دعا کے آداب : دُعا مؤمن کا عظیم ہتھیار

دعا کے بارے میں قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد جگہ ہدایت دی ہے، ان آیات مبارکہ سے دعا کی عظمت واضح ہوتی ہے۔ سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 186 میں ارشاد باری تعالی ہے : ترجمہ : اور (اے پیغمبر) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمہارے) پاس ہوں، جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیے کہ میرے حکموں کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں۔ اللہ کے پیارے نبی حضرت محمدﷺ نے دعا کی عظمت، اس کی بر کتیں، دعا کے آداب اور دعا کرنے کے بارے میں واضح ہدایات دی ہیں۔ ایسی بے شمار احادیث ہیں، جن میں دعا کا ذکر ہے اور دعا کی اہمیت و فضیلت کو واضح کیا گیا ہے۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دعا کارآمد اور نفع مند ہوتی ہے اور ان حوادث میں بھی جو نازل ہو چکے ہیں اور ان میں بھی جو ابھی نازل نہیں ہوئے، پس اے خدا کے بندو! دعا کا اہتمام کرو۔ (جامع ترمذی)

ایک اور حدیث حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے مروی ہے کہ حضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ سے اس کا فضل مانگو، کیونکہ اللہ کو یہ بات محبوب ہے کہ اس کے بندے اس سے دعا کریں اور مانگیں۔ اللہ تعالیٰ کے کرم سے امید رکھتے ہوئے اس بات کا انتظار کرنا کہ وہ بلا اور پریشانی کو اپنے کرم سے دور فرمائے گا اعلیٰ درجہ کی عبادت ہے۔ (جامع ترمذی)

فقہائے کرام نے دعا مانگنے کے آداب میں درج ذیل اموربطورِ خاص بیان فرمائے ہیں: (۱) کھانے، پینے، پہننے اورکمانے میں حرام سے بچنا۔ (۲) دعا مانگنے سے پہلے کوئی نیک کام مثلاً : صدقہ دینا ،یا نماز پڑھنا وغیرہ، کرنا۔ (۳) سختیوں اورمصیبتوں کے وقت خاص طور پر اپنے نیک اعمال کے واسطے سے دعا مانگنا (۴) ناپاکی اور نجاست سے پاک ہونا۔ (۴) باوضو ہونا۔ (۵) قبلہ رخ ہونا۔ (۶) دعا سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثناء کرنا، شروع اور آخر میں رسول اللہ ﷺ پر درود و سلام بھیجنا۔ (۷) دونوں ہاتھ پھیلا کر اور اوپر اٹھا کر دعا مانگنا۔ (۸) عاجزی و انکساری اختیار کرنا۔ (۹) گڑگڑانا۔ (۱۰) انبیائے کرام ؑ اور اللہ کے نیک بندوں کے وسیلے سے دعا مانگنا۔

دعا کی قبولیت کے مخصوص اوقات اور مقامات

دعا اللہ اور بندے کے درمیان ایک ایسا مخصوص تعلق اور منگتے اور اس کے خالق کے درمیان براہ راست را بطہ ہے، جس میں بندہ اپنے معبود سے اپنے دل کا حال سیدھے سادہ طریقے سے بیان کر دیتا ہے۔ بندہ اپنے پروردگار سے دن یا رات کے کسی بھی حصے میں د عا مانگ سکتا ہے، کوئی خاص وقت اس مقصد کے لیے مقرر نہیں، تاہم احادیث مبارکہ سے دعا کے لیے درج ذیل خاص اوقات ثابت ہیں، ان وقتوں میں دعائیں بہت جلد قبول ہوتی ہیں : (۱) رات کا آخری حصہ ( یعنی پچھلی شب بیدار ہو کر نماز تہجد پڑھنے کے بعد کی دعا۔ (۲) جمعہ کے دن میں بھی ایک قبولیت کی ساعت (گھڑی ) ہے، اس میں دعا قبول ہوتی ہے ۔ (۳) شب قدرمیں مانگی جانے والی دعا۔ (۴) اذان کے وقت کی دعا۔ (۵) فرض نمازوں کے بعد کی دعا۔ (۶) سجدے کی حالت میں مانگی جانے والی دعا۔ (۷) قرآن مجید کی تلاوت اور ختم قرآن کے وقت مانگی جانے والی دعا۔ (۸) رمضان شریف کے مہینے میں افطار کے وقت کی دعا۔

