گناہوں پر ندامت کی فضیلت و برکات

ﷲ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے پاک زندگی عطا فرمائے اور جو گناہ ہو گئے ہیں یا آئندہ ہوں گے ان پر اِستغفار کی توفیق عطا فرمائے۔ اِستغفار کا مطلب یہ ہے کہ بندہ اپنے گناہوں کی ﷲ تعالیٰ سے ندامت کے ساتھ معافی مانگے۔ ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اِستغفار کا حکم دیا ہے اور اس کے اہم فوائد بھی بتلائے ہیں مفہوم: ’’پھر میں نے (ان سے) کہا کہ اپنے رب سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو۔ یقیناً وہ بہت زیادہ معافی دینے والا ہے۔ (گناہوں سے معافی مانگنے پر وہ اتنا خوش ہو گا کہ) تم پر آسمان سے (فائدے والی) خوب بارشیں برسائے گا اور تمہارے اموال و اولاد میں (برکت والی) ترقی دے گا تمہارے لیے (انواع و اقسام کے) کے باغات پیدا فرما دے گا اور تمہارے فائدے کے لیے نہریں بہا دے گا۔‘‘ (سورۃ نوح) حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں کہ ﷲ کے رسول ﷺ حدیث قدسی ارشاد فرماتے ہیں، جس میں ﷲ تعالیٰ اپنے بندوں کو یوں خطاب فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اے میرے بندو! میں نے اپنے اوپر ظلم کو حرام قرار دیا ہے (یعنی میں ظلم سے پاک ہوں) جب میں نے اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے تو اسی طرح تمہارے درمیان بھی ظلم کو حرام قرار دیا ہے اس لیے آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔

اے میرے بندو! جس کو میں (اپنی توفیق سے) ہدایت عطا فرما دوں اس کے علاوہ تم سب گم راہ ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے ہدایت (کی توفیق) مانگو۔ میں ہی تمہیں ہدایت عطا کروں گا۔ اے میرے بندو! جس کو میں (اپنے فضل سے ) روزی دوں اس کے علاوہ تم سب بھوکے ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے (میرے فضل کو طلب کرتے ہوئے) روزی کا سوال کرو میں ہی تمہیں روزی دوں گا۔ اے میرے بندو! جس کو میں (اپنے کرم سے) لباس پہناؤں اس کے علاوہ سب ننگے ہو۔ اس لیے تم سب مجھ سے (میرے کرم کی امید رکھتے ہوئے) لباس مانگو میں ہی تمہیں لباس دوں گا۔ اے میرے بندو! تم دن رات گناہ کرتے ہو اور میں تمہارے گناہ معاف کرتا ہوں اس لیے مجھ ہی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگو میں ہی تمہارے گناہ معاف کروں گا۔ اے میرے بندو! تم مجھے نقصان نہیں پہنچا سکتے اور نہ ہی مجھے نفع دے سکتے (یعنی تمہارے گناہوں سے مجھے نقصان نہیں اور تمہاری نیکیوں سے مجھے فائدہ نہیں بل کہ گناہ اور نیکی کا نقصان اور نفع صرف اور صرف تمہارے لیے ہے) اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر ایک نہایت پرہیز گار دل کی طرح بن جاؤ تو اس سے میری مملکت میں کوئی اضافہ نہیں ہو گا۔

اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر ایک نہایت بدکار دل کی طرح بن جاؤ تب بھی میری مملکت میں کسی ادنی سی چیز کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے پچھلے جن و انس سب کے سب مل کر کسی میدان میں کھڑے ہو جائیں اور پھر مجھ سے (اپنی زبان میں اپنی ساری ضروریات) مانگیں اور میں ہر ایک کی اس کی تمام ضروریات دوں تب بھی میرے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہیں ہو گی جتنی کہ سمندر میں سوئی گرنے سے پانی کے کم ہونے کی ہوتی ہے۔ اے میرے بندو! یہ بات اچھی طرح سمجھ لو کہ میں تمہارے اعمال کو یاد رکھتا ہوں اور انہیں (تمہارے حق میں اتمام حجت کے طور پر) لکھوا لیتا ہوں۔ میں تمہیں ان کا پورا پورا بدلہ دوں گا اس لیے جو شخص بھلائی پا لے اسے چاہیے کہ وہ مجھ ﷲ کی حمد و شکر ادا کرے اور جس شخص کو بھلائی کے بہ جائے برائی ملے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے نفس کو ملامت کرے کیوں کہ (بعض دفعہ) یہ اس کے گناہ کی وجہ سے ہوتا ہے۔‘‘ (بہ حوالہ: صحیح مسلم)

حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جب کوئی مومن بندہ گناہ کرتا ہے تو اس کے دل پر اس گناہ کی وجہ سے ایک سیاہ نقطہ لگ جاتاہے اگر وہ اس گناہ سے توبہ و استغفار کر لیتا ہے تو اس کے دل سے سیاہ نقطہ مٹا دیا جاتا ہے۔ اور اگر وہ توبہ کے بہ جائے مزید گناہ کرتا ہے تو وہ سیاہ نقطہ مزید بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر ﷲ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا ہے: ہرگز ایسا نہیں بل کہ ان کے دلوں پر زنگ ہے ان چیزوں کا جو وہ برے اعمال کرتے ہیں۔‘‘ (جامع الترمذی)  حضرت انس بن مالکؓ کہتے ہیں، میں نے ﷲ کے رسول ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں، مفہوم: ’’اے آدم کی اولاد! جب تک تو مجھ سے امید رکھ کر اپنے گناہوں کی معافی مانگتا رہے گا میں تیرے گناہوں کو بخشتا رہوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں (کہ اتنا بڑا گناہ کیوں بخش رہا ہوں) اے آدم کی اولاد! اگر (بالفرض) تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک بھی پہنچ جائیں پھر بھی تو مجھ سے ان کی معافی مانگے تو میں معاف کر دوں گا اور مجھے اس کی کوئی پروا نہیں (کہ اتنا بڑا گناہ کیوں بخش رہا ہوں) اے آدم کی اولاد! اگر تو مجھ سے اس حالت میں ملے کہ تیرے نامہ اعمال میں اتنے گناہ ہوں جن سے زمین بھر جاتی ہے تو تیری توبہ و استغفار کی وجہ سے میں بھی تجھے اتنا ثواب عطا کروں گا کہ جن سے زمین بھر جائے گی بہ شرط یہ کہ تُونے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو۔‘‘ (جامع الترمذی)

