رمضان المبارک کے فضائل

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

جب رمضان کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو آسمان کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں  ایک اور روایت میں ہے کہ جنت کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ شیاطین کو زنجیروں میں جکڑ دیا جاتا ہے ۔ایک اور روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے کشادہ کر دئیے جاتے ہیں۔ (بخاری،مسلم)

٭حضر ت سہل بن ابن سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جنت میں آٹھ دروازے ہیں جن میں سے ایک دروازہ ہے جسے ’’ریان ‘‘ کہتے ہیں اس دروازے میں صرف روزے دار ہی داخل ہوں گے۔ (بخاری ،مسلم)

٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں ، حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
جو ایمان اوراخلاص سے رمضان المبارک کے روزے رکھتا ہے اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جاتے ہیں جو رمضان المبارک میں ایمان اور اخلاص سے راتوں میں عبادت کرتا ہے تو اس کے (بھی ) سابقہ گناہ بخش دئیے جاتے ہیں اور جو شب قدر میں ایمان اور اخلاص کے ساتھ عبادت کرتا ہے تو اسکے (بھی) گزشتہ گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (بخاری، مسلم)

٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: انسان کی تمام نیکیاں دس گنا سے لیکر سات سو گنا تک بڑھا دی جائیں گی لیکن رب تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں سوائے روزہ کے، کیونکہ روزہ تو میرے لیے ہے اورمیں ہی اس کی جزاعطا کروں گا۔ میرا بندہ میرے لیے اپنی شہوانی خواہشات اوراپنا طعام چھوڑ دیتا ہے۔ (بخاری، مسلم)

٭حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ جب ماہِ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اورسرکش جن قید کر دئیے جاتے ہیں اوردوزخ کے دروازے اس طرح بند کر دئیے جاتے ہیں کہ ان میں سے کوئی دروازہ بھی نہیں کھولا جاتا اورجنت کے دروازے اس طرح کھول دئیے جاتے ہیں کہ ان میں سے کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا اور پکارنے والا پکارتا ہے کہ اے بھلائی چاہنے والے آ جا اور اے برائی چاہنے والے باز آ جا۔ اوراللہ کی طرف سے لوگ آگ سے آزاد کیے جاتے ہیں اوریہ عمل ہر رات دہرایا جاتا ہے۔ (ترمذی، ابن ماجہ)

٭حضرت عبداللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ جب رمضان المبارک کا آغاز ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر اسیر کو آزاد کرتے اورہر سوالی کو عطا فرماتے ۔(مشکوٰۃ)
 

رمضان المبارک میں عبادات کے لیے وقت کیسے نکالیں؟

ماہِ رمضان کی آمد کے ساتھ ساتھ رمضان سے جُڑی تمام تر خوشیاں، مصروفیات اور خواہشیں سب کی زبان پر ہیں۔ خواتین کا رمضان سحری و افطار کی فکر سے شروع ہو کر شاپنگ اور عید کی خریداری پر ختم ہو جاتا ہے۔ مرد حضرات کا رمضان شروع کے پہلے ہفتے میں نماز و تراویح کی پابندی کے بھرپور میراتھن کے بعد آخری تین دنوں میں توبہ و استغفار کے ساتھ اِس حسرت پر اختتام پزیر ہوتا ہے کہ یہ رمضان بھی جلد گزر گیا اور اِس میں بھی وہ کوئی خاص عبادت نہیں کر سکے۔

بوڑھوں کا رمضان بہو، بیٹیوں اور اولادوں کو ڈانٹتے گزر جاتا ہے کہ کوئی اللہ کا نام لے اور قرآن شریف کھولے، تو بچوں کا رمضان اِس دھما چوکڑی میں تماشائی بنے نت نئے کھانوں کی نذر ہو جاتا ہے۔ الغرض رمضان کی روح و احساس جس کی ضرورت ہے وہ باقی نہیں رہتی اور باقی سارے کام ہو جاتے ہیں۔ رمضان کی آمد سے پہلے ہی فیس بک اور واٹس اپ پر میسجز کا طوفان آ جاتا ہے۔ کوئی نئی دعائیں بتا رہا ہے تو کوئی ٹائم مینجمنٹ کی تراکیب سکھا رہا ہے۔ کوئی آپ کے سونے اُٹھنے کے اوقات مقرر کر رہا ہے تو کوئی وظیفوں اور تسبیجوں کی تعداد۔ مگر جب حقیقت میں اِن مشوروں کا اِطلاق آپ اپنی روٹین کی روز مرہ زندگی میں کرتے ہیں تو نتیجہ ندارد۔ آپ کی عادات و اطوار اور لائف روٹین سالوں میں بنی ہیں، وہ ایک واٹس اپ میسج سے بھلا کیسے تبدیل ہو سکتی ہیں؟

