

Pakistan’s roadside iftar feeds thousands in Ramadan

As the sun begins to fade in the Muslim holy month of Ramadan, volunteers start fixing traditional delicacies and drinks on scores of tables at different points of Karachi’s main University Road. Others roll large plastic mats on the stony footpaths and fill them with food. Motorists pull over hurriedly and join small crowds of people of all ages already gathered around the tables or occupying the plastic mats. As the call for maghrib (sunset) prayer resounds from a nearby Mosque, they break their fast. Another group of volunteers hand packets of food and bottles of water and juice to the fasting people sitting in their vehicles and public transport, who do not opt to stop. Some 50 meters away, a different group of volunteers makes preparations for dinner to be served soon after iftar (fast-breaking). This all creates a brief traffic jam at this portion of the road.
Every Ramadan, hundreds of stalls are set up at the corners of city roads by relief organizations, and local residents where homeless people, vendors, rickshaw and taxi drivers, laborers, beggars and even those who do not fast are served free food and drinks for the whole month. At several points, dinner is also served. A few individuals had started to arrange roadside iftar during Ramadan for needy people in Karachi — home to over 15 million people and the country’s commercial capital — two decades ago, which now has become a tradition. In no time, this tradition was adopted by scores of other cities including the capital Islamabad, where roadside iftar stalls feed tens of thousands of people during Ramadan.
So much so, the country’s tiny Sikh community has been hosting iftar for Muslims in historic Qissa Khawani Bazaar and several other points in northwestern Peshawar city for the last several years. “This is my sixth year to break the fast here”, Abdul Hameed, an Afghan refugee, told Anadolu Agency at a roadside stall on the University Road in Karachi. Hameed together with his other colleagues work as a scavenger in the city’s eastern district far from his residence, and cannot afford to buy iftar. “Mostly, we cannot reach home on time due to traffic jams and scanty transport. This (roadside stall) has resolved the iftar issue”, he added.
The fasting people are served traditional delicacies — including samosa (a deep-fried triangular savory pastry filled with potato and spices), pakora (deep-fried spicy snacks made from gram flour), fruit chaat, dates, and juices. For dinner, Biryani (a spicy mixture of rice and meat) is the favorite dish of the people of Karachi. “At least in Ramadan, we fully fill our stomach”, Hameed said in a lighter vein as his colleagues laughed loudly. Abdullah, a rickshaw driver is another regular visitor of this site during Ramadan. “It’s hard for me to go home [for iftar] and come back to work. Here, I get good and enough food, and save money that I spend on my family,” he told Anadolu Agency.
– Act of kindness
Zar Mohammad, one of the organizers, said he together with his friends and philanthropists, has been arranging free iftar meals for the last 20 years in a row. “From first to last (evening) of Ramadan, we break our fast with these people here. sometimes our families also join us,” Zar Mohammad, who is also a prayer leader at a Mosque, told Anadolu Agency. About finances, Mohammad said the friends and families themselves, area shopkeepers, philanthropists and even common citizens, all chip in to arrange the event during the holy month.
“We do not have to run here and there for finances. A month before (Ramadan), we simply start to chip in and by the end of the month, we have plenty of funds to manage this all,” he said, adding: “It has become a set tradition now. People trust us, and hand over huge amounts even without disclosing their names.” Around 1,000 people, including travelers, are served every day during Ramadan at this point, according to Mohammad. Bhopal Singh, who arranges iftar in Qissa Khawani Bazaar in Peshawar said he was pursuing the mission of his late father who worked for interfaith harmony in Muslim-majority Pakistan.
“For the last four years, I had been arranging iftar for my Muslim brothers here. But this year, we have changed the strategy due to security threats,” Singh told Anadolu Agency, referring to threats received by the organizers last year from some militant groups that objected to their gesture. “Unfortunately, some elements do not want interfaith harmony here,” he regretted, saying “Therefore, this year we are distributing ration among needy Muslims, and arranging iftar for prisoners in jail to avoid any mishap”. Monis Shaikh, a student of commerce faculty at Zulfikar Ali Bhutto University in Karachi, was excited as it was his first day as a volunteer. “This is our first day to serve here,” Shaikh said, with a nervous smile on his face pointing at a group of 8-10 students who were given instructions by an organizer.
The group plans to volunteer throughout the remaining days of Ramadan. “Allah has blessed us with everything. It’s our duty to serve and help his creation. This is the real message of Ramadan,” he said.
Courtesy : Yeni Safak  