حضرت عبداﷲ بن عباسؓ سے روایت ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص استغفار کی عادت بنا لے ﷲ تعالیٰ اسے ہر تنگی و پریشانی سے نکلنے کا راستہ دے دیتے ہیں اور ہر رنج و غم سے نجات عطا فرما دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ اس کو ایسی ایسی جگہوں سے (حلال اور وسعت والا) رزق دیتے ہیں جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ) حضرت ابوسعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے ایک واقعہ سناتے ہوئے فرمایا کہ بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے ننانوے آدمیوں کو قتل کیا اور پھر علماء بنی اسرائیل سے یہ پوچھنے کے لیے چل پڑا کہ اتنے بڑے گناہ یا گناہ گار کے لیے توبہ کے قبول ہونے کوئی صورت ہے؟ ایک عابد و زاہد شخص نے اس کو جواب دیا کہ نہیں توبہ کے قبول ہونے کی کوئی صورت نہیں۔ اس شخص نے اس عابد و زاہد کو بھی مار ڈالا۔ پھر باقی علماء سے پوچھنے کے لیے چل نکلا، اس سے ایک شخص نے کہا کہ تم فلاں بستی میں جاؤ وہ نیک لوگوں کی بستی ہے اور وہاں فلاں عالم رہتے ہیں ان سے مسئلہ پوچھو وہ تمہیں توبہ کے قبول ہونے کے بارے میں ٹھیک فتویٰ دے گا۔

وہ شخص اس بستی کی طرف چل پڑا۔ ابھی آدھے راستے پر ہی پہنچ پایا تھا کہ اچانک ملک الموت آ پہنچے اس کو جب مرنے کی علامات محسوس ہوئیں تو اس نے اپنا سینہ اسی بستی کی طرف جھکا کر گر پڑا۔ چناںچہ اس کی روح نکالنے کے لیے رحمت اور عذاب کے فرشتے ملک الموت سے ایک طرح کا جھگڑا کرنے لگے۔ اسی دوران ﷲ تعالیٰ نے اس بستی (جس کی طرف توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا) کو حکم دیا کہ وہ اس شخص کے قریب ہو جائے اور اس بستی (جہاں سے قتل والا گناہ کر کے آ رہا تھا) کو حکم دیا کہ وہ اس سے دور ہو جائے۔ پھر ﷲ تعالیٰ نے ان فرشتوں سے فرمایا کہ کہ تم دونوں بستیوں کے درمیان پیمائش کرو اگر وہ اس بستی کے قریب جس کی طرف وہ توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا تو اسے رحمت کے فرشتوں کے حوالے کیا جائے اور اگر اس بستی کے قریب ہو جہاں سے قتل کر کے آ رہا تھا تو عذاب کے فرشتوں کے حوالے کیا جائے۔ فرشتوں نے جب پیمائش کی تو وہ اس بستی کے قریب تھا جس کی طرف توبہ کرنے کے لیے جا رہا تھا وہ بہ نسبت دوسری بستی کے ایک بالشت قریب تھا چناں چہ حق تعالیٰ شانہ نے اس کی مغفرت فرما دی۔ (صحیح البخاری)

حضرت عبداﷲ بن بسرؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’وہ شخص قابل مبارک باد ہے جس کے نامہ اعمال میں استغفار زیادہ ہو گا۔‘‘ (سنن ابن ماجۃ) حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ﷲ کے رسول ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ﷲ تعالیٰ اپنے نیک بندے کا جنت میں ایک درجہ بلند فرماتے ہیں تو وہ پوچھتا ہے کہ اے ﷲ! مجھے یہ درجہ کیسے نصیب ہوا؟ (حالاں کہ میں نے تو ایسی نیکی نہیں کی) ﷲ تعالیٰ جواب دیتے ہیں کہ تیرے لیے تیری اولاد نے استغفار کیا ہے اس لیے میں نے تیرا ایک درجہ جنت میں مزید بلند کر دیا ہے۔ (سنن ابن ماجۃ) ﷲ تعالیٰ ہمیں گناہوں سے پاک زندگی عطا فرمائے اگر گناہ ہو جائیں تو ان پر استغفار کرنے کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

مولانا محمد الیاس گھمن  

وسوسہ آئے تو کیا کریں؟

شکوک و شبہات والے دل میں وسوسے پیدا نہیں ہوتے۔ وسوسے ایمان والے دلوں میں  آتے ہیں اس لیے کبھی ایسے خیالات دل میں آئیں تو سمجھ جائیں کہ ایمان کی علامت ہے۔  شیطان اس وسوسے  کے ذریعے مایوس کرنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالٰی تمہیں کبھی معاف نہیں کرے گا کیونکہ تم اتنی بری بری باتیں سوچتے ہو اس وقت ان خیالات کو جھٹک دینا چاہیئے۔ کیونکہ شکوک و شبہات سیدھے راستے سے ہٹا دیتے ہیں۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “الایمان” میں اس طرف اشارہ فرمایا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وسوسے کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: “تِلْكَ مَحْضُ الْإِيْمَانِ” “یہی تو خالص ایمان ہے” یعنی وسوسے کا آنا ایمان کی علامت ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ انسان سوچے کہ میرے دل میں وسوسے نہیں آتے تو میرا ایمان ہی نہیں ہے۔

