عاجزی کا راستہ

حضرت جنید بغدادیؒ ایک دن یمن کے شہر صنعا کے جنگلوں میں سے گزر رہے

تھے۔ وہاں انہوں نے ایک بوڑھے جنگلی کتے کو دیکھا جس کے دانت گر چکے تھے۔ بے چارہ شکار کرنے سے معذور تھا۔ دوسروں کے کیے ہوئے بچے کھچے شکار پر گزارہ کرتا اور اکثر بھوکا رہتا تھا۔ حضرت جنید بغدادیؒ نے اسے دیکھا تو آپ کو اس پر بڑا ترس آیا اور جو کھانا ساتھ تھا، آدھا اس کو کھلا دیا۔ اس کی نیکی کے ساتھ ساتھ آپ روتے جاتے اور فرماتے جاتے تھے: “اس وقت تو میں بظاہر اس کتے سے بہتر ہوں لیکن کسے معلوم ہے کہ کل میرا درجہ کیا ہوگا۔

اگر میں با ایمان رہا تو خدا کی عنایت اور رحم کا مستحق قرار پاؤں گا۔ بصورت دیگر یہ کتا مجھ سے بہتر حالت میں ہو گا کیونکہ اس کو دوزخ میں ہرگز نہیں ڈالا جائے گا۔” اللہ کے نیک بندوں نے عاجزی اختیار کرکے ہی اعلیٰ رتبہ پایا ہے۔ اس واقعے کا حاصل یہ ہے کہ انسان اشرف المخلوقات اسی صورت کہلانے کا حق دار ہے جب وہ عاجزی اختیار کرے اور یہی مقام انسانیت ہے۔ عاقبت اسی کی بخیر ہو گی جو آخری سانس تک عاجزی کے ساتھ راہِ راست پر چلتا رہے۔

احسان کی قوت
جناب شیخ سعدی علیہ رحمت اللہ علیہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے راستے میں ایک جوان کو دیکھا، اس کے پیچھے پیچھے اس کی بکری بھی بھاگتی آ رہی تھی ۔ شیخ سعدی نے کہا کہ یہ بکری جو تیرے پیچھے پیچھے آتی ہے، اس کی وجہ کیا یہ رسی ہے جس سے یہ بندھی ہوئی ہے؟ جوان نے اس بکری کے پٹے کو کھول دیا تو وہ ادھر ادھر دائیں بائیں دوڑنے لگی۔ لیکن اسی طرح راستے میں اس کے پیچھے آتی رہی کیونکہ بکری نے جوان کے ہاتھ سے سر سبز چارہ کھایا تھا۔ پھر جب وہ سیر اور کھیل کود سے واپس ہوا اور مجھے دیکھا تو بولا اے صاحب ، اس جانور کو یہ رسی میرے ساتھ لے کر نہیں چلتی ، بلکہ اس کی گردن میں میرے احسان کا پٹہ بندھا ہوا ہے۔ ہاتھی نے جو مہربانی اپنے فیل بان میں دیکھی ہے ،اس وجہ سے وہ مستی میں بھی اس پر حملہ نہیں کرتا۔ لہذا اے نیک مرد!برے لوگوں پر بھی نوازش اور مہربانی ہی کر ، کیونکہ ایک کتا بھی جس نے تیری روٹی کھائی ہے ،وہ تجھ سے وفا داری کرتا ہے۔

Pakistani labors prepare ‘Iftar’ food to break their fast

Men sit atop a bus as they prepare to break their fast during a Muslim holy month of Ramadan in Karachi, Pakistan
Men arrange food plates for passersby to break their fast during a Muslim holy month of Ramadan in Karachi, Pakistan.
A man arranges food plates for people to break fast at a mosque in Karachi, Pakistan.