رمضان کا بھرپور فائدہ کیسے اٹھائیں؟

رمضان روحانی عبادت کے ساتھ جسمانی مشقت بھی ہے کیونکہ سونے، جاگنے، کھانے، پینے اور کام وغیرہ کی سب روٹین بدل جاتی ہے اور یوں اچانک روز مرہ امور کی روٹین بدلنے سے اکثر مسلمان بہت سے جسمانی و ذہنی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان مشکلات سے بچنے اور رمضان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے منظم کوشش اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سب سے مفید عمل تو یہ ہے کہ رمضان کی آمد سے پہلے ہی جسمانی طور خود کو تیار کیا جائے، جیسے صرف صحت مند غذا کا استعمال، ضروری نیند کو یقینی بنانا اور ورزش کا باقاعدہ اہتمام کرنا ہے ۔

پانی کے علاوہ پھل اور سبزیوں کا بھی زیادہ استعمال پہلے سے شروع کر دینا چاہیے، پھر رمضان سے قبل نفلی روزے رکھنے اور نماز فجر سے کچھ جلدی اٹھ کر قرآن کی تلاوت کرنے کی عادت اپنانے سے بھی رمضان بہتر انداز میں گزارنے میں مدد حاصل ہوتی ہے ۔ خیر اب جبکہ رمضان باضابطہ طور پر شروع ہو چکا، تو آئیے رمضان کو بہتر بنانے کے چند طریقے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
رمضان المبارک میں اپنے آرام، بالخصوص نیند کا بہت خیال رکھیں کیونکہ عام طور پر اس میں بہت زیادہ بے احتیاطی ہوتی ہے۔ بلاشبہ رات گئے تراویح سے لوٹنے کے بعد سحری میں جلد اٹھنے کی وجہ سے رات کی نیند کا وقت کم ملتا ہے، اس لیے اگر ممکن ہو تو رات کو تراویح کے بعد سحر تک جاگنے کو معمول بنائیں۔ اس دوران قرآن مجید یا دیگر کتب کا مطالعہ کریں۔

نیند کیسے پوری کریں؟

رمضان میں خاص طور پر موسم گرما میں راتیں چھوٹی ہونے کی وجہ سے نیند بہت متاثر ہوتی ہے اور شاید گرمی سے بھی زیادہ آپ کی صحت پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے۔ اس لیے جب بھی موقع ملے نیند پوری کریں۔ خواہ مختصر وقت ہی میں سہی، لیکن نیند لے لی جائے تو آپ تازہ دم ہو سکتے ہیں۔ اس سے دیگر امور بھی بہتر انداز میں انجام دئیے جا سکیں گے۔ رمضان میں اپنے پورے دن کو مصروف رکھنے کی کوشش کریں اور فارغ بیٹھ کر ہرگز وقت ضائع نہ کریں۔ خاص طور پر انٹر نیٹ اور ایسی خرافات سے دور رہیں۔ افطار سے قبل اور سحری میں بھی اپنے خاندان اور بچوں کے ساتھ مثبت گفتگو میں حصہ لیں تاکہ ان میں رمضان کی قدر و اہمیت پیدا ہو۔

سخاوت اپنائیں ، روزے کا ایک مقصد دل کو نرم کرنا اور غریبوں کا احساس کرنا ہے۔ اس لیے سخاوت اور کشادہ دِلی اس مہینے کا ایک اہم تصور ہے۔ یہاں جتنا بھی ہو سکے ضرور آگے بڑھیں۔ کسی غریب، ضرورت مند کو کھانا کھلانا، اس کے لیے اشیائے ضرورت کا اہتمام یا عید کی تیاری میں حصہ ڈالنا تو سخاوت ہے اور یقینا یہ بہترین عمل ہے، مگر مالی لحاظ سے مدد کے لیے کچھ نہ بھی ہو تو اپنا قیمت وقت بانٹیں ۔ کسی کے ساتھ مسکرانا، کس تنہا بزرگ یا شخص کے ساتھ وقت گزارنا یا کسی بیمار کی تیمار داری بھی اسی میں شمار ہو گی۔