یعنی ضروری نہیں کہ وسوسے آئیں۔۔۔، لیکن اگر آئیں تو پریشان نہ ہوں۔ کیونکہ وسوسے کے اوپر پکڑ نہیں جب تک کہ وہ زبان پر نہ آجائے۔ اگر کوئی شخص اپنے دل کے وسوسوں کو زبان پر لے آتا ہے تو پھر اس پہ پکڑ ہے۔ لہذا برے وسوسوں کو زبان پر نہیں لانا چاہیئے اس طرح کوئی آپ کو اپنے وسوسے بتانا چاہتا ہے تو ہر گز نہ سنیں بلکہ بتانے سے منع کر دیں۔
•۔ شیطان برے وسوسے ڈال کر  آپ کو غمگین ، پریشان اور اداس کرنا چاہتا ہے۔ 
•۔ آپ کے ذہن کو منتشر کرنا چاہتا ہے۔ 
•۔ نیکی کے کاموں سے آپ کا فوکس ہٹانا چاہتا ہے۔ اللہ تعالٰی شیطان کے وسوسوں سے بچنے کے لئے ہمیں یہ دعا سکھاتے یے قل رب اعوذبک من ھمزات الشیاطین۔و اعوذبک رب ایحضرون
شیطان کے وسوسوں سے بچنے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا سکھائی: اَعُوْذُ بِاللہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَیْطَانِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمْزِہِ وَنَفْخِهِ وَنَفْثِهِ.  یہ دعا تین مرتبہ پڑھ کے دل کے اوپر تھتھکارنا چاہیئے۔ اس سے شیطان بھاگ جائے گا  اور وسوسے نہیں آئیں گے۔ اس طرح ایک اور روایت میں آتا ہے کہ وسوسوں سے بچنے کے لیے انسان اَمَنْتُ بِاللہِ پڑھے۔ اور پھر اللہُ اَحَدٌ ، اَللہُ الصَّمَدُ پڑھے یعنی قُلْ ھُوَ اللہُ اَحَدُ ۔ کثرت سے پڑھنا شروع کر دے۔ شیطان کا حملہ اس لیے ہوتا ہے تاکہ اس بندے کا ایمان کمزور کیا جائے۔

•۔ اس لیے ایسے خیالات کو جھٹک کر شیطان مردود سے پناہ مانگی جائے۔ 
•۔ اللہ سبحانہ و تعالی کی طرف رغبت کی جائے۔ 
•۔ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا جائے۔

فہم و فراست، تدبّر و تفکّر کی فضیلت

خدائے برتر نے انسان کو اپنا خلیفہ بنایا اور پوری کائنات کو محض اسی کے لیے پیدا فرمایا۔ اسی انسان کے اندر ظلمت و نور، خیر و شر، نیکی اور بدی جیسی ایک دوسرے کی مخالف صفات بھی پیدا فرما دیں، اب اگر انسان چاہے تو ان متضاد صفات کے ذریعے تمام مخلوق سے افضل اور برتر ہو سکتا ہے اور اگر وہ چاہے تو تمام تر پستیوں سے بھی گزر جائے۔ اگر خدا کے بتائے ہوئے طریقوں پر چلتا ہے تو خدا فرماتا ہے، مفہوم: ’’ہم نے بنی آدم کو عزت دی اور انہیں خشکی و سمندر پر چلنے کی اور سفر کی طاقت دی۔‘‘ اسی طرح اگر یہی انسان اپنے اندر قرآن حکیم کی ہدایات اور اس کے احکامات پر عمل کرنے کا نمونہ پیش کرتا ہے تو پھر قرآن میں خدا نے وعدہ فرمایا، مفہوم: ’’اور تم ہی بلند ہو اگر تم مومن ہو جاؤ۔‘‘ لیکن اگر انسان اپنے آپ کو قرآنی چشمہ ہدایت سے محروم رکھے تو پھر قرآن میں باری تعالیٰ نے واضح طور پر فرمایا، مفہوم: ’’ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ ہیں۔‘‘ خداوند کریم کی وہ امانت جس کے اٹھانے سے تمام کائنات عاجز رہی ﷲ جل جلالہ نے اس امانت کو انسان کے سپرد فرمایا، اس امانت کے کچھ تقاضے ہیں اور قرآن کریم انسان سے ان تقاضوں کی تکمیل اور اس کی پیدائش سے لے کر موت تک اس امانت کے بار کو سنبھالنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

اس تمام تر ذمے داری کو ادا کرنے کے لیے انسان تین قوتوں سے کام لیتا ہے اور انہی تین قوتوں کو علماء اخلاق اور حکمائے اسلام نے تمام اچھے اور برے اخلاق و اعمال کا سرچشمہ قرار دیا ہے۔ ان میں پہلی قوت فکر ہے جسے سوچ اور علم کی طاقت کہہ سکتے ہیں۔ دوسری غصہ کی طاقت۔ اور تیسری خواہشات کی طاقت۔ اب اگر ان تینوں قوتوں کو اعتدال میں رکھا جائے تو انسان کام یاب ہو جاتا ہے ورنہ دنیا و آخرت دونوں میں ناکام رہتا ہے۔ سوچنے کی قوت کو استعمال کرنے اور اسے اعتدال میں رکھنے کے لیے قرآن حکیم کی تعلیمات میں تدبر کا حکم ملتا ہے۔ تدبر کا لفظی معنی غور و فکر کرنا، دور اندیشی اور سوچ سمجھ کر کوئی کام کرنا۔ انسان تدبر سے کام لینے کی اہمیت سے بہ خوبی واقف ہوتا ہے لیکن دو چیزیں تدبر اختیار کرنے سے روکتی ہیں، ایک غصہ دوسرے جلد بازی۔ جس طرح اسلام نے باقی تمام قوتوں کے لیے اعتدال کا حکم دیا ہے اسی طرح غصے کے بارے میں بھی اعتدال اختیار کرنے کا حکم فرمایا۔ یعنی نہ اس کا استعمال بے جا کیا جائے اور نہ ہی بالکل کمی کر دی جائے۔

