مسجد الحرام میں بجلی کے مثالی انتظامات

ادارہ امور حرمین شریفین کا کہنا ہے کہ مسجد الحرام میں بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے جملہ وسائل بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ عاجل نیوز کے مطابق حرم مکی الشریف میں بجلی کی فراہمی کے حوالے سے ادارہ امور حرمین شریفین کا کہنا تھا کہ مسجد الحرام میں مختلف آلات اور لائٹوں وغیرہ کو مسلسل رواں رکھنے کے لیے متعدد پاوراسٹیشنز کام کرتے ہیں جن کی یومیہ بنیاد پر دیکھ بھال کی جاتی ہے ادارے کا مزید کہنا تھا کہ مسجد الحرام کی تیسری توسیع کے دوران 12 مرکزی اور ذیلی پاور ہاؤسز کی سہولت مہیا کی گئی ہے۔ مسجد الحرام میں بجلی کے ڈھائی لاکھ آلات جن میں برقی سیڑھیاں (ایسکیلیٹرز)، لفٹیں اور کولنگ سسٹم شامل ہیں کے لیے پاور جینریٹرز کا خصوصی انتظام ہے جو کسی بھی ہنگامی ضرورت پر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔ ادارہ امور حرمین کا مزید کہنا تھا کہ مسجد الحرام کے مختلف مقامات پر بجلی کی مستقل فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے 15 یو پی ایس بھی نصب کیے گئے ہیں ۔ واضح رہے مسجد الحرام میں باقاعدہ طورپر بجلی کی فراہمی 1373ھ مطابق 1953 میں شاہ عبدالعزیز کی جانب سے کی گئی تھی جس کی مدد سے ساڑھے سات لاکھ مربع میٹر کے رقبے پرروشنی کا انتطام کیا گیا تھا۔

بشکریہ اردو نیوز

مکہ ریجن سردی کے موسم میں بھی گرم کیوں رہتا ہے؟

سعودی عرب میں قصیم یونیورسٹی میں موسمیاتی امور کے سابق پروفیسر اور ماحولیات و موسمیات کی سعودی سوسائٹی کے ڈپٹی چیئرمین عبداللہ المسند نے کہا ہے کہ ’موسم سرما میں مکہ مکرمہ ریجن متعدد جغرافیائی اور موسمی اسباب کی وجہ سے گرم رہتا ہے۔‘ اپنے ایکس اکاؤنٹ پر انہوں نے کہا کہ ’حجاز کے پہاڑ، مکہ مکرمہ ریجن میں سردی کے موسم کے دوران گرم رہنے کی بڑی وجہ ہیں۔‘ ’حجاز کے پہاڑ شمالی اور وسطی علاقوں سے آنے والی سرد ہواؤں کو مکہ مکرمہ ریجن پہنچنے سے روک دیتے ہیں۔ مکہ مکرمہ کا علاقہ سطح سمندر سے صرف 300 میٹر اونچا ہے۔‘ علاوہ ازیں یہ علاقہ کسی حد تک جنوب میں واقع ہے اور شمالی علاقہ جات کی ٹھنڈی ہواؤں کے اثرات سے دور ہے۔ عبداللہ المسند نے مزید بتایا کہ ’مکہ مکرمہ ریجن میں گرمی کا ایک اہم سبب بحیرہ احمر سے اس کی قربت ہے۔‘ ’شام کے وقت بحیرہ احمر کے ساحلوں پر گرمی ہوتی ہے اور بحیرہ احمر کے قریبی علاقے سمندری ہواؤں کی وجہ سے گرم ہو جاتے ہیں۔‘

