الوداع ! اے نیکیوں کے موسم بہار

مہینوں کا سردار رمضان المبارک ہم پر سایہ فگن ہونے کے بعد اب رخصت ہونے کو آیا ہے۔ یہ مبارک مہینہ چند دنوں بعد ہم سے رُوپوش ہو جائے گا۔ سحری کے پُرنور لمحات اور افطاری کی بابرکت ساعات اب ہمیں الوداع کہہ رہی ہیں۔ تراویح جیسی عظیم عبادت ہم سے جدا ہونے کو ہے۔ ایسا مبارک مہینہ ہم سے پردے میں چھپنے والا ہے جس میں روزانہ کئی گناہ گاروں کو بخش دیا جاتا تھا۔ جن مسلمانوں نے اس کی عظیم المرتبت قدر کو پہچانا، وہ اپنے دامن میں کثیر رحمتیں اور برکتیں سمیٹنے میں کام یاب ہو گئے اور اپنے لیے بخشش کا پروانہ لکھوا لیا۔ انہوں نے اپنی روح کو آلودگی سے پاک کر لیا۔ لیکن جو اس کی قدر و منزلت کو نہیں پہچان سکے اور اس مہینے کو عام مہینوں کی طرح گزارا وہ خیر کثیر سے محروم رہے۔ حالاں کہ رمضان المبارک کا مہینہ ہمارے دلوں کو کدورتوں سے پاک کرنے آیا تھا۔ نفسانی خواہشات کی نجاست سے پاک کرنے آیا تھا۔ ہماری آلودہ روح کو شفاف کرنے آیا تھا۔

یہ مبارک مہینہ ہمارے گناہوں کو نیکیوں میں بدلنے آیا تھا۔ یہ مہینہ ہمیں عبادت کی لذت دینے آیا تھا۔ ایمان کی حلاوت سے سرفراز کرنے آیا تھا۔ جسمانی نظام درست کرنے آیا تھا۔ ہمارے ذہنی انتشار کو یکسوئی دینے آیا تھا۔ ہمارے خیالات کی پراگندگی کو صاف کرنے آیا تھا۔ تقویٰ کے نُور سے منور کرنے آیا تھا۔ پرہیز گاری کی دولت سے مالا مال کرنے آیا تھا۔ روحانی انقلاب برپا کرنے آیا تھا۔ مجاہدانہ زندگی کا خُوگر بنانے آیا تھا۔ لیکن ہماری بے پرواہی نے ہمیں اس بابرکت مہینے کے فضائل و برکات سے محروم رکھا۔ ہم اس مہینے کے کماحقہ حق ادا نہ کر سکے۔ زمانۂ رسالت ﷺ میں جوں جوں ماہِ رمضان کے ایام گزرتے جاتے، صحابہ کرامؓ کی عبادات میں ذوق شوق بڑھتا جاتا۔ جیسے ہی ماہِ رمضان کی آخری راتیں آتیں تو صحابہ کرامؓ رب کی بارگاہ میں آنسو بہا کر گڑگڑا تے ہوئے ان مبارک راتوں کو گزارتے۔ رسول اﷲ ﷺ کی تعلیم بھی یہی اور آپؐ کا عمل مبارک بھی یہی تھا۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب ماہِ رمضان کا آخری عشرہ آتا تو رسول اﷲ ﷺ کی عبادت میں اضافہ ہو جاتا تو آپ خود بھی ان راتوں میں جاگتے اور اہل و عیال کو بھی جگاتے۔