اِس مضمون میں ہماری یہ کوشش ہے کہ آپ اپنی مصروف ترین زندگی میں ایسا کیا کریں کہ آپ کی روز مرہ زندگی پر بھی کوئی خاطرخواہ اثر نہ پڑے اور آپ تراویح و وظائف کے ساتھ ساتھ اِس ماہ مبارک میں کم از کم دو بار قرآن مجید بھی پڑھ لیں۔ رمضان کا پہلا عشرہ رحمت، دوسرا مغفرت اور تیسرا نجات کا ہے۔ لیکن ہم نے پہلا عشرہ کھانے پینے کا، دوسرا دعوتوں اور چمپینز ٹرافی کا اور تیسرا شاپنگ کے لئے رکھ چھوڑا ہے۔ یہ نظریہ ہی غلط ہے کہ آپ ٹائم کو مینیج کرتے ہیں۔ یہ تو وقت ہے جو آپ کو خرچ کئے جا رہا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ آخر ہم وقت نکالیں کہاں سے جو اللہ کی یاد میں لگ سکے؟ ہم ایسے نیک بندوں کی بات نہیں کر رہے جن کا رمضان مسجدالحرام میں گزرتا ہے یا وہ اعتکاف اور قیام الیل کے پابند ہیں۔ ہم تو بات ایک عام سے دنیا دار بندے کی کرتے ہیں۔ رمضان میں کم و بیش 30 دن ہوتے ہیں۔ یہ بنے 720 گھنٹے، 43,200 منٹ اور 2,592,000 (قریباً 25 لاکھ) سیکنڈز۔

ہر دن میں 24 گھنٹے ہوتے ہیں آپ 8 گھنٹے سونے اور طبعی ضروریات کے لئے رکھ لیں۔ مزید 8 گھنٹے آفس ورک یا پڑھائی کے لئے (اگر آپ کالج، یونیورسٹی میں جاتے ہیں)۔ باقی بچے 8 گھنٹے۔ اِس میں سے بھی آپ 4 گھنٹے سحری، افطاری، 5 وقت کی نماز اور گھر والوں کے لئے نکال لیں۔

آپ کو صرف کم از کم 4 گھنٹے روزانہ کی بنیاد پر اللہ سائیں کے لئے نکالنے ہیں۔ 4 گھنٹے روز، مہینے کے 120 گھنٹے، 7,200 منٹ اور 4,32,000 سیکنڈز ہوتے ہیں۔ آپ ڈیڑھ گھنٹہ عشاء و تراویح اور آدھا گھنٹہ تسبیح کے لئے مختص کر لیں (یہ آدھا گھنٹہ آپ تراویح کے لئے مسجد آتے جاتے بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ ساتھ ساتھ ذکر کرتے رہیں)۔

ایک عام آدمی باآسانی 30 منٹ میں ایک پارہ پڑھ سکتا ہے۔ اگر آپ ایک گھنٹہ روز قرآن کو دے دیں تو باآسانی رمضان میں 2 قرآن شریف مکمل ہوسکتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگوں کی رفتار زیادہ ہے اور وہ 15 منٹ میں سپارہ پڑھ لیتے ہیں، تو ایسے افراد رمضان المبارک میں 4 قرآن پاک باآسانی مکمل کر سکتے ہیں۔ باقی بچا ایک گھنٹہ اِس میں آپ تسبیح پڑھ لیں۔ قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر پڑھ لیں۔ عقائد کی کوئی کتاب یا کوئی اور اسلامی لٹریچر پڑھ لیں۔ صرف 4 گھنٹے روز کی اِس مشق سے آپ 2 سے 4 قرآن شریف مکمل کرسکتے ہیں۔ قریباً 5 لاکھ کے قریب تسبیح کے دانے پڑھ سکتے ہیں اور قرآن پاک کا ترجمہ ختم کر سکتے ہیں، جبکہ آپ کی روز مرہ زندگی میں بھی کوئی فرق نہیں آئے گا۔