بشکریہ اردو نیوز

سعودی عرب کی جانب سے غیر ملکیوں کو عمرے کی اجازت، لیکن شرائط کیا ہوں گی؟

سعودی عرب نے کرونا کی ویکسین لگوانے والے غیر ملکی زائرین کو نو اگست سے عمرے کی اجازت دے دی ہے۔ البتہ پاکستان سمیت نو ممالک سے آنے والے زائرین کو کسی تیسرے ملک میں 14 روزہ قرنطینہ کے بعد سعودی عرب میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔ سعودی اخبار ’سعودی گزٹ‘ کے مطابق سعودی عرب کی قومی کمیٹی برائے حج و عمرہ کے رکن ہانی علی الامیری کا کہنا ہے کہ عالمی سطح پر عمرے کے خواہش مند افراد 30 الیکٹرانک سائٹس اور منظور شدہ کمپنیوں کے ذریعے عمرہ پیکج حاصل کر سکتے ہیں۔ حج و عمرہ کمیٹی کے رکن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ عمرے کے ویزے کے لیے صرف وہی افراد رجوع کر سکتے ہیں جو کرونا کی ویکسین مکمل طور پر لگوا چکے ہوں۔ علاوہ ازیں عمرے کے خواہش مند افراد کی صحت بہترین حالت میں ہونے کی بھی شرط رکھی گئی ہے اور انہیں احتیاطی تدابیر کے لیے بنائے گئے پروٹوکول پر عمل درآمد بھی کرنا ہو گا۔

ہانی علی الامیری کے مطابق وزارتِ حج و عمرہ کے منظور شدہ مقامی اور عالمی بکنگ پلیٹ فورمز سے ’بزنس ٹو بزنس‘ گروپ سسٹم یا ’بزنس ٹو کنزیومر‘ انفرادی سسٹم کے تحت خدمات اور پیکجز دستیاب ہیں جب کہ سعودی کمپنیاں رہائش، ٹرانسپورٹیشن اور دیگر خدمات کے پیکج فراہم کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ زائرین عمرے کے لیے الیکٹرانک پلیٹ فورمز سے سروس کمپنی کا انتخاب کر کے دستیاب پروازوں، ٹرانسپورٹیشن ، ہوٹلز اور کھانے پینے کے مکمل پروگرام بھی خرید سکتے ہیں۔  ہانی علی الامیری ںے بتایا کہ 500 عمرہ سروس کمپنیاں اور چھ ہزار عمرہ ایجنٹس نے نو اگست سے ویکسین لگوانے والے زائرین کو خدمات فراہم کرنے کے لیے تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ نو اگست (یکم محرم) سے غیر ملکی زائرین کو عمرے کی اجازت دے دی جائے گی۔ واضح رہے حج کے بعد گزشتہ روز سے مقامی سطح پر عمرے کا آغاز ہو گیا ہے۔ سعودی عرب کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق مقامی زائرین کو کرونا سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کے ساتھ مسجد حرام کے مخصوص دراوزوں سے داخلے کی اجازت دی گئی تھی اور اس کے علاوہ دیگر احتیاطی تدابیر بھی اختیار کی گئی ہیں۔

براہ راست پروازیں اور قرنطینہ کی شرائط
حج وعمرہ اور مسجد حرام اور مسجد نبوی سے متعلق خبریں فراہم کرنے والی ویب سائٹ کے مطابق نو ممالک کے سوا دیگر دنیا سے عمرے کے لیے براہ راست پروازوں کی اجازت ہو گی۔ بھارت، پاکستان، انڈونیشیا، مصر، ترکی، ارجنٹائن، برازیل، جنوبی افریقہ اور لبنان کے زائرین کو کسی تیسرے ملک میں 14 روز کا قرنطینہ مکمل کرنے کے بعد عمرے کے لیے سعودی عرب میں داخلے کی اجازت دی جائے گی۔  ویب سائٹ کے مطابق زائرین کے لیے فائز، موڈرنا، آسٹرازینیکا یا جانسن اینڈ جانسن کی تیار کردہ ویکسین کی مکمل خوراکیں لگوانا ضروری ہو گا۔ جب کہ چینی ویکسین لگوانے والوں کے لیے فائزر، موڈرنا، آسٹرازینیکا یا جانسن اینڈ جانسن میں سے کسی ایک کا بوسٹر ڈوز لگوانا ضروری ہو گا۔ اس کے علاوہ عمرے کے لیے سعودی وزارتِ حج و عمرہ کی منظور شدہ ایجنسی کے ذریعے رجوع کرنا ہو گا۔