لیکن بد قسمتی سے ہمارا معاشرہ رمضان المبارک کے آخری ایام رجوع الی اﷲ میں مصروف رہنے کے بہ جائے شاہراہوں اور بازاروں میں گزار دیتا ہے۔ لوگ نوافل تو کجا فرائض کی پابندی بھی نہیں کرتے۔ گویا ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ماہِ رمضان المبارک عبادت کا مہینہ نہیں بلکہ شاپنگ اور خرید و فروخت کا مہینہ ہے۔ ہمارے معاشرے نے رمضان المبارک کے پُرنور لمحات کو خوشی و مسرت اور عید و تہوار کا سیزن بنا دیا ہے۔ حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: ’’رمضان کا مہینہ قلبی صفائی کا مہینہ ہے، ذاکرین، صادقین اور صابرین کا مہینہ ہے۔ اگر یہ مہینہ تمہارے دل کی اصلاح کرنے اور تمہیں اﷲ تعالیٰ کی نافرمانی سے نکالنے اور جرائم پیشہ لوگوں سے علیحدہ ہونے میں مؤثر نہیں ہوا تو کون سی چیز تمہارے دل پر اثر انداز ہو گی، سو تم سے کس نیکی کی امید کی جاسکتی ہے۔ تمہارے اندر کیا باقی رہ گیا ہے۔ تمہارے لیے کس نجات کا انتظار کیا جاسکتا ہے۔ نیند اور غفلت سے بیدار ہوکر باقی مہینہ تو توبہ اور ﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کے ساتھ گزارو۔ اس میں استغفار اور عبادت کے ساتھ نفع حاصل کرنا ممکن نہیں ہے تو ان لوگوں میں سے ہوجاؤ جن کو ﷲ تعالیٰ کی رحمت اور مہربانی حاصل ہوتی ہے۔

آنسوؤں کے دریا بہا کر اپنے منحوس نفس پر اونچی آواز سے اور آہ زاری کے ساتھ روتے ہوئے اس مہینے کو الوداع کہو کیوں کہ کتنے ہی روزے دار ایسے ہیں جو آئندہ سال روزے نہیں رکھ سکیں گے۔ اور کتنے ہی عبادت گزار ایسے ہیں جو آئندہ عبادت نہیں کر سکیں گے۔ اور مزدور جب کام سے فارغ ہوتا ہے تو اس کو مزدوری دی جاتی ہے اب ہم بھی اس عمل سے فارغ ہو چکے ہیں۔ مگر کاش کہ ہم بھی جان سکتے کہ ہمارے روزے اور قیام مقبول ہوئے ہیں یا نہیں، کاش ہم جان سکتے کہ ہم میں سے کون مقبول ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بہت سے روزہ داروں کو بھوک اور پیاس کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہوتا اور راتوں کو قیام کرنے میں ان کو صرف بے خوابی ہی حاصل ہوتی ہے۔ اے رمضان کے مہینے تجھ پر سلام۔ اے بخشش کے مہینے تجھ پر سلام۔ اے ایمان کے مہینے تجھ پر سلام۔ (اے ماہِ رمضان) تو گناہ گاروں کے لیے قید اور پرہیز گاروں کے لیے اُنس کا مہینہ تھا۔ اے اﷲ! ہمیں ان لوگوں میں کر دے جن کے روزوں اور نمازوں کو تُونے قبول کیا، ان کی برائیوں کو نیکیوں میں بدلا، انہیں اپنی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل فرمایا اور ان کے درجات بلند کیے۔ آمین۔‘‘
(غنیۃ الطالبین)

خواب غفلت سے بیدار ہوکر اس مہینے کے آخری ایام کو رجوع الی ﷲ میں گزارنے کا وقت ہے۔ نہ جا نے آئندہ سال کون اس مہینے کو پاسکے گا اور کون اس کے سایہ فگن ہونے سے پہلے ہی منوں مٹی تلے خاک میں دبا دیا جائے گا۔ ﷲ تعالی ہم سب کو رمضان المبارک کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اس ماہ کو ہمارے لیے رحمت، مغفرت اور دوزخ سے رہائی کا مہینہ بنا دے، ہمارے دلوں کو تقویٰ کے نُور سے منور فرما دے۔ آمین