علم کی اہمیت اور اسکی ضرورت قرآن و احادیث کی روشنی میں

٭ اللہ تعالیٰ جس شخص کی بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے ، اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے اوراس کی ہدایت اس کے دل میں ڈال دیتا ہے۔
٭ علماء،ا نبیاءکرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔
٭ آسمانوں اورزمین کی ہر چیز عالم کے لیے بخشش طلب کرتی ہے۔
٭ بے شک علم شریف کی عزت کو بڑھاتا ہے اور غلام کو اس قدر رفعت عطا کرتا ہے کہ وہ بادشاہوں کے درجے پر پہنچ جاتا ہے۔
٭ کسی منافق میں دو خوبیاں نہیں پائی جاتیں ،راہِ راست پر ہونا اور دین کی سمجھ. 
٭ ایمان برہنہ تن ہے اس کا لباس تقویٰ ہے۔ اس کی زینت حیاء اوراس کا پھل علم ہے۔
٭ انسانوں میں درجہ نبوت کے زیادہ قریب علماء اورمجاہدین ہیں علماء رسولوں کی لائی ہوئی تعلیمات کی طرف لوگوں کی راہنمائی کرتے ہیں جب کہ مجاہدین رسولوں کی لائی ہوئی شریعت کے تحفظ کی خاطر اپنی تلواروں سے جہاد کرتے ہیں۔
٭ ایک قبیلے کی موت ایک عالم کی موت سے زیادہ آسان ہے۔
٭ قیامت کے دن علماء کے قلم کی سیاہی کو شہداء کے خون کے مقابلے میں وزن کیا جائے گا۔
٭ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی طرف وحی ارسال فرمائی ، اے ابراہیم! بلاشبہ میں علیم ہوں اورہرصاحب علم والے کو پسند کرتا ہوں ۔
٭ عالم زمین میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا امین ہے۔
٭ میری امت کے دوطبقے ایسے ہیں اگر وہ صحیح ہوں تو تمام لوگ درست ہوتے ہیں اگر وہ بگڑ جائیں تو سب لوگ بگڑ جاتے ہیں ۔ ایک حکمرانوں کا طبقہ اوردوسرے علماء۔
٭ جب مجھ پر کوئی ایسا دن آئے جس میں میں ایسے علم کا اضافہ نہ کروں جو مجھے اللہ تبارک وتعالیٰ کے قریب کردے تو اس دن کے طلوع آفتاب سے مجھے کوئی برکت حاصل نہ ہوئی ۔
٭ عالم کی عابد پر فضیلت اس طرح ہے ،جس طرح چودہویں رات کا چاند تمام ستاروں سے افضل ہے۔
٭ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بندوں کو اُٹھائے گا ،پھر علماء کو اُٹھائے گا اور ارشاد ہو گا : اے گروہ علماء ! میں نے اپنا علم تمہیں جانتے ہوئے عطا کیا تھا اور یہ علم تمہیں اس لیے نہیں دیا تھا کہ میں تمہیں عذاب دوں ، بے شک میں نے تمہیں بخش دیا۔ 
  (احیاءالعلوم : امام محمد غزالیؒ)

اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب کلمات

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دو کلمے ایسے ہیں کہ جو ( ادائیگی کے لحاظ سے) زبان پر ہلکے ہیں لیکن میزان میں یعنی اجر وثواب کے لحاظ سے قیامت کے دن کی ترازو میں) بھاری ہوں گے۔ ( اور) رحمن ( یعنی اللہ تعالیٰ) کے ہاں بہت محبوب ہیں ( اور وہ کلمات یہ ہیں) سبحان اللہ العظیم، سبحان اللہ و بحمدہ۔ ( بخاری ومسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے صبح کے وقت اور شام کے وقت سومرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہا تو قیامت کے دن( اس حال میں) آئیگا کہ کوئی بھی اس سے افضل نہ ہوگا۔
 مگر یہ کہ جس نے اس کی مثل یا اس سے زیادہ کہا ہو گا۔ (مسلم)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ التبہ اگر میں سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر (ایک بار ) کہوں تو یہ مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔( مسلم)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں  کہ ( ایک دن) ہم رسول اللہﷺ کے پاس ( بیٹھے ہوئے) تھے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تم اس سے عاجز ہو کہ ہر دن ہزار نیکیاں کمائو حاضرین مجلس میں سے کسی  نے عرض کیا کہ کس طرح ہم میں کوئی شخص روزانہ ہزار نیکیاں کما سکتا ہے آپ ﷺنے فرمایا کہ سو مرتبہ اللہ کی تسبیح بیان کرے ( یعنی سبحان اللہ کہے) تو اس کے لئے ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کی ایک ہزار برائیاں مٹا دی جائیں گی۔ ( مسلم)

سوچ کر بولنے کی عادت ڈالیں

ایک حدیث شریف میں حضور اقدس ﷺ نے فرمایا کہ انسان کو سب سے زیادہ جہنم میں اوندھے منہ ڈالنے والی چیز زبان ہےیعنی جہنم میں اوندھے منہ گرائے جانے کا سب سے بڑا سبب زبان ہے ۔ اس لیے جب بھی زبان کو استعمال کرو۔ استعمال کرنے سے پہلے ذرا سوچ لیا کرو کسی کے ذہن میں سوال پیدا ہو سکتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کو جب کوئی ایک جملہ بولنا ہو تو پہلے پانچ منٹ تک سوچے پھر زبان سے وہ جملہ نکالے تو اس صورت میں بہت وقت خرچ ہو جائے گا؟
بات دراصل یہ ہے کہ اگر شروع شروع میں انسان بات سوچ سوچ کر کرنے کی عادت ڈال لے تو پھر آہستہ آہستہ اس کا عادی ہو جاتا ہے اور پھر سوچنے میں دیر نہیں لگتی ۔ ایک لمحہ میں انسان فیصلہ کر لیتا ہے کہ یہ بات زبان سے نکالوں یا نہ نکالوں ۔ پھر اللہ تعالیٰ زبان کے اندر ہی ترازو پیدا فرما دیتے ہیں جس کے نتیجے میں زبان سے پھر صرف حق بات نکلتی ہے غلط اور ایسی بات زبان سے نہیں نکلتی جو اللہ تعالیٰ کو ناراض کرنے والی ہو اور دوسروں کو تکلیف پہنچانے والی ہو۔ بشرطیکہ یہ احساس پیدا ہو جائے کہ اس سرکاری مشین کو آداب کیساتھ استعمال کرنا ہے۔
تالیف : مفتی اعظم حضرت مولانا محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
انتخاب : نورمحمد