بشکریہ وائس آف امریکہ

اعتمرنا ایپلی کیشن : عمرہ اور زیارت کا اجازت نامہ کیسے حاصل ہو گا ؟

سعودی وزارت حج وعمرہ نے کہا ہے کہ عمرہ اور زیارت کی مرحلہ وار بحالی کا آغاز اندرون ملک سے شہریوں اور مقیم غیر ملکیوں سے ہو گا۔ عمرہ اور زیارت کے خواہشند افراد ’اعتمرنا‘ ایپلی کیشن سے اجازت نامہ حاصل کریں گے۔ سبق ویب سائٹ کے مطابق وزارت نے کہا ہے کہ ’اعتمرنا ایپلی کیشن 10 صفر بمطابق 27 ستمبر سے لا نچ کی جائے گی اور موبائل صارفین اسے ڈاؤن کر سکیں گے‘۔ ’ایپلی کیشن کے ذریعہ عمرہ یا مسجد نبوی شریف کی زیارت کے لیے اجازت نامہ حاصل کرنے کا طریقہ کار یہ ہو گا کہ سب سے پہلے خود کو شناختی کارڈ یا اقامہ نمبر کے ذریعہ رجسٹر کرنا ہو گا‘۔ ’ایپلی کیشن میں تین آپشن دیئے جائیں گے، عمرے کی ادائیگی، حرم میں نماز یا مسجد نبوی شریف کے روضہ اطہر میں نماز کی ادائیگی، ان میں سے کسی آپشن پر کلک کرنا ہو گا‘۔

’بعد ازاں دستیابی کو دیکھتے ہوئے صارف کو دن اور وقت کا آپشن دیا جائے گا جسے پسند کرنے کے بعد طے شدہ دن اور وقت پر صارف کو مکہ مکرمہ میں قائم کیے جانے والے مراکز میں جمع ہونا ہو گا‘۔ ’ان مراکز کی تفصیل اور مقامات بعد ازاں جاری کی جائیں گے۔ یہاں پہنچ کر موجود اہلکار کو اپنا اجازت نامہ دکھانا ہو گا‘۔ ’حفاظتی واحتیاطی تدابیر پر عمل کرتے ہوئے اور ہدایات کی پابندی کے ساتھ عمرہ ادا کرنا ہو گا‘۔ ’عمرہ کی ادائیگی کے بعد دوبارہ اسی مرکز کی طرف واپس آنا ہو گا‘۔ وزارت نے کہا ہے کہ ’صارف عمرہ کی ادائیگی کے بعد مکہ مکرمہ کے کسی ہوٹل میں قیام کرنا چاہے تو اسے اختیار ہو گا البتہ حرم میں نماز کی ادائیگی کے لیے اسے اجازت نامہ حاصل کرنا ہو گا‘۔ ’حرم مکی شریف کے حوالے سے یہ ضابطہ مکہ مکرمہ کے رہائشیوں پر لاگو ہو گا۔ وہ اگر حرم میں نماز ادا کرنا چاہیں تو انہیں اس کے لیے اجازت نامہ لینا ہو گا‘۔