محمد ریاض علیمی

روزہ دماغ سمیت جسم کے لیے بہترین ورزش ہے : ہاشم آملہ

جنوبی افریقہ کے اوپننگ بلے باز ہاشم آملہ کا کہنا ہے کہ روزہ دماغ سمیت جسم کے لیے بہترین ورزش ہے۔ غیر ملکی خبر رساں ادارے کو انٹرویو کے دوران ان کا کہنا تھا کہ پورے سال کے دوران رمضان المبارک کا انتظار کرتا ہوں اور یہ میرے لیے سال کا بہترین مہینہ ہے۔ جب ہم کرکٹ کھیل رہے ہوتے ہیں، اس دوران ہمیں بھوک اور پیاس کی شدت محسوس ہوتی ہے لیکن میں روزے کے دوران کھیل کر خوشی محسوس کرتا ہوں اور یہ دماغ کیساتھ روحانی ورزش میں بھی کردار ادا کرتی ہے۔ یاد رہے کہ 2012ء کے دوران باریش بیٹسمین نے انگلینڈ کے خلاف ٹیسٹ میچ کے دوران روزے کی حالت میں 311 رنز کی اننگز کھیلی تھی۔ اوول میں کھیلی جانے والی اننگز ٹیسٹ میں ان کی بہترین اننگز ہے۔

 

دنیا بھر میں کون کتنا طویل روزہ رکھے گا ؟

رمضان اسلامی کیلنڈر میں ترتیب کے اعتبار سے نواں لیکن اہمیت کے لحاظ سے اہم ترین مہینہ ہے۔ دنیا کے مختلف خطوں میں مسلمان رمضان کا استقبال مختلف روایات اور طریقوں سے کرتے ہیں۔ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ماہِ رمضان کا آغاز ہو گیا ہے اور اس سال روزے کا دورانیہ دنیا کے مختلف علاقوں میں 11 سے 21 گھنٹے کے درمیان رہے گا۔

طویل ترین روزہ
روس کے شہر مرمنسک میں آباد مسلمان 20 گھنٹے 45 منٹ کے بعد سب سے طویل دورانیے کا روزہ افطار کریں گے۔ سوئیڈن میں روزہ 19 گھنٹے 43 منٹ اور آئس لینڈ میں 19 گھنٹے 26 منٹ طویل ہو گا۔

سب سے مختصر دورانیے کا روزہ
دنیا میں سب سے کم دورانیے کا روزہ جنوبی امریکہ کے ملک ارجنٹائن میں 11 گھنٹے کا ہو گا۔ برازیل میں روزے کا دورانیہ 12 گھنٹے 28 منٹ جب کہ چلی میں 12 گھنٹے 4 منٹ ہو گا۔

15 سے 18 گھنٹے والے ممالک
امریکہ میں روزے کا دورانیہ 15 گھنٹے 38 منٹ، کینیڈا میں 15 گھنٹے 58 منٹ، اٹلی میں 15 گھنٹے 55 منٹ، یونان میں 15 گھنٹے 48 منٹ، جرمنی میں 17 گھنٹے 54 منٹ، برطانیہ میں 17 گھنٹے 51 منٹ اور ناروے میں 18 گھنٹے 43 منٹ ہو گا۔

اسی طرح مشرق وسطیٰ میں آباد مسلمان 14 گھنٹے سے زائد دورانیے کا روزہ رکھیں گے۔ دبئی میں 14 گھنٹے 39 منٹ، سعودی عرب میں 14 گھنٹے 37 منٹ، عمان میں 14 گھنٹے 33 منٹ اور یمن میں 14 گھنٹے 5 منٹ کا دورانیہ ہو گا۔
پاکستان میں روزے کا دورانیہ 15 گھنٹے 14 منٹ ہو گا۔ اسی طرح بھارت میں روزہ 14 گھنٹے 09 منٹ اور ایران میں 15 گھنٹے 26 منٹ طویل ہو گا۔