بہت سے افراد کو روزوں سے استثنا حاصل ہے، مثلاً مسافر، بزرگ، بیمار، حاملہ خواتین وغیرہ۔ اگر کوئی ان کے زمرے میں بھی آتا ہے تو اس مہینے تزکیہ نفس کے لیے روزے کے متبادل طریقے تلاش کرے۔ جیسا کہ تلاوت قرآن مجید، خیرات و صدقات، رضاکارانہ خدمات وغیرہ، جو بآسانی انجام دے سکے ۔ پانی کی کمی ، رمضان المبارک میں طویل روزے ہونے کے باوجود سحر سے افطار تک بھوک تو برداشت ہو جاتی ہے، لیکن پیاس کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ ان گرم دنوں میں روزہ رکھنے کے لیے پانی کا کافی استعمال نہ کرنے کی صورت میں پانی کی کمی واقع ہو سکتی ہے اور بیمار ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ اس لیے سحری میں پانی کافی استعمال کریں اور افطار کے بعد بھی پانی میں کمی نہ آنے دیں۔

تعلقات میں اضافہ ، رمضان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خاندان، دوست احباب اور محلے داروں سے باہم روابط کو مزید مستحکم کریں۔ چاہے ایک ساتھ نماز و تراویح کا اہتمام ہوں یا دعوت افطار۔ اگر آپ کے لیے اکیلے اجتماعی دعوت افطار کا بندوبست کرنا مشکل ہو، تو باہمی اشتراک سے ایک دعوت کریں۔ اپنے حلقہ احباب اور آس پڑوس کے افراد میں اخوت و محبت کا جذبہ پروان چڑھانے میں آپ کا یہ قدم بہت مددگار ثابت ہو گا۔ افطار میں احتیاط طویل اور گرم دنوں کا روزہ ہو تو پورا دن بھوکا پیاسا رہنے کے بعد افطار کے وقت زیادہ کھانے کی طرف دل راغب ہو گا، لیکن یک دم بہت کچھ کھا پی لینا آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے، اس لیے افطار آہستہ آہستہ اور ترتیب سے کریں۔

کجھور سے روزہ کھولنے کے بعد پانی، جوس، دودھ یا کسی مشروب کا استعمال کریں۔ افطار میں ہلکا پھلکا کھائیں اور کھانے کو رات کے لیے موخر کر دیں۔ اس سے آپ کے ہاضمے کے نظام پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ قرب الٰہی رمضان کا اصل مقصد عبادت ہے۔ اس لیے اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ انفرادی عبادت کریں۔ رات کے کسی پہر اٹھیں، یہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا بہترین وقت ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کریں۔ تنہائی میں عبادت کا بہترین ذریعہ اعتکاف ہے۔ لیلۃ القدر کی تلاش ، لیلۃ القدر کی بہت فضیلت ہے اور قرآن مجید میں اسے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے ضرور تلاش کریں۔

ان راتوں میں نوافل ادا کریں، تلاوت قرآن کریں اور دعائیں مانگیں۔ یہ راتیں آپ کے رمضان میں اٹھائے گئے، تجربے کا اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہیں۔ رمضان تربیت، باقی سال عملی نفاذ رمضان کے تجربے سے آپ جو کچھ سیکھیں، اسے باقی 11 مہینوں میں اپنی زندگی کا عملی حصہ بنا کر دیکھیں۔ رمضان میں ہماری شخصیت میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آتی ہیں۔ ایک تنظیم اور توازن قائم ہوتا ہے اور بدقسمتی سے ہم عید کے دن ہی اس کو ضائع کر دیتے ہیں۔ اسے کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ عبادات کے روحانی تعلق سے لے کر صحت و متوازن غذا اور ظم و ضبط کی پابندی جیسے دنیاوی فوائد تک ان کے ثمرات سال بھر حاصل کریں ۔ رمضان ختم ہوتے ہی پرانے طرزعمل پر نہ لوٹیں، پھر اس ماہ مبارک میں اللہ کی ذات سے جو تعلق قائم ہوا ہے، دوست احباب و خاندان کے افراد سے روابط میں جو بہتری قائم ہوئی ہے، غریب لوگوں کی مدد کا جو سلسلہ چلا ہے، اسے اگلے رمضان تک جاری رکھیں۔ اس طرح آپ کو اپنی تمام زندگی میں ایک واضح اور بڑی تبدیلی محسوس ہو گی ۔