بشکریہ اردو نیوز

پیکرِ شرم وحیا : حضرت عثمان غنی ذوالنورین رضی اللہ تعالیٰ عنہ

اس دنیائے رنگ وبو میں بہت سی ہستیاں ایسی گزری ہیں جن کی عظمت کے نشاں گردشِ دوراں پر ثبت ہیں۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی جماعت اور گروہ انبیاء کے بعد دنیا میں سب سے زیادہ فضیلت کا حامل گروہ ہے۔ نبی کریم ﷺکی احادیث مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اس اُمت کے سب سے افضل لوگ ہیں۔ صحیح مسلم میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا: میر ی اُمت میں سے بہترین اس دور کے لوگ ہیں جو میرے ساتھ ہیں (صحابہ) ‘ پھر وہ ہیں جو ان کے ساتھ (کے دور میں) ہوں گے (تابعین) ‘ پھر وہ جوان کے ساتھ (کے دور میں) ہوں گے (تبع تابعین) ‘ پھر ایسے لوگ آئیں گے کہ ان کی گواہی ان کی قسم سے پہلے ہو گی۔ اور ان کی قسم ان کی گواہی سے پہلے ہو گی۔

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے بھی بعض ہستیاں ایسی ہیں جن کے کارہائے نمایاں نے ان کو باقی صحابہ سے ممتاز کر دیا؛ چنانچہ حدیث مبارکہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کے دس صحابہ ایسے ہیں کہ جن کا نام لے کر نبی کریم ﷺ نے ان کو جنت کی بشارت دی۔ سنن ابی داؤد میں روایت ہے کہ سعید بن زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں گواہی دیتا ہوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کہ میں نے آپ کو فرماتے سنا: دس لوگ جنتی ہیں: ”ابوبکرؓ جنتی ہیں‘ عمرؓ جنتی ہیں‘ عثمانؓ جنتی ہیں‘ علیؓ جنتی ہیں‘ طلحہؓ جنتی ہیں‘ زبیر ؓبن عوام جنتی ہیں‘ سعدؓ بن مالک جنتی ہیں اور عبدالرحمنؓ بن عوف جنتی ہیں اور اگر میں چاہتا تو دسویں کا نام لیتا‘ وہ کہتے ہیں: لوگوں نے عرض کیا: وہ کون ہیں؟ تو وہ خاموش رہے‘ لوگوں نے پھر پوچھا: وہ کون ہیں؟ تو کہا: وہ سعیدؓ بن زید ہی ہیں‘‘۔ عشرہ مبشرہ میں سے بھی چار صحابہ ایسے ہیں کہ جن کو حضرت رسول اللہ ﷺ کے بعد خلیفہ راشد ہونے کا شرف حاصل ہوا۔

اٹھارہ ذی الحجہ کا دن ان چار خلفاء راشدین میں سے جس عظیم ہستی کی یاد دلاتا ہے وہ حضرت عثمان ذوالنورین ؓ کی ہستی ہے۔ حضرت عثمان ؓ  کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے بہت سے غیر معمولی اوصاف اور خوبیوں سے نوازا تھا۔ آپ نے قبولِ اسلام سے قبل بھی اپنی پاکیزگی اور طہارت کی حفاظت فرمائی تھی اور اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کی پاکیزگی اور طہارت دو چند ہو گئی تھی۔ آپ ؓ  کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فطرت سلیمہ سے نوازا تھا اور اپنی عفت و عصمت کی حفاظت کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ ؓ کو استغنا اور سخاوت کے غیر معمولی اوصاف سے بھی نوازا تھا۔ اس فطرتِ سلیمہ کے سبب جب اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب حضرت محمد ﷺنے اعلان ِنبوت فرمایا تو جن ہستیوں نے ابتدا ہی میں آپ ﷺ کی دعوت پر لبیک کہا ان میں حضرت عثمان غنی ؓ بھی شامل ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو بھی اسلام قبول کرنے کی پاداش میں مختلف طرح کی اذیتوں اور تکالیف کو برداشت کرنا پڑا‘ لیکن حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان تمام اذیتوں کو بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کیا۔