برج خلیفہ میں مقیم افراد کے لیے روزے کا دورانیہ
دنیا کی طویل ترین عمارت برج خلیفہ دبئی میں واقع ہے۔ 160 منزلہ اس عمارت میں مقیم افراد کے لیے اونچائی کے اعتبار سے سحر و افطار کے مختلف اوقات ہوں گے۔ 81 سے 150 ویں منزل والے مکین اذانِ مغرب کے دو منٹ بعد افطار کر سکیں گے۔ 150 ویں منزل سے 160 ویں منزل کے مکین اذان کے تین منٹ بعد روزہ افطار کریں گے جب کہ فجر کی اذان سے 3 منٹ قبل سحری بند کر دیں گے۔ جہاں تک برج کی 80 ویں منزل کے مکینوں کا تعلق ہے تو وہ دبئی کے دیگر باشندوں کی طرح مغرب کی اذان ہوتے ہی افطار اور فجر کی اذان ہوتے ہی سحری ختم کرنے کے پابند ہوں گے۔

رمضان کا بھرپور فائدہ کیسے اٹھائیں؟

رمضان روحانی عبادت کے ساتھ جسمانی مشقت بھی ہے کیونکہ سونے، جاگنے، کھانے، پینے اور کام وغیرہ کی سب روٹین بدل جاتی ہے اور یوں اچانک روز مرہ امور کی روٹین بدلنے سے اکثر مسلمان بہت سے جسمانی و ذہنی مشکلات کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان مشکلات سے بچنے اور رمضان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کے لیے منظم کوشش اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔ سب سے مفید عمل تو یہ ہے کہ رمضان کی آمد سے پہلے ہی جسمانی طور خود کو تیار کیا جائے، جیسے صرف صحت مند غذا کا استعمال، ضروری نیند کو یقینی بنانا اور ورزش کا باقاعدہ اہتمام کرنا ہے ۔

پانی کے علاوہ پھل اور سبزیوں کا بھی زیادہ استعمال پہلے سے شروع کر دینا چاہیے، پھر رمضان سے قبل نفلی روزے رکھنے اور نماز فجر سے کچھ جلدی اٹھ کر قرآن کی تلاوت کرنے کی عادت اپنانے سے بھی رمضان بہتر انداز میں گزارنے میں مدد حاصل ہوتی ہے ۔ خیر اب جبکہ رمضان باضابطہ طور پر شروع ہو چکا، تو آئیے رمضان کو بہتر بنانے کے چند طریقے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
رمضان المبارک میں اپنے آرام، بالخصوص نیند کا بہت خیال رکھیں کیونکہ عام طور پر اس میں بہت زیادہ بے احتیاطی ہوتی ہے۔ بلاشبہ رات گئے تراویح سے لوٹنے کے بعد سحری میں جلد اٹھنے کی وجہ سے رات کی نیند کا وقت کم ملتا ہے، اس لیے اگر ممکن ہو تو رات کو تراویح کے بعد سحر تک جاگنے کو معمول بنائیں۔ اس دوران قرآن مجید یا دیگر کتب کا مطالعہ کریں۔

نیند کیسے پوری کریں؟

رمضان میں خاص طور پر موسم گرما میں راتیں چھوٹی ہونے کی وجہ سے نیند بہت متاثر ہوتی ہے اور شاید گرمی سے بھی زیادہ آپ کی صحت پر منفی اثرات ڈال سکتی ہے۔ اس لیے جب بھی موقع ملے نیند پوری کریں۔ خواہ مختصر وقت ہی میں سہی، لیکن نیند لے لی جائے تو آپ تازہ دم ہو سکتے ہیں۔ اس سے دیگر امور بھی بہتر انداز میں انجام دئیے جا سکیں گے۔ رمضان میں اپنے پورے دن کو مصروف رکھنے کی کوشش کریں اور فارغ بیٹھ کر ہرگز وقت ضائع نہ کریں۔ خاص طور پر انٹر نیٹ اور ایسی خرافات سے دور رہیں۔ افطار سے قبل اور سحری میں بھی اپنے خاندان اور بچوں کے ساتھ مثبت گفتگو میں حصہ لیں تاکہ ان میں رمضان کی قدر و اہمیت پیدا ہو۔