اسی طرح دعا کے لیے مخصو ص مقا مات کی بھی کوئی قید نہیں، البتہ احادیث و آثار میں درج ذیل مقامات پر دعا ئیں قبول ہونے کی صراحت ہے : (۱) بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے۔ (۲) مسجد نبویؐ میں (۳) ملتزم، یعنی وہ جگہ جو حجر اسود اور خانہ کعبہ کے دروازے کے درمیان ہے، اس پر چمٹ کر دعا کرنا۔ (۴) میزاب رحمت کے نیچے ۔ (۵) بیت المقدس میں۔ (۶) رکن و مقام ابراہیم کے درمیان۔ (۷) صفا و مروہ پر ۔(۸) مقامِ ابراہیم کے پیچھے۔ (۹) اس جگہ، جہاں سعی کی جاتی ہے۔ (۱۰) عرفات میں۔ (۱۱) زمزم کا پانی پیتے وقت۔ (۱۲) مشعرِ حرام مزدلفہ میں۔ (۱۳) رکنِ یمانی اور حجرِا سود کے درمیان۔ (۱۴) جمرہ ٔصغریٰ اور جمرۂ وسطیٰ کے پاس کنکریاں مارنے کے بعد۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اِن آداب کی رعایت کرتے ہوئے، قبولیتِ دعا کے کامل یقین کے ساتھ، خوب دعائیں مانگنے کی توفیق عطا فرمائے۔

آمین!

مولانامحمد جہان یعقوب

دعا کی اہمیت اور اُس کی ضرورت

دعا وہ میڈیم، ذریعہ، واسطہ یا ہاٹ لائن ہے جو بندے کو ڈائریکٹ اللہ سبحانہ و
تعالٰی سے کنیکٹ کر دیتی ہے۔ اللہ تعالٰی اپنے بندوں سے بہت قریب ہیں اور اُن کی ضرور سنتے ہیں۔ دعا مانگنا اور شکر ادا کرنا، یہ دو اسکلز ہیں جو آپ کی زندگی بدلنے کی قدرت رکھتی ہیں۔ کوشش کرنی چاہئیے کہ آپ کے شہر میں آپ سے بڑا منگتا کوئی نہ ہو۔ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے بس مانگتے ہی رہیں۔ جوتے کے تسموں سے گاڑی تک اور نوکری سے گھر گر ہستی تک۔ ہم نے بوسٹن، مساچوسیٹس میں ایک 3 روزہ ٹریننگ کی۔ ادارے کا نام تھا رائٹ کیوسچن انسٹی ٹیوٹَ (RQI)۔ یہ لوگ تین دنوں میں صرف یہ بتاتے ہیں کہ سوال کیسے پوچھنا چاہئیے اور پھر ملنے والے جواب کو کیسے محفوظ کیا جاتا ہے۔ اگر صرف یہ ایک صلاحیت آپ اپنے بچوں کو سِکھا دیں تو اُس کی ترقی یقینی ہے۔ بالکل اسی طرح دعا مانگنے کا سلیقہ بھی وہ صلاحیت ہے جو زندگی بھر کے لئے کافی ہو جاتی ہے۔

یقین جانیے کہ اگر آپ کو صرف دعا مانگنی آ جائے تو آپ بھلے کسی پہاڑ کی چوٹی پر جا کر کسی غار میں بسیرا کر لیں، ایک پگڈنڈی لوگوں کو خود بخود آپ تک پہنچا دے گی۔ دعا اور شکر اللہ تک پہیچنے کا مختصر ترین راستہ ہے، بھکاریوں کو کہتے سنا کہ بھائی کچھ دے دو، میرے پاس سوائے اللہ کے کچھ بھی نہیں۔ ذرا غور کریں تو جس کہ پاس اللہ ہے اُسے مزید کچھ چاہئیے ہی کیوں؟ اگر آپ فارغ ہیں، بےروزگار ہیں تو آپ سے زیادہ خُدا سے مانگنے کا وقت کس کے پاس ہے؟ بس مانگتے چلے جائیں، بچوں کی طرح، رٹتے چلے جائیں۔ کسی سے سنا کہ ایک عورت زندگی بھر بھیک مانگتی رہی، جب اوپر پہنچی تو فرشتوں نے کہا کہ تم نے بڑا بُرا کام کیا اور تم ایسی ویسی ہو۔ اب یہاں کیا لینے آئی ہو؟ تو عورت نے حیرانگی سے پوچھا کہ دنیا میں زندگی بھر جس کے پاس جاتی وہ کہتا، اماں معاف کرو، اللہ دے گا۔ اب یہاں آئی ہوں تو بھی یہ سننا تھا۔ کہتے ہیں اس کی بخشش ہو گئی۔