اگر غصے کی کیفیت اور اس کی قوت کو بالکل استعمال نہ کیا جائے تو یہ کیفیت بزدلی کی حدود میں داخل ہو جاتی ہے۔ اور اس کیفیت سے حضور اکرم ﷺ نے بھی پناہ مانگتے ہوئے دعا فرمائی، مفہوم: ’’اے ﷲ! مجھے بزدلی سے بچا۔‘‘ لیکن اگر غصہ کا استعمال ہر جگہ کیا جائے تو پھر ایک انسان اچھے بھلے معاشرہ میں بے چینی پیدا کر دیتا ہے اور اہل معاشرہ کی زندگی سے سکون رخصت ہو جاتا ہے۔ لہٰذا انسان کو یہ کام کرنے سے پہلے خصوصاً غصہ کے وقت میں تدبر یعنی غور و فکر اور سوچ سمجھ سے کام لینا چاہیے۔ دوسری چیز جو انسان کو تدبر اختیار کرنے نہیں دیتی وہ جلد بازی ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’کاموں کی متانت، اطمینان اور سوچ سمجھ کر انجام دینا ﷲ کی طرف سے ہوتا ہے اور جلد بازی کرنا شیطان کے اثر سے ہوتا ہے۔‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ ہر ذمہ داری کو اطمینان سے انجام دینے کی عادت اچھی ہے اس کے برعکس جلد بازی ایک بری عادت ہے اس میں شیطان کا دخل ہوتا ہے۔ 

حضور ﷺ کے ارشاد کے مطابق بردباری اور غور و فکر کے بعد کام کرنا ﷲ کو بہت پسند ہے۔ چناں چہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد حضور ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضری کے لیے مدینہ منورہ پہنچا، چوں کہ یہ لوگ کافی دور سے آئے تھے اس لیے گرد و غبار میں اٹے پڑے تھے جب یہ لوگ سواریوں سے اترے بغیر نہائے دھوئے، نہ اپنا سامان قرینے سے رکھا نہ سواریوں کو اچھی طرح باندھا، فوراً جلدی سے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گئے لیکن اس وفد کے سربراہ جن کا نام منذر بن عائذ تھا انہوں نے کسی قسم کی جلد بازی نہ کی بلکہ اطمینان سے اترے سامان کو قرینے سے ر کھا، سواریوں کو دانہ پانی دیا، پھر نہا دھو کر صاف ستھرے ہو کر وقار کے ساتھ حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضور ﷺ نے وفد کے سربراہ منذر بن عائذ کو مخاطب کرتے ہوئے اس کی تعریف کی اور فرمایا: ’’بے شک! تمہارے اندر دو خوبیاں پائی جاتی ہیں جو ﷲ کو بہت پسند ہیں۔ ان میں سے ایک صفت بردباری اور دوسری صفت ٹھہر ٹھہر کر غور و فکر کر کے کام کرنے کی ہے۔‘‘ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب انسان ہر کام سوچ و بچار کے بعد تحمل سے کرتا ہے تو وہ شخص اکثر مکمل کام کرتا ہے اور بہت کم نقصان اٹھاتا ہے۔

جب کہ بغیر سوچے سمجھے جلد بازی سے کام کرنے والے ایک عجیب قسم کے ذہنی خلجان کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اکثر نامکمل اور ناقص کام کرتے ہیں۔ لہٰذا اسلامی احکام کے مطابق مسلمانوں کو تدبر یعنی غور و فکر سے کام لینا چاہیے اور مومن کی شان بھی یہی ہے۔ حضور اکرم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’مومن کو ایک سوراخ سے دو مرتبہ نہیں ڈسا جا سکتا۔‘‘ (اس لیے کہ مومن ہر کام غور و فکر اور تدبر سے کرتا ہے) یہ ارشاد آنحضور ﷺ نے اس وقت فرمایا جب کفار کا ایک شاعر ابُوعزہ مسلمانوں کی بہت زیادہ ہجو کیا کرتا تھا۔ کفار اور مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف اکساتا اور بھڑکاتا رہتا۔ جنگ بدر میں جب یہ شاعر گرفتار ہوا تو حضور ﷺ کے سامنے اپنی تنگ دستی اور اپنے بچوں کا رونا روتا رہا، آپؐ نے ترس کھا کر فدیہ لیے بغیر اسے رہا فرما دیا، اس نے وعدہ کیا کہ اگر اسے چھوڑ دیا جائے تو آئندہ مسلمانوں کے خلاف ایسی حرکات نہیں کرے گا لیکن یہ کم ظرف شخص رہائی پانے کے بعد اپنے قبیلہ میں جا کر دوبارہ مشرکین کو مسلمانوں کے خلاف ابھارنے لگا۔ غزوہ احد میں دوبارہ گرفتار ہو گیا۔ اب پھر وہی مگر مچھ کے آنسو بہانے شروع کر دیے، رحم کی اپیلیں کرنے لگا لیکن حضور ﷺ نے اس کے قتل کا حکم صادر فرمایا اور ساتھ ہی آپؐ نے یہ بھی فرمایا کہ مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا۔ اس سے یہ بات بہ خوبی سمجھ میں آگئی کہ ایک عمل کرنے سے اگر کوئی نقصان ہو تو دوسری دفعہ وہ عمل نہیں کرنا چاہیے۔