سخاوت اپنائیں ، روزے کا ایک مقصد دل کو نرم کرنا اور غریبوں کا احساس کرنا ہے۔ اس لیے سخاوت اور کشادہ دِلی اس مہینے کا ایک اہم تصور ہے۔ یہاں جتنا بھی ہو سکے ضرور آگے بڑھیں۔ کسی غریب، ضرورت مند کو کھانا کھلانا، اس کے لیے اشیائے ضرورت کا اہتمام یا عید کی تیاری میں حصہ ڈالنا تو سخاوت ہے اور یقینا یہ بہترین عمل ہے، مگر مالی لحاظ سے مدد کے لیے کچھ نہ بھی ہو تو اپنا قیمت وقت بانٹیں ۔ کسی کے ساتھ مسکرانا، کس تنہا بزرگ یا شخص کے ساتھ وقت گزارنا یا کسی بیمار کی تیمار داری بھی اسی میں شمار ہو گی۔

بہت سے افراد کو روزوں سے استثنا حاصل ہے، مثلاً مسافر، بزرگ، بیمار، حاملہ خواتین وغیرہ۔ اگر کوئی ان کے زمرے میں بھی آتا ہے تو اس مہینے تزکیہ نفس کے لیے روزے کے متبادل طریقے تلاش کرے۔ جیسا کہ تلاوت قرآن مجید، خیرات و صدقات، رضاکارانہ خدمات وغیرہ، جو بآسانی انجام دے سکے ۔ پانی کی کمی ، رمضان المبارک میں طویل روزے ہونے کے باوجود سحر سے افطار تک بھوک تو برداشت ہو جاتی ہے، لیکن پیاس کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ ان گرم دنوں میں روزہ رکھنے کے لیے پانی کا کافی استعمال نہ کرنے کی صورت میں پانی کی کمی واقع ہو سکتی ہے اور بیمار ہونے کا خدشہ موجود رہتا ہے۔ اس لیے سحری میں پانی کافی استعمال کریں اور افطار کے بعد بھی پانی میں کمی نہ آنے دیں۔

تعلقات میں اضافہ ، رمضان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے خاندان، دوست احباب اور محلے داروں سے باہم روابط کو مزید مستحکم کریں۔ چاہے ایک ساتھ نماز و تراویح کا اہتمام ہوں یا دعوت افطار۔ اگر آپ کے لیے اکیلے اجتماعی دعوت افطار کا بندوبست کرنا مشکل ہو، تو باہمی اشتراک سے ایک دعوت کریں۔ اپنے حلقہ احباب اور آس پڑوس کے افراد میں اخوت و محبت کا جذبہ پروان چڑھانے میں آپ کا یہ قدم بہت مددگار ثابت ہو گا۔ افطار میں احتیاط طویل اور گرم دنوں کا روزہ ہو تو پورا دن بھوکا پیاسا رہنے کے بعد افطار کے وقت زیادہ کھانے کی طرف دل راغب ہو گا، لیکن یک دم بہت کچھ کھا پی لینا آپ کی صحت کے لیے نقصان دہ ہے، اس لیے افطار آہستہ آہستہ اور ترتیب سے کریں۔

کجھور سے روزہ کھولنے کے بعد پانی، جوس، دودھ یا کسی مشروب کا استعمال کریں۔ افطار میں ہلکا پھلکا کھائیں اور کھانے کو رات کے لیے موخر کر دیں۔ اس سے آپ کے ہاضمے کے نظام پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ قرب الٰہی رمضان کا اصل مقصد عبادت ہے۔ اس لیے اس ماہ مبارک میں زیادہ سے زیادہ انفرادی عبادت کریں۔ رات کے کسی پہر اٹھیں، یہ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا بہترین وقت ہے۔ رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف میں بیٹھنے کا فیصلہ کریں۔ تنہائی میں عبادت کا بہترین ذریعہ اعتکاف ہے۔ لیلۃ القدر کی تلاش ، لیلۃ القدر کی بہت فضیلت ہے اور قرآن مجید میں اسے ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا گیا ہے۔ اس لیے آخری عشرے کی طاق راتوں میں اسے ضرور تلاش کریں۔