اللہ تبارک وتعالیٰ کے آخری نبی حضرت رسول اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی بیٹی حضرت رقیہ ؓ کے نکاح کا فیصلہ کیا تو اس کے لیے جس ہستی کو منتخب کیا گیا تو وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ تھے۔ آپؓ نے اپنے دین کے تحفظ کے لیے نبی کریمﷺ کے دیگر صحابہ کی طرح شہرِ مکہ کو خیر باد کہا اور مدینہ طیبہ کو اپنا مسکن بنا لیا۔ آپؓ کو نبی کریمﷺ کی صحبت اور رفاقت کا شرف مدینہ طیبہ میں بھی حاصل رہا۔ مدینہ طیبہ میں آپؓ بھی حضرت رسول اللہﷺ کی ہمراہی میں مختلف غزوات میں شرکت کرتے رہے۔ غزوۂ بدر کے موقع پر حضرت رقیہؓ کی تیمارداری کی وجہ سے آپؓ جنگ میں شریک نہ ہو سکے‘ لیکن حدیثِ پاک میں اس بات کا ذکر ہے کہ اللہ کے حبیب ﷺ نے آپ کو بدر کے غازیوں کے برابر کی ثواب کی نوید سنائی تھی۔ صحیح بخاری میں حضرت عبداللہؓ بن عمر سے روایت ہے کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بدر کی لڑائی میں شریک نہ ہو سکے تھے۔ ان کے نکاح میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک صاحبزادی تھیں اور وہ بیمار تھیں‘ ان سے نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ آپ کو بھی اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا بدر میں شریک ہونے والے کسی شخص کو‘ اور اتنا ہی حصہ بھی ملے گا۔

سیدہ رقیہؓ کے انتقال کے بعد آپؓ کے عقد میں نبی کریم ﷺ کی دوسری بیٹی سیدہ اُم کلثوم ؓآئیں۔ یہ حضرت عثمان ؓ کا ایسا شرف ہے جو کسی اور صحابی کو حاصل نہ ہوا۔ نبی کریم ﷺ کی دو بیٹیوں کا آپؓ کے نکاح میں آ جانا آپؓ کے لیے ایک غیر معمولی اعزاز تھا۔ حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی نظروں میں حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا اتنا بلند مقام تھا کہ آپ ؓ کو زمانہ رسالت مآب ﷺہی میں حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمر فاروق ؓ کے بعد ممتاز ترین صحابی سمجھاجاتا تھا؛ چنانچہ صحیح بخاری میں روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ ہی میں جب ہمیں صحابہ کے درمیان انتخاب کے لیے کہا جاتا تو سب میں افضل اور بہتر ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو قرار دیتے‘ پھر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پھر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو۔ کتب احادیث میں سیدنا صدیق و فاروقؓ کے ساتھ ساتھ مختلف مقامات پر آپؓ کی عظمت کا ذکر بھی موجود ہے۔

صحیح بخاری کی ایک تفصیلی حدیث جو حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہے کے مطابق نبی کریمﷺ نے حضرت ابو بکر صدیقؓ اور حضرت عمرفاروقؓ کے ساتھ ساتھ حضرت عثمان ؓ کو بھی جنت کی بشارت دی۔ اسی طرح صحیح بخاری میں سیدنا انس بن مالکؓ سے روایت ہے جب نبی کریمﷺ ابوبکر‘ عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر اُحد پہاڑ پر چڑھے تو اُحد کانپ اٹھا‘ آپ ﷺ نے فرمایا ”اُحد! قرار پکڑ کہ تجھ پر ایک نبی‘ ایک صدیق اور دو شہید ہیں‘‘۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عظمت کو بیعتِ رضوان کے واقعہ نے مزید اُجاگر فرما دیا کہ جب آپؓ کی شہادت کی افواہ پر حضرت رسول اللہ ﷺ نے جمیع صحابہ کرامؓ سے آپ ؓکے قصاص کی بیعت لی تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے خود سورہ فتح کی آیت نمبر 18 میں اس امر کا اعلان فرما دیا: ”بلاشبہ یقینا اللہ راضی ہو گیا مومنوں سے جب وہ بیعت کر رہے تھے آپ سے درخت کے نیچے تو اس نے جان لیا جو (خلوص) ان کے دلوں میں تھا تو اس نے نازل کر دی ان پر سکینت اور اس نے بدلے میں دی انہیں جلد فتح‘‘۔

نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ میں جب بھی مالی تعاون کی ضرورت پڑی تو حضرت عثمان غنیؓ پیش پیش رہے۔ بئر رومہ کی خریداری کا معاملہ ہو یا غزوۂ تبوک میں اسلامی لشکر کی معاونت کا مسئلہ ‘ حضرت عثمان غنیؓ کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ نبی کریمﷺ اپنی حیاتِ مبارکہ کے آخری لمحات تک حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے راضی رہے۔ آپﷺ کے انتقال پرملال کے بعد بھی حضرت عثمان ؓ نے اسلام اور مسلمانوں کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کیے رکھا۔ حضرت صدیق و فاروقؓ کی وفات کے بعد آپ ؓ کے کندھوں پر خلافت کی خلعت کو ڈالا گیا۔ حضرت عثمان غنیؓ نے اپنے عہدِ خلافت میں اسلامی سلطنت کی توسیع کے لیے نمایاں کردار ادا کیا اور مسلمان اُمت کو قرآن مجید کے ایک ہی مصحف پر جمع کروا دیا۔

اس حوالے سے صحیح بخاری کی ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: عثمان رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت، عبداللہ بن زبیر، سعید بن عاص اور عبدالرحمٰن بن حارث بن ہشام رضی اللہ عنہم کو بلایا اور ان کو قرآن مجید کی کتابت پر مقرر فرمایا؛ چنانچہ ان حضرات نے قرآن مجید کو کئی مصحفوں میں نقل فرمایا اور عثمان رضی اللہ عنہ نے (ان چاروں میں سے) تین قریشی صحابہ سے فرمایا تھا کہ جب آپ لوگوں کا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے (جو مدینہ منورہ کے رہنے والے تھے) قرآن کے کسی مقام پر (اس کے کسی محاورے میں) اختلاف ہو جائے تو اس کو قریش کے محاورے کے مطابق لکھنا‘ کیونکہ قرآن شریف قریش کے محاورہ میں نازل ہوا ہے۔ انہوں نے ایسا ہی کیا۔

حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں انتشار پسند فسادیوں نے آپ کی ذات کو ناحق تنقید اور طعن کا نشانہ بناتے ہوئے آپ کے خلاف ایک یورش کو بپا کرنے کی کوشش کی۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ کی حرمت اورتقدس کو مدنظر رکھتے ہوئے کسی بھی سخت اقدام سے گریز کیا حتیٰ کہ خود جامِ شہادت کو نوش فرما لیا لیکن شہر مدینہ میں تلوار کو نہیں چلنے دیا۔ حضرت عثمان غنی ؓ کی سیرت تاریخ کا ایک روشن باب ہے جس سے ہمیں شرم وحیا‘ جودو سخا اور ایثار اور للہیت کا درس ملتا ہے۔ حضرت عثمان غنیؓ ایسے عالم میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ آپ قرآن مجید کی تلاوت فرما رہے تھے اور آپ ؓنے اپنے عمل سے رہتی دنیا تک کے لوگوں کو اس بات کا درس دیا کہ مومن کی زندگی کے آخری لمحات بھی اللہ تبارک وتعالیٰ کی بندگی اور عبادت میں وقف ہونے چائیں۔ 18 ذی الحجہ کو حضرت عثمان غنیؓ شہادت کی خلعت فاخرہ کو زیب تن ہو کر اس دنیا فانی سے رخصت ہوئے اور ہمیشہ کے لیے اپنے کردار کے اجلے نقوش تاریخ اسلام پر ثبت کر گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں بھی صحابہ کرام ؓ خصوصاً خلفا ء راشدین کی اجلی سیرت سے رہنمائی حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

علامہ ابتسام الہٰی ظہیر