بشکریہ دنیا نیوز

مسائل و احکامات رمضان المبارک

رمضان المبارک کے روزے رکھنا اسلام کا تیسرا فرض ہے۔ جو اس کے فرض ہونے کا انکار کرے مسلمان نہیں رہتا اور جو اس فرض کو ادا نہ کرے وہ سخت گناہ گار اور فاسق ہے۔
روزے کے لیے نیت شرط ہے، دل کے ارادے کو نیت کہتے ہیں، اگر روزے کا ارادہ نہ کیا اور تمام دن کچھ کھایا پیا نہیں تو روزہ نہیں ہوگا۔
جن چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے:
(1) کان اور ناک میں دوا ڈالنا (2) قصداً منہ بھر کے قے کرنا (3) کلی کرتے ہوئے حلق میں پانی چلا جانا (4) عورت کو چھونے وغیرہ سے انزال ہوجانا (5) کوئی ایسی چیز نگل لینا جو عام طور پر نہیں کھائی جاتی جیسے لکڑی، لوہا، گیہوں کا دانہ وغیرہ (6) کسی خوشبودار چیز، بیڑی، سگریٹ اور حقے کا دھواں قصداً ناک یا حلق میں پہنچانا (7) بھول کر کھا پی لیا اور یہ خیال کیا کہ اس سے روزہ ٹوٹ گیا ہوگا پھر قصداً کھا پی لینا (8) رات سمجھ کر صبح صادق کے بعد سحری کھالینا (9) غروب آفتاب سے پہلے غلطی سے روزہ افطار کرلینا۔ ( نوٹ: ان سب چیزوں سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر صرف قضا واجب ہوتی ہے، کفارہ لازم نہیں ہوتا)
وہ چیزیں جن سے روزہ ٹوٹتا نہیں، مگر مکروہ ہوجاتا ہے:
(1) بلا ضرورت کسی چیز کو چبانا یا نمک وغیرہ چکھ کر تھوک دینا، ٹوتھ پیسٹ یا منجن یا کوئلے سے دانت صاف کرنا بھی روزے کی حالت میں مکروہ ہیں۔
(2) تمام دن حالت جنابت میں بغیر غسل کیے رہنا۔
(3) فصد کرانا یا کسی مریض کے لیے اپنا خون دینا۔
(4) غیبت کرنا ہر حال میں حرام ہے۔
(5) روزہ میں لڑنے جھگڑنے اور گالی دینے سے بھی روزہ مکروہ ہوجاتا ہے۔
(وہ چیزیں جن سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور مکروہ بھی نہیں ہوتا)
٭ مسواک کرنا ٭ سر پر تیل لگانا ٭ آنکھوں میں دوا یا سْرمہ ڈالنا ٭ خوش بو سونگھنا ٭ گرمی اور پیاس کی وجہ سے غسل کرنا ٭ انجکشن لگوانا ٭ بھول کر کھانا پینا ٭ خود بخود قے آجانا ٭ سوتے ہوئے احتلام ہوجانا ٭ دانتوں میں سے خون نکلے، مگر حلق میں نہ جائے تو روزے میں خلل نہیں آتا ٭ اگر خواب میں یا صحبت سے غسل کی حاجت ہوگئی اور صبح صادق ہونے سے پہلے غسل نہیں کیا اور اسی حالت میں روزہ کی نیت کرلی تو روزہ میں خلل نہیں آیا۔
(وہ عذر جن سے رمضان میں روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے)
(1) بیماری کی وجہ سے روزے کی طاقت نہ ہو، یا مرض بڑھنے کا شدید خطرہ ہوتو روزہ نہ رکھنا جائز ہے، لیکن قضا لازم ہے۔
(2) جو عورت حمل سے ہو اور روزہ میں بچہ کو یا اپنی جان کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو تو روزہ نہ رکھے، بعد میں قضا کرے۔
(3) جو عورت اپنے یا کسی کے بچے کو دودھ پلاتی ہے، اگر روزے سے بچہ کو دودھ نہیں ملتا اور تکلیف پہنچتی ہے تو روزہ نہ رکھے پھر قضا کرے۔