ان راتوں میں نوافل ادا کریں، تلاوت قرآن کریں اور دعائیں مانگیں۔ یہ راتیں آپ کے رمضان میں اٹھائے گئے، تجربے کا اہم موڑ ثابت ہو سکتی ہیں۔ رمضان تربیت، باقی سال عملی نفاذ رمضان کے تجربے سے آپ جو کچھ سیکھیں، اسے باقی 11 مہینوں میں اپنی زندگی کا عملی حصہ بنا کر دیکھیں۔ رمضان میں ہماری شخصیت میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آتی ہیں۔ ایک تنظیم اور توازن قائم ہوتا ہے اور بدقسمتی سے ہم عید کے دن ہی اس کو ضائع کر دیتے ہیں۔ اسے کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیں۔ عبادات کے روحانی تعلق سے لے کر صحت و متوازن غذا اور ظم و ضبط کی پابندی جیسے دنیاوی فوائد تک ان کے ثمرات سال بھر حاصل کریں ۔ رمضان ختم ہوتے ہی پرانے طرزعمل پر نہ لوٹیں، پھر اس ماہ مبارک میں اللہ کی ذات سے جو تعلق قائم ہوا ہے، دوست احباب و خاندان کے افراد سے روابط میں جو بہتری قائم ہوئی ہے، غریب لوگوں کی مدد کا جو سلسلہ چلا ہے، اسے اگلے رمضان تک جاری رکھیں۔ اس طرح آپ کو اپنی تمام زندگی میں ایک واضح اور بڑی تبدیلی محسوس ہو گی ۔

بشکریہ دنیا نیوز

ڈنمارک میں پردیسیوں کے طویل ترین روزے

مسلم پرو نامی ایپلیکشن کے مطابق میرے علاقے میں نمازِ عشاء کا وقت رات گیارہ بج کر پچیس منٹ (11:25) ہے، جب کہ نمازِ فجر کا وقت دو بج کر پنتالیس منٹ (2:45) ہے، اب نماز عشاء اور تروایح کے بعد سحری کا وقت کتنا بچتا ہے؟ اِس کا حساب کتاب آپ پر چھوڑے دیتے ہیں۔ سکینڈے نیویا میں آج کل موسمِ گرما چل رہا ہے، یہاں کے لمبے دن اور لمبی راتوں کو چھ ماہ دن اور چھ ماہ رات کی طرح سمجھا جاتا ہے۔ آج کل جو چند گھنٹوں کے لئے سورج غروب ہوتا ہے، اِس کو رات کہا جاتا ہے۔ غروبِ آفتاب کا وقت گزشتہ روز نو بج کر چالیس منٹ (9:40) تھا اور طلوع آفتاب قریباً چار چالیس (4:40) رہا۔ ایسے دنوں اور اِس موسم میں روزے رکھنا کئی طرح سے صبر آزما ہے۔

پردیس میں نماز اور روزے یا دیگر عبادات کا رنگ وطن کے گلی کوچوں سے بہت مختلف ہوتا ہے، کہیں سے اللہ اکبر کی صدا نہیں آتی، کوئی اعلان کی زحمت نہیں کرتا، باہر جاتی ہوئی دھوپ اور ہلکے اندھیروں سے خود ہی اندازے لگانے ہوتے ہیں یا مسلم پرو طرز کی ایپلیکشنز ہی ساتھ دیتی ہیں۔ کام کے ساتھ اِس طویل روزے کو نبھانا اور اِن اوقات کا گزارنا کافی مشکل ہے۔ جیسے اگر آپ کسی دفتر میں کام کرتے ہیں اور صبح آٹھ بجے دفتر جاتے ہیں تو کب سوئیں گے کہ دفتر وقت پر پہنچیں؟ عملی طور پر چھ گھنٹوں کی رات میں افطار اور سحر کو نپٹانا اور کام کے معاملات کو ساتھ ساتھ چلانا خاصا مشکل ہے پھر بھی بہت سے لوگ ماہِ رمضان کی برکتیں سمیٹتے نظر آتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ غالب سے بھی آگے کے مسلمان ہیں جن کے پاس کھانے کو تو سب کچھ ہے مگر پھر بھی روزہ ہی شوق سے کھاتے ہیں۔