ایک مرتبہ ایک شخص جناب رسول کریم ﷺ کے پاس آیا اور عرض کی کہ مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: ’’اپنے کام کو تدبر اور تدبیر سے کیا کرو اگر کام کا انجام اچھا نظر آئے تو اسے کرو اور اگر انجام میں خرابی اور گم راہی نظر آئے تو اسے چھوڑ دو۔‘‘ قرآن حکیم میں ﷲ رب العزت نے جا بہ جا تدبر کی ترغیب دی اور قرآن میں غور و فکر کرنے کی ہدایت فرمائی۔ سورۂ نساء میں ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے۔ اگر یہ خدا کے علاوہ کسی اور کا کلام ہوتا تو اس میں بہت سا اختلاف ہوتا۔‘‘ پھر ﷲ تعالیٰ سورۂ محمد میں ارشاد فرماتے ہیں، مفہوم: ’’یہ لوگ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے یا ان کے دلوں میں قفل لگے ہوئے ہیں۔‘‘ مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اس میں چند چیزیں قابل توجہ ہیں ایک یہ کہ ﷲ تعالیٰ نے فرمایا: وہ غور کیوں نہیں کرتے، یہ نہیں فرمایا کہ وہ کیوں نہیں پڑھتے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قرآن کے تمام مضامین میں بالکل اختلاف نہیں بہ شرطے کہ گہری نظر سے غور و فکر کے ساتھ قرآن پڑھا جائے۔ اور قرآن کا اچھی طرح سمجھنا تدبر ہی سے ہو سکتا ہے بغیر سوچے سمجھے پڑھنے سے یہ چیز حاصل نہ ہو گی۔

دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ قرآن کا مطالبہ ہے کہ ہر انسان اس کے مطالب اور مفہوم میں غور کرے۔ تمام علوم کی مہارت رکھنے والے علماء جب قرآن میں تدبر کریں گے تو ہر ایک آیت سے سیکڑوں مسائل کا حل تلاش کر کے امت مسلمہ کے سامنے پیش فرمائیں گے۔ اور عام آدمی اگر قرآن حکیم کا ترجمہ اور تفسیر اپنی زبان میں پڑھ کر غور و فکر اور تدبر کرے گا تو اسے ﷲ تعالیٰ کی عظمت و محبت اور آخرت کی فکر پیدا ہو گی۔ البتہ عام آدمی کو غلط فہمی اور مغالطے سے بچنے کے لیے بہتر یہ ہے کہ کسی عالم سے قرآن کو سبقاً سبقاً تفسیر کے ساتھ پڑ ھ لیں۔ اگر یہ نہ ہو سکے تو کوئی مستند اور معتبر تفسیر کا مطالعہ کر لیں اور جہاں کوئی بات سمجھ میں نہ آئے یا شبہ پیدا ہو وہاں اپنی رائے سے فیصلہ نہ کریں بلکہ ماہر علماء سے رجوع کیا جائے۔ اس لیے کہ مومنین کی شان قرآن حکیم میں یہ بیان ہوئی، مفہوم: ’’اور جب ان کو ان کے پروردگار کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گزر جاتے۔‘‘ یعنی مومن کی شان یہ ہے کہ وہ تدبر اور غور و فکر سے کام لے کر احکام اسلامی کو ادا کرے۔ ﷲ رب العزت ہمیں قرآن حکیم کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی زندگی کے ہر مرحلے میں سوچ بچار، غور و فکر اور تدبر سے کام لینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

مولانا حافظ فضل الرحیم اشرفی  

وسعت رزق

اس دور میں معاشرے کا تقریباً ہر فرد ہی رزق کی تنگی سے پریشان ہے اور اس کی ساری تگ و دو حصول رزق کے لیے رہ گئی ہے۔ ہم سب رزق میں وسعت اور برکت کی خواہش تو رکھتے ہیں، مگر قرآن و حدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت کے اسباب سے ناواقف ہیں۔ صرف دنیاوی جدوجہد، محنت اور کوشش پر انحصار کر لیتے ہیں۔ لہذا قرآن و حدیث کی روشنی میں رزق کی وسعت اور برکت کے چند اسباب تحریر کیے جارہے ہیں تاکہ ہمیں وسعت رزق کے لیے اسلام کے راہ نما اصولوں سے آگاہی مل سکے۔ اگر ہم دنیاوی جدوجہد کے ساتھ، اِن اسباب کو بھی اختیار کر لیں، تو ﷲ تعالیٰ ہمارے رزق میں کشادگی اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء ﷲ، جو ہر شخص کی خواہش ہے۔

استغفار و توبہ 
ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں حضرت نوح علیہ السلام کے متعلق فرماتا ہے کہ انہوں نے اپنی قوم سے کہا، مفہوم: ’’پس میں نے کہا: اپنے پروردگار سے گناہوں کی معافی طلب کرو۔ بے شک! وہ بڑا بخشنے والا ہے۔ آسمان سے تم پر موسلادھار بارش برسائے گا، اور تمہارے مالوں اور اولاد میں اضافہ کرے گا، اور تمہارے لیے باغ اور نہریں بنائے گا۔‘‘ (سورۂ نوح) مفسرین لکھتے ہیں کہ سورۂ نوح کی ان آیات اور سورۂ ہود کی آیات میں اس بات کی دلیل ہے کہ گناہوں کی معافی مانگنے سے رزق میں وسعت اور برکت ہوتی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ’’جس نے کثرت سے ﷲ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی، ﷲ تعالیٰ اس کو ہر غم سے نجات دیں گے، ہر مشکل سے نکال دیں گے اور اس کو وہاں سے رزق مہیا فرمائیں گے جہاں سے اس کا وہم و گمان بھی نہ ہو گا۔‘‘ (مسند احمد، ابوداؤد، نسائی، ابن ماجہ، مسند حاکم)