(4) مسافر شرعی کے لیے اجازت ہے کہ روزہ نہ رکھے، پھر اگر کچھ تکلیف و دقت نہ ہو تو افضل یہ ہے کہ سفر ہی میں روزہ رکھ لے اگر خود اپنے آپ کو یا اپنے ساتھیوں کو اس سے تکلیف ہوتو روزہ نہ رکھنا ہی افضل ہے۔
(5) بحالت روزہ سفر شروع کیا تو اس کا پورا کرنا ضروری ہے۔
(6) کسی کو قتل کی دھمکی دے کر روزہ توڑنے پر مجبور کیا جائے تو اس کے لیے توڑ دینا جائز ہے پھر قضا کرلے۔
(7) کسی بیماری یا بھوک پیاس کا اتنا غلبہ ہوجائے کہ کسی ماہر طبیب کے نزدیک جان کا خطرہ لاحق ہوتو روزہ توڑ دینا جائز، بلکہ واجب ہے اور پھر اس کی قضا لازم ہے۔
(8) عورت کے لیے ایام حیض و نفاس کے دوران روزہ رکھنا جائز نہیں۔ لیکن بعد میں قضا کرے۔ (نوٹ) قضا روزوں میں اختیار ہے کہ متواتر رکھے یا ناغہ کرکے رکھے۔
سحری: روزہ دار کو صبحِ صادق سے پہلے سحری کھانا مسنون اور باعثِ برکت و ثواب ہے۔ نصف شب کے بعد جس وقت بھی کھائیں سحری کی سنت ادا ہوجائے گی، لیکن بالکل آخر شب میں کھانا افضل ہے۔ سحری سے فارغ ہوکر روزہ کی نیت دل میں کرلینا کافی ہے، زبان سے بھی ادا کرے تو افضل ہے۔
اِفطار: آفتاب کے غروب ہونے کا یقین ہوجانے کے بعد افطار کریں۔ کھجور سے 
افطار کرنا افضل ہے۔ افطار کے وقت دْعائے مسنون پڑھیں۔
تراویح: رمضان المبارک میں عشاء کے فرض اور سنت کے بعد 20 رکعت سنت مؤکدہ ہے۔ تراویح کی جماعت سنت علی الکفایہ ہے۔ محلے کی مسجد میں جماعت ہوتی ہو اور کوئی شخص علیحدہ اپنے گھر میں اپنی تراویح پڑھ لے تو سنت ادا ہوجائے گی، اگرچہ مسجد اور جماعت کے ثواب سے محروم رہا اور اگر محلہ ہی میں جماعت نہ ہوئی تو سب کے سب ترک سنت کے گنہگار ہوں گے۔ تراویح میں پورا قرآن مجید ختم کرنا بھی سنت ہے۔ کسی جگہ حافظِ قرآن سنانے والا نہ ملے یا ملے مگر سنانے پر اجرت و معاوضہ طلب کرے تو چھوٹی سورتوں سے نماز تراویح ادا کریں، اْجرت دے کر قرآن نہ سنیں کیوں کہ قرآن سنانے پر اجرت لینا اور دینا حرام ہے۔ اگر ایک حافظ ایک مسجد میں تراویح پڑھا چکا ہے تو اس کو دوسری مسجد میں اسی رات تراویح پڑھانا درست نہیں۔ جس شخص کی دوچار رکعت تراویح کی رہ گئی ہو تو جب امام وتر کی جماعت کرائے اس کو بھی جماعت میں شامل ہوجانا چاہیے، اپنی باقی ماندہ تراویح وتر کے بعد پوری کرے۔ قرآن کو اس قدر جلد پڑھنا کہ حروف کٹ جائیں سخت گناہ ہے۔ جمہور علماء کا فتویٰ یہ ہے کہ نابالغ کو تراویح میں امام بنانا جائز نہیں۔