سیاسی اور سماجی طرز کی افطاریوں کا بھی خوب اہتمام کیا جاتا ہے۔ اپنے اپنے قبیلوں اور ہم خیال لوگوں کو کسی ہوٹل، ہال یا گھر میں بلا کر لوگ افطاریاں کرتے ہوئے بھی نظر آتے ہیں۔ سکینڈے نیویا میں بعض مقامات ایسے بھی ہیں جہاں عملی طور پر یوں لگتا ہے کہ رات آئی ہی نہیں۔ اِن حالات میں بھی روزے رکھنے والے اِس فرض سے نہیں چوکتے، لیکن اِس قدر طویل روزے کو کیسے نبھایا جائے یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے۔ ایسی جگہیں کہ جہاں روزے اِس قدر طویل ہیں، وہاں سحر و افطار کا فیصلہ کیسے کیا جائے؟

کچھ علماء کا خیال ہے کہ قریب ترین معلوم مقام کے سحر و افطار کے مطابق روزے رکھے جائیں، جبکہ کچھ علماء کا یہ بھی کہنا ہے کہ مکہ مکرمہ میں سحر و افطار کے مطابق بھی روزہ رکھا جا سکتا ہے۔ میرے علم میں کچھ دوست ایسے آئے ہیں جو اِس طرز کے روزے رکھ رہے ہیں یعنی یہاں عصر کا وقت ہوا ہو گا تو وہ سعودی عرب کے وقت کے مطابق افطار کر لیں گے۔ اب ایسے حالات میں کن اطوار پر عمل پیرا ہونا چاہیئے؟ یہ فیصلہ اہل علم و عمل پر چھوڑتے ہیں۔ ہم ایسے لوگ ہیں، جن کو یورپ میں آئے ابھی چھ سات برس ہی ہوئے ہیں جن کی جڑیں ابھی تک اِس زمین میں نہیں لگ پائیں۔ اِن کو ایسی صورت حال میں سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ دو تین عشروں کا عمل ایک طرف اور چند سالوں کا وطیرہ ایک طرف۔ میرے لئے تو روزہ سورج کے اگنے کے ساتھ شروع ہوتا ہے اور سورج غروب ہونے پر ہی افطار ہوتا ہے۔

ابھی آغازِِ رمضان ہے، بے شمار دوست پردیس کی مشکل زندگیوں کے ساتھ ساتھ رمضان کی فرض عبادت کو محبت سے ادا کر رہے ہیں۔ اللہ تعالی اِن سب کے روزے قبول کرے اور اِس محنت کے توسط جس صبر و استقلال کے پھل کے متمنی ہم ہوتے ہیں خدا کرے کہ وہ ہم سب کو نصیب ہو۔ غیرمسلم پوچھتے ہیں کہ اتنی دیر بھوکا پیاسا آدمی کیسے رہ سکتا ہے؟ میں اِن سے کہتا ہوں کہ روزہ ایک جذبے کا نام ہے، پروردگار کے حکم سے اپنی جائز خواہشات پر قابو پالینے کا نام، کسی خواہش سے خود کو روک لینے کا نام، روزہ بھوک اور پیاس سے بڑا ہے۔ اگر یہ بھوک صرف پیٹ کی ہو تو میں کب کا ہار مان جاؤں مگر یہ تو میرے رب کا حکم ہے اور یہی جذبہ مجھے مجبور کرتا ہے کہ خواہ سامنے خوان دھرے ہوں یا میووں کے ڈھیر پڑے ہوں میں اُن کو ہاتھ تک نہ لگاؤں گا۔

رمضان رفیق