عربی زبان کا عالمی دن

عربی زبان اپنے وسیع اور جامع ادبی سرمائے کی وجہ سے دنیا کی چھ بڑی زبانوں میں شمار ہوتی ہے۔ اس کی حیات بخش قوت، رسیلا پن، استعارات کی رنگینی اور گرامر (صرف ونحو) کی جامعیت اسے دنیا کی تمام زبانوں سے ممتاز کرتی ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانوں میں چینی، انگریزی وغيره کے بعد عربی زبان کا پانچواں نمبر ہے۔ عرب دنیا کے تقریبا 40 کروڑ افراد اس کو مادری زبان کے طور پر بولتے ہیں جب کہ دنیا بھر میں 1.7 ارب سے زیادہ مسلمان ثانوی حیثیت سے اس زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ قرآن کریم کی زبان ہونے کے سبب عربی کو خصوصی تقدس حاصل ہے اور دین ِ اسلام میں نماز، ذكر واذكار اور دیگر عبادتیں اس کے بغیر پوری نہیں ہوتی ہیں۔
عربی زبان کا تعلق سامی زبانوں کے قبیلے سے ہے اور اس کے حروفِ تہجیّ کی تعداد 28 ہے۔ عربی زبان کو لُغتُ الضّاد “ض” (ضاد کی زبان) بھی کہا جاتا ہے. اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض ماہرینِ لسانیات کا خیال ہے کہ دنیا کی کسی بھی اور زبان میں اس تلفظ کا حرف نہیں پایا جاتا ہے۔ قُرون ماضی میں اسلام کے پھیلنے اور مسلمان حکمرانوں کی فتوحات نے عربی زبان کو بلند مقام تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کیا۔ عربی زبان دنیا کی کئی زبانوں پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر اثر انداز ہوئی۔ ان زبانوں میں ترک، فارسی، کرد، اردو، ملیشیائی، انڈونیشی اور البانوی کے علاوہ افریقا میں ہاؤسا اور سواحلی جب کہ یورپ میں انگریزی، پرتگالی اور ہسپانوی شامل ہیں۔
حالیہ دور کے فرانسیسی مستشرقین اور محققین کا کہنا ہے کہ یورپی زبانوں کی ڈکشنریوں میں سائنس، طب، فلکیات اور دیگر علوم وفنون سے متعلق عربی کے 2500 سے زیادہ الفاظ موجود ہیں۔ اس وقت یورپ میں عربی زبان بولنے والوں کی تعداد 2 کروڑ سے زیادہ ہے۔ موجودہ ڈیجیٹل دور میں بالخصوص سوشل ویب سائٹس پر عربی زبان کا استعمال تیزی سے فروغ پا رہا ہے۔ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ 10 برسوں کے دوران انٹرنیٹ پر استعمال ہونے والی زبانوں میں عربی زبان نے سب سے زیادہ تیزی سے ترقی کی ہے۔ عربی کو کئى علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کی سرکاری زبان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ان میں عرب لیگ، اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی)، افریقی یونین اور اقوام متحدہ شامل ہیں۔ 18 دسمبر 1973 کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے عربی زبان کو اپنی سرکاری زبانوں میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا۔ 19 فروری 2010 کو اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے انسانی تہذیب اور ثقافتی ورثے کو محفوظ رکھنے میں عربی زبان کے اہم کردار کو تسلیم کرتے ہوئے 18 دسمبر کو اس زبان کا عالمی دن قرار دیا۔ اس پر عمل درامد کرتے ہوئے 18 دسمبر 2012 کو پہلی مرتبہ عربی زبان کا عالمی دن منایا گیا۔
دنیا بھر میں تو عربی زبان کی اہمیت اور مقبولیت میں اضافہ ہو رہا ہے مگر افسوس کی بات ہے کہ اسلام کی بنیاد پر قائم ہونے والی مملکت ِ خداداد پاکستان میں یہ زبان ابھی تک مطلوبہ حیثیت، توجہ اور پذیرائی سے محروم ہے۔ آئین کے مطابق حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عربی زبان کی ترویج واشاعت کی طرف توجہ دے۔ 1973ء کے آئین کے باب دوم کے آرٹیکل نمبر 31 شق 2 میں واضح طور پر ذکر ہے کہ : “ریاست کے فرائض میں یہ داخل ہے کہ ریاست، مسلمانانِ پاکستان کے لیے اسلامیات اور تعلیم قرآن کو لازمی قرار دے، نیز وہ عربی زبان کی تعلیم و تدریس، فروغ اور اشاعت کی حوصلہ افزائی کرے”۔ عربی زبان اپنے اندر وہ تمام خوبیاں رکھتی ہے جو اس عالم گيریت (گلوبلائزیشن) کے دور میں پوری دنیا کی مشترکہ زبان کے طور پر اپنائی جا سکتی ہے … مگر افسوس کہ یہ زبان غیروں کی عداوت اور اپنوں کی غفلت کے سبب اس مقام کو نہیں پا سکی۔ بحیثیت مسلمان عربی زبان کو اس کا حق دلانا ہم سب کی ذمہ داری ہے جس کے لیے ہمیں مل کر کوشش کرنا ہو گی۔
عبدالرحمن صدیقی