اِعتکاف: اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ٹھہر جانے اور خود کو روک لینے کے ہیں۔ اعتکاف کے معنی ہیں ’’جھک کر یک سوئی سے بیٹھے رہنا‘‘ اس عبادت میں انسان صحیح معنوں میں سب سے کٹ کر اﷲ تعالیٰ کے گھر میں یک سو ہو کر بیٹھ جاتا ہے۔ اس کی ساری توجہ اس بات پر مرکوز رہتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ مجھ سے راضی ہو جائے۔ چناںچہ وہ اس گوشۂ خلوت میں بیٹھ کر توبہ و استغفار کرتا ہے۔ نوافل پڑھتا ہے، ذکر و تلاوت کرتا ہے۔ دعا و التجا کرتا ہے اور یہ سارے ہی کام عبادات ہیں۔ اس اعتبار سے اعتکاف گویا مجموعہ عبادات ہے۔ نبی اکرم ﷺ اعتکاف کا بھی خصوصی اہتمام فرماتے تھے۔ رمضان کے آخری دس دن، رات دن مسجد کے ایک گوشے میں گزارتے اور دنیوی معمولات اور تعلقات ختم فرما دیتے۔ جس سال آپ ﷺ پردہ فرما گئے اس سال آپ نے رمضان میں 10 دن کی بجائے 20 دن اعتکاف فرمایا۔
(صحیح بخاری، الاعتکاف، حدیث: 2044)
اعتکاف کی نیت کرکے مسجد میں رہیں اور سوائے ایسی حاجات ضروریہ کے جو مسجد میں پوری نہ ہوسکیں (جیسے رفع حاجت، غسل واجب اور وضو کی ضرورت) مسجد سے باہر نہ جائیں۔ رمضان کے عشرہ آخر میں اعتکاف کرنا سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے۔ یعنی اگر بڑے شہروں کے محلے میں اور چھوٹے دیہات کی پوری بستی میں کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب کے اوپر ترکِ سنت کا وبال رہتا ہے اور کوئی ایک بھی محلے میں اعتکاف کرے تو سب کی طرف سے سنت ادا ہوجاتی ہے۔ بالکل خاموش رہنا اعتکاف میں ضروری نہیں، بلکہ مکروہ ہے، البتہ لڑائی جھگڑے اور فضول باتوں سے بچنا چاہیے۔ اعتکاف میں کوئی خاص عبادت شرط نہیں، نماز، تلاوت یا دینی کتب کا پڑھنا پڑھانا یا جو عبادت دل چاہے کرتا رہے۔
جس مسجد میں اعتکاف کیا گیا ہے، اگر اس میں جمعہ نہیں ہوتا، تو نماز جمعہ کے لیے اندازہ کرکے ایسے وقت مسجد سے نکلے جس میں وہاں پہنچ کر سنتیں ادا کرنے کے بعد خطبہ سن سکے۔ اگر کچھ زیادہ دیر جامع مسجد میں لگ جائے، جب بھی اعتکاف میں خلل نہیں آتا۔ اگر بلا ضرورت طبعی شرعی تھوڑی دیر کو بھی مسجد سے باہر چلا جائے گا تو اعتکاف جاتا رہے گا، خواہ عمداً نکلے یا بھول کر۔ اس صورت میں اعتکاف کی قضا کرنا چاہیے۔ اگر آخر عشرہ کا اعتکاف کرنا ہو تو 20 تاریخ کو غروبِ آفتاب سے پہلے مسجد میں چلا جائے اور جب عید کا چاند نظر آجائے تب اعتکاف سے باہر ہو۔ غسلِ جمعہ یا محض ٹھنڈک کے لیے غسل کے واسطے مسجد سے باہر نکلنا مْعتکف کو جائز نہیں۔
شبِ قدر: چوںکہ اس امت کی عمریں بہ نسبت پہلی امتوں کے چھوٹی ہیں، اس لیے اﷲ تعالیٰ نے اپنے فضل سے ایک رات ایسی مقرر فرما دی ہے کہ جس میں عبادت کرنے کا ثواب ایک ہزار مہینے کی عبادت سے بھی زیادہ ہے۔ لیکن اس کو پوشیدہ رکھا، تاکہ لوگ اس کی تلاش میں کوشش کریں اور ثواب بے حساب پائیں۔ رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں شبِ قدر ہونے کا زیادہ احتمال ہے۔