تقوی 
ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے، مفہوم : ’’اور جو کوئی ﷲ تعالیٰ سے ڈرتا ہے وہ اس کے لیے (ہر مشکل سے) نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور اس کو وہاں سے روزی دیتا ہے جہاں سے اس کو گمان بھی نہیں ہوتا۔‘‘ (سورۂ الطلاق)

ﷲ تعالی پر کامل توکل 
توکل (بھروسا) کے معنی امام غزالیؒ نے یوں لکھے ہیں: ’’توکل یہ ہے کہ دل کا اعتماد صرف اسی پر ہو جس پر توکل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہو۔‘‘ (احیاء العلوم) ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے، مفہوم : ’’اور جو کوئی ﷲ تعالیٰ پر بھروسا رکھے، وہ اس کو کافی ہے۔‘‘ (سورۂ الطلاق) رسول ﷲ ﷺ نے فرمایا، مفہوم : ’’اگر تم ﷲ تعالیٰ پر اسی طرح بھروسا کرو جیسا کہ اس پر بھروسا کرنے کا حق ہے تو تمہیں اس طرح رزق دیا جائے جس طرح پرندوں کو رزق دیا جاتا ہے۔ وہ صبح خالی پیٹ نکلتے ہیں اور شام کو پیٹ بھر کر واپس پلٹتے ہیں۔‘‘ (مسند احمد، ترمذی، ابن ماجہ) یاد رکھیں! حصولِ رزق کے لیے کوشش اور محنت کرنا توکل کے خلاف نہیں ہے، جیسا کہ مذکورہ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ پرندوں کو بھی حصول رزق کے لیے گھونسلے سے نکلنا پڑتا ہے۔

عبادت 
اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ہم دن رات مسجد میں بیٹھے رہیں اور حصول رزق کے لیے کوئی کوشش نہ کریں بلکہ ﷲ تعالیٰ کے احکامات کو بجا لاتے ہوئے زندگی گزاریں۔ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’بے شک! ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کے بیٹے! میری عبادت کے لیے اپنے آپ کو فارغ کر، میں تیرے سینے کو تونگری سے بھر دوں گا، اور لوگوں سے تجھے بے نیاز کردوں گا۔‘‘
(ترمذی، ابن ماجہ، مسند احمد)

حج اور عمرے 
رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم:
’’پے در پے حج اور عمرے کیا کرو۔ بے شک! یہ دونوں (حج اور عمرہ) فقر (یعنی غریبی اور گناہوں) کو اس طرح دور کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کر دیتی ہے۔‘‘ ( ترمذی، نسائی)

صلۂ رحمی 
رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’جو شخص اپنے رزق میں کشادگی چاہے، اسے چاہیے کہ وہ صلۂ رحمی کرے۔‘‘ (بخاری) صلۂ رحمی سے رزق میں وسعت اور کشادگی ہوتی ہے۔ اس موضوع سے متعلق حدیث کی تقریباً ہر مشہور و معروف کتاب میں مختلف الفاظ کے ساتھ نبی اکرم ﷺ کے ارشادات موجود ہیں۔

انفاق فی سبیل ﷲ 
ﷲ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے، مفہوم: ’’اور تم لوگ (ﷲ کی راہ میں) جو خرچ کرو، وہ اس کا بدلہ دے گا، اور وہ بہترین رزق دینے والا ہے۔‘‘ (سورۂ سبا) احادیث کی روشنی میں علمائے کرام نے فرمایا ہے کہ ﷲ کی راہ میں خرچ کرنے کا بدلہ دنیا اور آخرت دونوں جہان میں ملے گا۔ دنیا میں بدلہ مختلف شکلوں میں ملے گا، جس میں ایک شکل رزق کی کشادگی ہے۔ رسول ﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: ’’ﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے آدم کی اولاد! تو خرچ کر، میں تجھ پر خرچ کروں گا۔‘‘ (مسلم) عزیز بھائیو! جس طرح حصولِ رزق کے لیے ہم اپنی ملازمت، کاروبار اور تعلیم و تعلم میں جدوجہد اور کوشش کرتے ہیں، جان و مال اور وقت کی قربانیاں دیتے ہیں۔ اسی طرح قرآن و حدیث کی روشنی میں ذکر کیے گئے اِن اسباب کو بھی اختیار کر لیں تو ﷲ تبارک و تعالیٰ ہماری روزی میں وسعت اور برکت عطا فرمائے گا، ان شاء ﷲ۔

ﷲ تعالیٰ ہمیں اخروی زندگی کو سامنے رکھ کر یہ دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے۔ آمین