آپ افطار سے پہلے، عصر کے بعد ایک سپارہ پڑھ لیں اور ایک فجر سے پہلے یا بعد میں۔ تراویح کے بعد سونے سے پہلے ترجمہ و تفسیر پڑھ لیں اور چلتے پھرتے زکر کرتے رہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ چار گھنٹے کس طرح نکالے جائیں؟ تو اِس کا بھی حل ہمارے پاس موجود ہے۔ اگر آپ صرف مندرجہ ذیل کاموں سے احتیاط برتیں تو یہ 4 گھنٹے باآسانی آپ کو دستیاب ہو سکتے ہیں۔

فیس بک کا استعمال نہ کریں۔ کم از کم 4 گھنٹوں کے لئے تو مکمل طور پر ترک کر دیں۔ آپ اپنی سہولت کے مطابق 4 گھنٹے خود ہی متیعن کر لیں۔ مثلًا تہجد سے فجر تک، عصر سے مغرب تک اور عشاء و تراویح سے سونے تک۔

واٹس اپ کا استعمال ترک یا کم کر دیں۔

T.V نہ دیکھیں۔ یقین جانیے اگر آپ T.V نہیں دیکھے گیں تو دنیا پھر بھی چلتی رہے گی۔

وقت پر سوجائیں تاکہ صبح تازہ دم ہوکر تہجد پر اُٹھ سکیں۔

مولانا اشرف علی تھانوی رحمتہ اللہ علیہ سفر پر جاتے تو ریل میں کھڑکیوں کے پردے گرا دیتے۔ کہتے کہ آدمی راستوں میں محو ہوجائے تو منزل پر پہنچ کر آنکھیں تھک جاتی ہیں۔ اپنے نفس کی قربانی، غریبوں کا احساس اور اللہ کی رضا رمضان کی منزلیں ہیں۔ خدارا ٹی وی شوز اور سوشل میڈیا پر اپنی آنکھوں کو نہ تھکائیں۔

اگر اللہ توفیق دے تو اعتکاف کا اہتمام ضرور کریں۔ دس دنوں کے لئے اپنے آپ کو دنیا سے نکالیں گے تو یہ بھی آپ کے دل سے نکل جائے گی۔

ذیشان الحسن عثمانی

 

ہم رمضان المبارک کیسے گزاریں ؟

 نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان المبارک کو ہمدردی و غم خواری کا مہینہ قرار دیا ہے۔ ہمدردی کا ایک پہلوکسی روزہ دار کا روزہ افطار کروانا بھی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے افطار کروانے کی ترغیب دی ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے : ’’جوشخص کسی روزہ دار کا روزہ افطار کرائے تو اس کے لئے گناہوں سے مغفرت اور دوزخ کی آگ سے رہائی ہے۔اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا، جتنا روزہ دار کو، اور اس سے روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی نہیں آئے گی‘‘۔ افطاری سے پہلے دعا سنت ہے، اس لئے اس کا اہتمام کریں ۔ افطار پارٹیوں کو کھانے پینے کی نمائش کے بجائے دعوتی عمل کومہمیز دینے کا ذریعہ بنائیں۔ غرباء و مساکین کو افطار پارٹیوں میں ضرور دعوت دیں۔ 

اعتکاف 

عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ’’ جب رمضان کا آخری عشرہ آتا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی کمر کس لیتے،راتوں کو جاگتے،اپنے گھر والوں کو جگاتے،اور اتنی محنت کرتے جتنی کسی اور عشرے میں نہ کرتے‘‘۔ رمضان المبارک کے آخری عشرے میں اعتکاف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا۔ ایک سال بوجوہ ناغہ ہوا توآپؐ نے اگلے سال بیس دن اعتکاف کیا۔ رمضان المبارک مومن کی تیاری کا مہینہ ہے تا کہ بقیہ گیارہ مہینے شیطانی قوتوں سے لڑنے کی قوت فراہم ہو جائے۔ اعتکاف اس تیاری کا اہم جزو ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ذمہ دارشخصیت کون سی ہوسکتی ہے ؟ آپ صرف داعی نہیں، بلکہ داعی اعظم تھے، پھر بھی اعتکاف کا اہتمام کرتے تھے۔  