اصل میں بات یہ ہے کہ اللہ سے حسنِ ظن رکھنا چاہئیے۔ اپنی پریشانیوں، کاروبار میں مندے کا رونا، اولاد کی نافرمانیوں کی داستان، گھریلو چپقلش کے شکوے، اور دنیاوی مسائل کا رونا، سب اللہ سے بدگمانی ہی تو ہے کہ نعوذ باللہ میرے مسائل بڑھ گئے اور اللہ کی رحمت چھوٹی پڑ گئی۔ اللہ بہت حیاء والا ہے وہ رحم کی اپیل کبھی رد نہیں کرتا۔ اُسے بڑی شرم آتی ہے اپنے بندے کو خالی ہاتھ واپس لوٹاتے ہوئے۔ آپ دیکھیں نا کہ آپ جو کچھ بھی مانگ لیں وہ اللہ کے بس میں ہے کہ وہ دے دے۔ اُس کا مخلوق سے کیا موازنہ؟ نہ اُس نے اسمبلی سے بِل پاس کروانا ہے، نہ سفارش لگوانی ہے، نہ بینک کھلنے کا انتظار کرنا ہے تو ایسا کیونکر ہو کہ وہ دینے پر قدرت رکھتا ہے، آپ کو اپنے سامنے ہاتھ پھیلانے کی توفیق دے، آپ کو اِس بات پر قدرت دے کہ آپ مانگ سکیں اور پھر لوٹا دے۔ نہیں بھائی، اللہ ایسا نہیں ہے۔ آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے، میں نے ہر اِک سے یہی سنا ہے کہ وہ دے دیتا ہے۔ وہ جو کافر کو دیتا ہے وہ آپ کو نہیں دے گا؟ ایسا نہ کہیں۔
پانچویں پارے کی آخری آیت دیکھیں جو مَا یَفعَل اللہ سے شروع ہوتی ہے۔ ترجمہ کچھ یوں ہوا ہے،
’’اللہ کو کیا پڑی ہے کہ وہ تمہیں عذاب دے اگر تم شکر ادا کرو اور ایمان لے آو‘‘
اب بتائیں، نہ گناہوں کا ذکر نہ توبہ کا، شکر پہلے، ایمان بعد میں۔ یعنی کہ شکر ادا کرتے رہو تو ایمان کی توفیق مل جاتی ہے۔ ہر بات پر شکر کرو۔ بیوی پر نظر پڑے تو شکر، بچوں پر نظر پڑے تو شکر، نرم صوفے پر بیٹھیں تو شکر، گرم روٹی ملے تو شکر۔ ہر نعمت کا شکر بھی تو الگ ہے۔ آنکھ کا شکر، یہ کہ اس سے غلط چیز نہ دیکھیں۔ بھلا 3 گھنٹوں کی فلم کوئی کیسے دیکھے۔ یعٰنی پورے 3 گھنٹے اللہ کو یاد کیئے بغیر گزر جائیں، یہ تو بڑی غفلت ہے۔ یاد رکھنے کی بات ہے کہ غفلت بڑا عظیم گناہ ہے اورحضوری بڑی عظیم عبادت کہ اللہ یہاں میرے ساتھ موجود ہے۔
جیسے ہم پڑھاتے ہیں نا Mindfulness کہ اپنے آپ کو سمجھیں کہ آپ اِس وقت حال میں کیا کر رہے ہیں اور اُسے انجوائے کریں بالکل ایسے ہی اللہ کا خیال بھی رکھیں۔ اگر آپ دوستوں کے ساتھ کمرے میں بیٹھے ہوں اور آپ کے والد صاحب آجائیں تو بتائیں کیسے کوئی شرارت یا لغو بات ہو گی؟ اب سوچیں کہ اللہ بھی اِسی کمرے میں موجود ہیں۔ میرے ایک استاد کہتے ہیں کہ اللہ کی معرفت حرام ہے اُس شخص پر جس کی تنہائی پاک نہیں۔ تو بس مانگتے رہیں۔ کچھ نہ سمجھ آئے تو دو رکعت نماز تلاشِ گمشدہ پڑھ لیں۔ گناہ کا دل کرے تو اللہ سے کہہ دیں کہ تُو روک لے ورنہ میں تو گیا۔ روز رات کو چادر اُوڑھ کر اللہ سے موبائل کے نائٹ پیکجز کی طرح باتیں کریں۔ اُس کے ہونے کا احساس زندگی میں رونق بخش دیتا ہے۔ کوشش کریں کہ موقع اور نسبتوں کا خیال رکھیں۔ نسبتوں کی بے ادبی کرنے والوں کی زندگی سے برکت اُٹھ جاتی ہے اور پھر وہ دریا سے بھی پیاسے ہی لوٹتے ہیں۔ وہاں نیکی کریں جہاں کوئی بھی توقع نہ کر رہا ہو۔ وہاں دعا مانگیں جہاں کوئی نہ سوچے۔ وہاں گناہ سے رک جائیں جہاں لازمی ہو۔