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی  

غیبت کبیرہ گناہ اور سنگین جرم

اللہ تعالیٰ نے نبی کریم ﷺ کو اطاعت و فرمانبرداری کرنے والوں کے لئے خوشخبری و بشارت سنانے والا اور نافرمانوں کو ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نافرمانی وگناہ ہمارے معاشرے اور گفتگو میں بہت پھیلا ہوا ہے اور ہمارا اس کی طرف دھیان بھی نہیں جاتا، وہ گناہ اور بدی، غیبت ہے جس میں مسلمان کی بے عزتی کی جاتی اور دل و دماغ میں بدگمانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ غیبت کی تعریف یہ ہے’’ کسی مسلمان کی پیٹھ پیچھے اس کی وہ بات کرنا کہ اگر وہی بات اس کے سامنے کی جائے تو اس کو ناگوار ہو اور بری لگے ۔‘‘ یہ اس وقت ہے جبکہ وہ برائی اس کے اندر ہو اور اگر نہ ہو تو پھر وہ بہتان ہو جاتا ہے اور یہ دوہرا گناہ ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت کو اپنے مردار بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے غیبت کو بدترین سود اور زنا سے سخت گناہ بتایا ہے اور ایک حدیث میں ’’اپنی ماں سے بدکاری سے بھی بدتر بیان کیا ہے اور ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے معراج کی رات میں غیبت کرنے والوں اور مسلمانوں کی آبروریزی کرنے والوں کو دیکھا کہ وہ ناخنوں سے اپنے چہرے کا گوشت نوچ رہے ہیں۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنی پناہ میں رکھیں اور اس گناہ کی نفرت عطاء فرمائیں۔ غیبت میں امیر وغریب ، مزدور وملازم ، مرد وعورت وغیرہ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ غیبت جس طرح زبان سے ہوتی ہے اسی طرح ہاتھ ، آنکھ کے اشاروں سے بھی ہوتی ہے۔ گناہ اللہ کی نافرمانی کے ساتھ بندہ کی بھی حق تلفی ہے۔ ہم لوگ تھوڑی توجہ کر لیں اپنے ملازمین، گھروں میں کام کرنے والوں کی کوتاہی پر برا بھلا کہنے کی بجائے دعائیہ جملے کہہ دیں تو ہمارا بھلا ہو گا اور ان کو بھی دعا کے اثرات سے فائدہ ہو گا ۔ مثلاً ’’اللہ تمہیں ہدایت دیں، اللہ تجھے نیک بخت کرے، اللہ تجھے جنت میں لے کر جائے، اللہ تمہیں نیک سمجھ دیں ۔‘‘ نبی کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ نے رحمۃ اللعالمینؐ بنایا ہے تو آپ ؐ نے اس سے بچنے اور جو ہو گیا اس کے برے انجام سے نجات پانے کا طریقہ بھی سکھا دیا ہے۔ اللہ جل شانہُ فرماتے ہیں ’’ اے ایمان والو! بہت سی بدگمانیوں سے بچو یقین مانو کہ بعض بدگمانیا ں گناہ ہیں (۱) اور بھید نہ ٹٹولا کرو (۲) اور نہ تم کسی کی غیبت کرو (۳) کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟ تم کو اس سے گھن آئے گی (۴) اور اللہ سے ڈرتے رہو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘

( سورۃ الحجرات، آیت نمبر 12) اسی طرح قرآن پاک میں ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے کہ ’’بڑی خرابی ہے ایسے شخص کی جو غیبت ٹٹولنے والا، غیبت کرنے والا ہو‘‘ ( سورہ الھمزہ، آیت نمبر 1) یہاں بہت واضح ہے کہ اللہ تعالی نے غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے اور غیبت کرنے کو اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے سے تشبیہہ دی ہے۔ غیبت اورغیبت کرنے والے کو رسول کریمؐ نے بھی سخت ناپسند فرمایا ہے۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ ’’حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ایک دن صحابہ کرام ؓ سے فرمایا کہ کیا تم جانتے ہو غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا اللہ اور اللہ کا رسولؐ ہی زیادہ جانتے ہیں۔آنحضرتﷺ نے فرمایا غیبت یہ ہے کہ تم اپنے مسلمان بھائی کا ذکر اس طرح کرو کہ جس کو اگر وہ سن لے تو اسے نا پسند کرے، بعض صحابہ کرام ؓ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ یہ بتائیے کہ اگر میرے اس بھائی میں جس کا میں نے برائی کے ساتھ ذکر کیا ہے وہ عیب موجود ہو جو میں نے بیان کیا ہے تو کیا تب بھی غیبت ہو گی یعنی میں نے ایک شخص کے بارے میں اس کی پیٹھ پیچھے یہ ذکر کیا کہ اس میں فلاں برائی ہے جب کہ اس میں واقعتاً وہ برائی موجود ہو اور میں نے جو کچھ کہا ہے وہ سچ ہو، تو ظاہر ہے کہ اگر وہ شخص اپنے بارے میں میرے اس طرح ذکر کرنے کو سنے گا تو خوش نہیں ہو گا تو کیا میرا اس کی طرف سے کسی برائی کو منسوب کرنا جودرحقیقت اس میں ہے غیبت کہلائے گا؟

آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تم نے اس کی جس برائی کا ذکر کیا ہے اگر وہ واقعی اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ برائی موجود نہیں ہے جس کا تم نے ذکر کیا ہے تو تم نے اس پر بہتان لگایا، یعنی یہی تو غیبت ہے کہ تم کسی کا کوئی عیب اس کی پیٹھ پیچھے بالکل سچ بیان کرو، اگر تم اس کے عیب کو بیان کرنے میں سچے نہیں ہو کہ تم نے اس کی طرف جس عیب کی نسبت کی ہے وہ اس میں موجود نہیں ہے تو یہ افتراء اور بہتان ہے جو بذات خود بہت بڑا گناہ ہے‘‘ ( مشکوٰۃ شریف، جلد نمبر چہارم ، حدیث نمبر 766) اس حدیث میں غیبت کے حوالہ سے بہت زیادہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا گیا کہ اگر کسی شخص میں کوئی برائی موجو د بھی ہے تو اس کی پیٹھ پیچھے یا دوسروں کے سامنے اس برائی کے بیان سے مکمل گریز کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ نے غیبت سے بچنے کا حکم دیا ہے اور اس سے نفرت دلائی ہے، معراج کے سفر کے دوران حضور اکرم ﷺ کو جنت و دوزخ کے مشاہدہ کے ساتھ مختلف گناہگاروں کے احوال بھی دکھائے گئے، جن میں سے ایک گناہگار کے احوال پیش کئے جاتے ہیں تاکہ اس گناہ (غیبت) سے ہم خود بھی بچیں اور دوسروں کو بھی بچنے کی ترغیب دیں۔ 