ان راتوں میں عبادت اور توبہ و استغفار اور دعا میں مشغول رہنا چاہیے۔ اگر تمام رات جاگنے کی طاقت یا فرصت نہ ہوتو جس قدر ہوسکے جاگے اور نفل نماز یا تلاوتِ قرآن یا ذکر و تسبیح میں مشغول رہے اور کچھ نہ ہوسکے تو عشاء اور صبح کی نماز جماعت سے ادا کرنے کا اہتمام کرے۔ حدیث میں آیا ہے کہ یہ بھی رات بھر جاگنے کے حکم میں ہوجاتا ہے۔
مسائل زکوٰۃ: اگر کسی کی ملکیت میں ساڑھے باون تولے چاندی یا ساڑھے سات تولے سونا ہے یا اس میں سے کسی ایک کی قیمت کے برابر روپیہ ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے۔ نقد روپیہ بھی سونے چاندی کے حکم میں ہے (شامی) اور سامانِ تجارت اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت کے برابر ہے تو اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے۔ کارخانے اور مِل وغیرہ کی مشینوں پر زکوٰۃ فرض نہیں، لیکن ان میں جو مال تیار ہوتا ہے اس پر زکوٰۃ فرض ہے، اسی طرح جو خام مال کارخانے میں سامان تیار کرنے کے لیے رکھا ہے اس پر بھی زکوٰۃ فرض ہے (درمختار و شامی)۔ سونے چاندی کی ہر چیز پر زکوٰۃ واجب ہے۔
کسی کے پاس کچھ روپیہ، کچھ سونا یا چاندی اور کچھ مالِ تجارت ہے، لیکن علیحدہ علیحدہ بقدر نصاب ان میں سے کوئی چیز بھی نہیں ہے تو سب کو ملا کر دیکھیں اگر اس مجموعہ کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہوجائے تو زکوٰۃ فرض ہوگی اور اگر اس سے کم رہے تو زکوٰۃ فرض نہیں (ہدایہ)۔ جس قدر مال ہے اس کا چالیسواں حصہ دینا فرض ہے یعنی ڈھائی فی صد مال دیا جائے گا۔ زکوٰۃ ادا ہونے کے لیے یہ شرط ہے کہ جو رقم کسی مستحقِ زکوٰۃ کو دی جائے وہ اس کی کسی خدمت کے معاوضہ میں نہ ہو۔ ادائی زکوٰۃ کے لیے یہ بھی شرط ہے کہ زکوٰۃ کی رقم کسی مستحق زکوٰۃ کو مالکانہ طور پر دے دی جائے، جس میں اس کو ہر طرح کا اختیار ہو، اس کے مالکانہ قبضے کے بغیر زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔
( مزید تفصیل کے لیے کسی مستند عالم سے رجوع کیا جائے)
ترتیب نمازِ عید: اول زبان یا دل سے نیت کریں کہ دو رکعت نمازِ عید واجب مع چھے زاید تکبیروں کے ساتھ اس امام کی اقتدا میں ادا کرتا ہوں۔ پھر اﷲ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لیں اور ثناء پڑھیں پھر دوسری اور تیسری تکبیر میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں اور چوتھی میں باندھ لیں اور جس طرح ہمیشہ نماز پڑھتے ہوں پڑھیں۔ دوسری رکعت میں سورت کے بعد جب امام تکبیر کہے آپ بھی تکبیر کہہ کر پہلی، دوسری اور تیسری دفعہ میں ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیں اور چوتھی تکبیر کہہ کر بلا ہاتھ اْٹھائے رکوع میں چلے جائیں۔ باقی نماز حسب ترتیب پوری کریں اور خطبہ سْن کر واپس جائیں۔
 ﷲ تعالیٰ ہمیں رمضان المبارک کو اس کی صحیح روح کے ساتھ گذارنے کی توفیق اور ہمت عطا فرمائے۔ آمین
عبد الباسط