دیکھیں گناہ کتنے کم جاتے ہیں حرمِ مکہ کی حدود میں، مسجد میں، رمضان میں۔ کیونکہ موسم نیکیوں کا ہوتا ہے۔ تو سوچیں کتنا ثواب ہو گا جب ہوا گناہوں کی چلی ہو۔ جو توڑے اُس سے جوڑیں۔ جو ذلیل کرے اُسے عزت دے دیں۔ جو ظلم کرے اُسے معاف کر دیں۔ عین غصّے کے وقت جب گالی زبان پر آنا چاہتی ہو، رک جائیں اور دعا دے دیں۔ عین وحشت کے وقت رک جائیں اور اللہ سے حلال میں برکت کی دعا کر دیں۔ عین بھوک کے وقت بھوکوں کا خیال کر لیں۔ عین خوشی کے وقت شکر بھی ادا کر دیں۔ موقع کی دعاَئیں اور نسبتوں کا خیال دعاؤں کے لئے بالکل ویسا ہی ہے جیسے طبیعاتی زندگی میں ٹائم ٹریول۔ یہ برکتوں سے بھر دیتا ہے۔ آئیے دعا مانگتے ہیں اِس یقین کے ساتھ کہ میرے اور اللہ میں صرف اُن دو ہاتھوں کا فاصلہ ہے جو اُس کے سامنے اٹھے ہوئے ہیں۔
’’اے مالکِ بحروبر، یا ذوالجلال والاکرام، اے برفانی جھرنوں کے پانی سے زیادہ پاک اللہ اُن پر کرم کر جو گناہوں کی کیچڑ میں ناپاک ہوئے۔ اے کائنات میں سب سے زیادہ چاہے جانے والی ذات اُن پر نظر کر جو دھتکارے گئے۔ اے سب سے زیادہ سمیع و بصیر اور پُکارے جانے والی ذات ہم پر رحم کر جو نظر انداز کئے گئے۔ جن کی سنی کوئی نہ گئی۔ جو در در ٹھکرائے گئے۔ اے سب سے زیادہ عزت والی مکرم ذات اُن کو معاف کردے جو ذلیل وخوار ہوئے۔ اے بلند و بالا، عالی مقام، شاندار اللہ انہیں بخش دے جو طعنوں، غیبتوں، جھوٹ، حسد کینہ و ظلم میں روند دئیے گئے۔
اے کروڑوں فرشتوں و مخلوقات کے خالق اللہ اُن سے راضی ہو جا، جنہیں اُن کے اپنے بھی چھوڑ گئے۔ جو اکیلے رہ گئے۔ اے پھل دار درختوں کے انداتا اُن پر رحم کر جن کے پاس کچھ نہ بچا۔ اے وقت کے خالق اللہ، اُن پر کرم جنہوں نے وقت کو ضائع کر دیا، عمر گنوا دی، کوئی کام نہ کیا۔ اے بے نیازوں کے بے نیاز اللہ، تُو کیا کرے گا مجھے عذاب دے کر، جتنے بھی ہیں سب گناہ معاف کر دے۔ اے مشکل کُشا، جیسے چاہے دے، جہاں سے چاہے دے۔ سن لے میری، اِس واسطے کہ تو اللہ ہے۔ تُو تو ربّ ہے میرا، انتَ مولٰنا! میں فقیر، میں عاجز، میں بندہ، میں کمزور، میں خطاکار، غلطی ہو گئی۔ بندہ تو تیرا ہی ہوں۔ تو اچھا معاملہ کر۔
اے اللہ! کوئی ایک قطرہ جو کسی پڑھنے والے کی آنکھ سے نکلا ہو، اُسی کے صدقے معاف کر دے۔ اسے معاف کر دے جس کے پاس پیش کرنے کو ایک نیکی بھی نہیں۔ میری عزت، میری جان، میری محبت، میرے کام سب تیرے صدقے۔ اب تو خالی ہوگیا، اب تو معاف کر دے!
بس ایسے ہی الٹی سیدھی، بچگانہ، ٹیڑھی میڑھی دعائیں مانگنے سے زندگی سیدھی ہوجاتی ہے۔
اللہ ہمیں دعا مانگنا سکھائے۔
آمین!.
ذیشان الحسن عثمانی