حضرت انس ؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس رات مجھے معراج کرائی گئی۔ میں ایسے لوگوں پر سے گزرا جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو چھیل رہے تھے ۔ میں نے جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کیا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کے گوشت کھاتے ہیں (یعنی ان کی غیبت کرتے ہیں) اور ان کی بے آبروئی کرنے میں پڑے رہتے ہیں۔‘‘ (ابوداود) حضرت جبرائیل ؑ کے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ لوگ لوگوں کی عزت وآبرو کے درپے رہتے، ان کی برائی کرتے اور لوگوں کے لئے نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہیں اور یہ ہی ان کی سزا ہے کہ وہ اپنے آپ کو ایسے ہی اپنے ہاتھوں سے نوچتے رہیں گے۔ اگر کوئی کسی شخص کی برائی کر رہا ہو، جو موجود نہ ہو اور کوئی کہہ دے کہ یہ بری بات ہے۔ تو جواب ملتا ہے کہ فلاں میں یہ برائی ہے، ہم جھوٹ تھوڑی بول رہے ہیں۔ بے شک آپ جھوٹ نہیں بول رہے، ہے تو برائی۔ اسی کو تو غیبت کہتے ہیں۔ اگر وہ بات کرو گے، جو اس شخص میں موجود نہ ہو گی وہ تہمت کہلائے گی۔ 

غیبت جس قدر بری بیماری ہے۔ اسی قدر ہمارے معاشرے میں عام ہے۔ یاد رہے انسان کی غیبت کرنا اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’بدکاری کرنے والا توبہ کر لیتا ہے مگر غیبت کرنے والا توبہ نہیں کرتا‘‘۔ (شعب الایمان للبیہقی) غیبت کرنے والا دنیا میں بھی ذلیل و رسوا ہوتا ہے تو اس کی آخرت بھی خراب ہوتی ہے۔ موجودہ معاشرہ میں حالات یہ ہیں کہ ہم غیبت کو برائی ہی تسلیم نہیں کرتے اور ایک دوسرے کی برائیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کا بیان فیشن کے طور پر کیا جاتا ہے، اور دفتری زبان میں اسے ’لابنگ‘ کا نام دیا جاتا ہے جب کہ یہ کسی بھی طرح درست نہیں، بدقسمتی سے آج ہم علم نہ ہونے کی وجہ سے ایسی باتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں جو غیبت کے زمرے میں آتی ہیں، ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی ہر بات جس سے کسی کی برائی واضح ہوتی ہو، چاہے اس کا تعلق اس کے لباس ، جسم ، اس کے فعل یا قول کے متعلق ہو ، مثال کے طور پر جسم کے بارے میں کہا جائے کہ اس کا قد بہت لمبا ہے یا اس کا رنگ کالا (سیاہ) ہے یا پھر وہ بھینگا ہے۔

اسی طرح اگر کسی کے بارے میں غلط بیانی کی یا اخلاق کے بارے میں کہا جائے کہ وہ بری عادات والا ہے ، یا مغرور ، بد تمیز اور بزدل ہے ، یا افعال کے بارے میں ہو کہ وہ چور ، خائن، بے ایمان، بے نمازی ہے، نماز میں ارکان کو سکون سے ادا نہیں کرتا ، قرآن پاک غلط پڑھتا ہے یا کہے کہ اپنے کپڑوں کو نجاست سے پاک نہیں رکھتا یا زکوٰۃ ادا نہیں کرتا یا حرام مال کھاتا ہے ، زبان دراز ہے، بہت پیٹو ہے۔ سوتا بہت ہے، اس طرح لباس کے بارے میں کہا جائے کہ کھلی آستین والا کپڑا پہنتا ہے، دراز دامن یا میلا کچیلا لباس پہنتا ہے ، یہ سب باتیں غیبت کے زمرے میں آتی ہیں، یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ غیبت کرنا گناہ کبیرہ تو ہے ہی، غیبت سننا بھی گناہ کبیرہ ہے ، لہٰذا کوئی بھی شخص غیبت کر رہا ہو تو ہمیں اس کو روکنا چاہیے۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’جو اپنے مسلمان بھائیوں کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے (مسند امام احمد) متذکرہ بالا آیات قرانی اور احادیث کی روشنی میں غیبت کا گناہ کبیرہ ہونا اور غیبت گو کے عذاب بارے مفصل انداز میں بیان کیا گیا ہے جب کہ آج ہم غیبت کو تو کوئی برائی یا گناہ سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ، ہمیں چاہئے کہ نہ صرف خود غیبت کرنے سے گریز اور پرہیز کریں بلکہ دوسرں کو بھی اس کی تلقین کریں ۔

اللہ تعالیٰ اس کوشش کو قبولیت و مقبولیت عطا فرما کر تمام گناہوں کی نفرت اور اپنی فرمانبرداری کی رغبت ومحبت ہم سب کو نصیب فرمائیں ۔ ہمارے معاشرہ کو پاکیزہ بنا دیں۔ ہمارے قلوب میں محبتیں ، جوڑ پیدا فرما دیں۔ اللہ جل شانہُ ہمیں غیبت کرنے و سننے سے بچائے اور نیک اعمال کر نے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین

مولانا قاری محمد سلمان عثمانی