لیلۃ القدر 

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ شب قدر ہزار مہینوں سے افضل ہے۔ حضرت امام بخاریؒ نے حضرت ابوہریرہؓ کی روایت بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:’’جس شخص نے شب قدر میں ایمان اور خود احتسابی کی حالت میں قیام کیا تو اللہ رب العالمین اس کے پچھلے تمام گناہ معاف فرما دیں گے‘‘۔۔۔آخری عشرے کی پانچ طاق راتوں، 23,21 27,25,اور 29 کو اعتکاف اور شب بیداری کے لئے مختص کر دیں اور تمام متعلقین جماعت کو متعین تاریخوں میں متعین مساجد میں ان پروگراموں میں شریک کروائیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ صدیقہؓ کو شب قدر کی یہ دعا بتائی۔ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کیا کرو: اَللّٰہُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ۔’’اے اﷲ ! بلاشبہ تو معاف کرنے والا ہے، اور معاف کرنے کو پسند کرتا ہے ،پس تو مجھے معاف فرمادے ‘‘۔

انفاق فی سبیل اللہ وزکوٰۃ و صدقات 

انفاق فی سبیل اللہ کواس ماہ مبارکہ سے خاصی نسبت ہے۔ نماز کے بعد سب سے بڑی عبادت اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہے۔ نبی کریم ﷺ سارے انسانوں سے بڑھ کر سخی تھے ۔ حضرت عبداللہ بن عباسؓ سے مروی ہے کہ :’’آپ ﷺ بارش لانے والی تیز ہواؤں سے بھی زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ: سخی اللہ تعالیٰ سے قریب ، لوگوں سے قریب ، جنت سے قریب اورجہنم سے دور، جبکہ کنجوس اللہ تعالیٰ سے دور ، لوگوں سے دور ،جنت سے دور اور جہنم سے قریب ہوتا ہے۔ اسی طرح جاہل سخی اللہ تعالیٰ کو کنجوس عبادت گزار سے زیادہ محبوب ہوتا ہے۔ حضرت ابن عباسؓ سے روایت ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر کو فرض قرار دیا ہے تا کہ روزے فضول ، لغو اور بے ہودہ باتوں سے پاک ہو جائیں اور مسکینوں کو کھانے پینے کا سامان میسر آئے۔ صدقۂ فطرعید کی آمد سے پہلے ہی ادا کرنے کی کوشش کریں تا کہ غرباء و مساکین بھی عید کی خوشیوں میں شریک ہو سکیں۔  

لیاقت بلوچ
 

Significance of the six days of Shawwal

Abu Ayyub Al-Ansari relates that Allah’s Messenger (peace be upon him) says: “Whoever fasts the month of Ramadan and then follows it with six days of fasting in the month of Shawwal, it will be as if he had fasted the year through.” (Sahih Muslim, 1163)
The month of Shawwal is singled out for the observance of extra fasts, since this month follows immediately after Ramadan. The six days of voluntary fasting are to the obligatory fast of Ramadan what the Sunnah prayers are to the obligatory prayers. Thawban reported that the Prophet (peace be upon him) said: “The fast of Ramadan is like observing 10 months of fasting. Fasting six days of Shawwal is like observing two months of fasting. This together is like fasting throughout the year.” (Sahih Ibn Khuzaymah, Sunan Al-Nasai Al-Kubra; authenticated by Al-Albani)
Al-Nawawi says: “Scholars have explained that it is like observing a year of fasting because the reward of one’s good deeds are multiplied 10-fold. Therefore fasting the month of Ramadan is like fasting for 10 months and fasting six days in the month of Shawwal is like fasting for two months.” (Sahih Muslim)
Virtues of fasting six days
1. Fasting 6 days in Shawwal after Ramadan gives the person the reward of fasting throughout the year.
2. The fasts of Sha’ban and Shawwal are like the Sunnah prayers that accompany the five obligatory prayers. Like the Sunnah prayers, these extra fasts cover up for the deficiencies in our performance of our obligatory worship. On the Day of Judgment, our voluntary acts of worship will compensate for the shortcomings in how we carried out our duties. Most of us have deficiencies in our observance of our Ramadan fasts and we need something to cover up for those deficiencies.
3. Our return to the habit of fasting right after Ramadan is a sign that our Ramadan fasts were accepted. When Allah accepts our worship, He blesses us to engage in further acts of piety. The saying goes: The reward of virtue is further virtue. Therefore, following one good deed with others like it is a sign that the first deed had been accepted by Allah. By contrast, if a person’s good deed is followed by a sinful one, it is an indication that the first good deed might not have been accepted.
4. Those who observe the fast of Ramadan are given their recompense of the day of Eid Al-Fitr, the day when the fast is rewarded. Getting into the habit of fasting again soon thereafter is a means of giving thanks to Allah for the blessings that we have received. There is no blessing greater than forgiveness for one’s sins, and we know that fast of Ramadan is recompensed with forgiveness of one’s previous sins.
Indeed, Allah has commanded us to give thanks for the blessings of the Ramadan fast and to do so by making mention of Him and through other means of giving thanks. Allah says: “(He wants you) to complete the number of days, and to glorify Him in that He has guided you; and perchance you may give thanks.” (Qur’an, 2:185)
It is known that some of the pious predecessors would try to get up at night to pray the Tahajjud prayer. When Allah blessed them to wake up and do so, they would fast the next day in thanks to Allah for blessing them to observe that prayer. Every blessing that Allah gives us is something that we have to be thankful about. Moreover, when Allah blesses us to show thanks, this is a further blessing from Allah that deserves further thanks from us. If we show further thanks, this in turn is another blessing deserving our gratitude. There is no end to this and we can never be thankful enough. When we recognize that our thanks is never enough, this is the highest expression of gratitude we can give.
Al-Shafii, Ahmad bin Hanbal and Ishaq Al-Rahawayh hold that is preferable and recommended to fast six days in the month of Shawwal. This opinion has also been related from Ibn Abbas, Kab Al-Ahbar, Tawus, Al-Shabi, Maymun bin Mahran, and Ibn Al-Mubarak. They base their opinion upon the Hadith that we have discussed above. Others have regarded fasting six days in the month of Shawwal to be something disliked. This view has been related from Malik and Abu Hanifah. They argue that it is feared from the general public that they might misconstrue fasting these six days to be something obligatory. They also see it as emulating the People of the Scripture to exceed the number of fasting days in the prescribed month of fasting.
However, these objections are spurious in the face of the clear statements of the Prophet (peace be upon him) that encourage this fast. If we were to abandon a Sunnah act on the grounds that we are exceeding what is obligatory, then we would have to abandon all recommended fasts, including the fast of Ashura and the fast of the middle of the month. It has been related that Malik used to personally fast six days in Shawwal. Also, later Hanafi scholars decided that there is no objection to fasting these days.
The Maliki jurist Ibn Abd Al-Bar explains (Al-Istidhkar, 3:380): Malik did not know of the Hadith related by Abu Ayyub Al-Ansari, even though it is a Hadith from the people of Madinah. No one possesses all the knowledge held by others. Malik explained and clarified what he disliked about it. He was afraid that it would be added to the obligatory fast of Ramadan by the general public. Malik was extremely cautious when it came to matters of religion. As for fasting six days in the month of Shawwal to seek extra blessings, as Thawban depicts it, this is something that Malik had no objection against — and Allah knows best — since fasting is a person’s protective shield and its virtues are well-known. When we give up our food and drink for Allah’s sake, it is a virtuous and good deed. Allah says: “O you who believe, bow down in Ruku and bow down in Sajdah, and worship your Lord and do good deeds, so that you achieve success.” (Qur’an, 22:77)
There are various opinions about how to observe the fasts in Shawwal:
1. Some scholars hold the view that it is preferable to fast the six days in consecutive order, starting from the second day of Shawwal. This is the view of Al-Shafii and Ibn Al-Mubarak.
2. Others are of the opinion that it is preferable to fast the six days intermittently, spreading them out throughout the month of Shawwal. This is the position of Ahmad bin Hanbal and Waki.
3. Then there are those who hold the view that the days should all be postponed until later in the month and not close to the day of Eid, which is a time of celebration and feasting. They prefer fasting the three days in the middle of the month (Ayyam Al-Bid) along with the three days right before or after. This is the opinion of Mamar and Abd al-Razzaq. There is considerable flexibility in all of this. We can choose to follow any of these approaches that we wish.
en.islamtoday.net

رحمت کا عشرہ گزر گیا، مغفرت کے عشرے کا آغاز

 رمضان المبارک کا پہلا عشرہ یعنی عشرہ رحمت 10ویں پر ختم ہو جاتا ہے۔
اس عشرے کے مکمل ہوتے ہی دنیا بھر کے مسلمان رمضان کے دوسرے عشرے  یعنی عشرہ مغفرت میں داخل ہوں گے۔ اس ماہ مبارک میں روزے رکھنے کے ساتھ ساتھ مسلمان عبادات میں مشغول رہتے ہیں تاکہ ماہ مقدس کی بھرپور نعمتیں سمیٹی جاسکیں، جبکہ دنیا کے کئی خطوں میں اس حوالے سے مختلف رسم و رواج بھی زندگی کاحصہ ہیں۔