Hijama in Islamic Hadith

Hijama in Islamic hadith 
Cupping is mentioned in the Islamic hadith (reported sayings of Muhammad (PBUH):
Narrated Ibn ‘Abbas (R) : (The Prophet (PBUH) said), “Healing is in three things: A gulp of honey, cupping, and branding with fire (cauterizing). But I forbid my followers to use (cauterization) branding with fire.”
Narrated Ibn ‘Abbas (R) : The Prophet (PBUH) was cupped on his head for an ailment he was suffering from while he was in a state of Ihram at a water place called Lahl Jamal. Ibn ‘Abbas further said: Allah’s Messenger was cupped on his head for unilateral headache while he was in a state of Ihram.
It is narrated on the authority of Humaid that Anas b. Malik (R) was asked about the earnings of the cupper. He said: Allah’s Messenger (may peace be upon him) got himself cupped. His cupper was Abu Taiba and he (the Prophet) commanded to give him two sa’s [a unit of measurement] of dates. He (the Holy Prophet) talked with the members of his family and they lightened the burden of Kharaj (tax) from him (i.e. they made remission in the charges of their own accord). He (Allah’s Messenger) said: The best (treatment) which you take is cupping, or it is the best of your treatments.

7 Tips for Understanding the Quran

 1. Always purify your intentions
2. Use a reliable translation if you don’t understand Arabic
3. Never study a verse in isolation from other verses and Hadiths on the topic
4. Prioritize the explanation of the Prophet and his companions
5. Check if there is a reason for revelation and understand its relevance
6. Always clarify Fiqh and Aqeedah verses with a scholar
7. Familiarize yourself with the sciences of the Qur’an (Uloom Al-Qur’an) for a deeper understanding

Enhanced by Zemanta

فیس بک (سوشل نیٹ ورک) کا موثر استعمال

فیس بک (سوشل نیٹ ورک) کا موثر استعمال
پروفیسر عبد المتین                                              Download PDF
    سوشل نیٹ ورک کی اصطلاح اگر چہ بہت عام ہے اور بالخصوص فیس بک کا استعمال روز بروز بڑھتا جا رہا ہے مگر خاص طور پر پاکستان میں رہنے والے احباب کی ایک بڑی تعداد سوشل نیٹ ورک سے ناواقف ہے اور ایک اچھی خاصی تعداد اس کے موثراستعمال سے ناواقف لگتی ہے جس کی وجہ سے وہ سوشل نیٹ ورک پر صرف اپنا اور دوسروں کے وقت کے ضیاع کا باعث ہیں۔ لہٰذا اس تحریر میں ہم اگر چہ پہلے لوگوں کو بھی فوکس کر رہے ہیں مگر خصو صاً ہم فیس بک کے موثر استعمال کے حوالے سے بات کریں گے۔ فیس بک کے ذریعے آپ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے اپنے احباب سے بہت آسانی کے ساتھ تعلقات قائم رکھ سکتے ہیں اور جلد سے جلد تمام احباب کو اپنی تازہ ترین صورتحال سے آگاہ کر سکتے ہیں فیس بک پر لوگوں کاضیاع وقت اوربعد ازاں فیس بک پر ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکوں کے اجراء نے بہت بہت سے لوگوں کو فیس بک کے استعمال سے متنفر کر دیا اور یوں بہت سے مسلمان دنیا کے اس مؤثر ترین ذرائع ابلاغ سے کٹ گئے اب جہاں تک فیس بک کے استعمال سے متعلق شریع مسائل کا تعلق ہے تو اس کے بارے میں رہنمائی شایدآپ کو اسی شمارے کے کسی اور مضمون سے ملے اس مضمون میں ہم اس کے استعمال پہ ہی بات کریں گے۔
فیس بک: ذریعہ ابلاغ:
    فیس بک پرجانے کیلیے ایڈریس یہ ہے۔ (http://www.facebook.com) ایک دفعہ فیس بک پہ اکاؤنٹ بنانے کے بعد آپ اپنا ای میل اور پاس ورڈ دے کر لاگ ان (login )کر سکتے ہیں اور درج ذیل امور سر انجام دے سکتے ہیں:
.1اپنا پروفائل شیئر کرنا۔ عام معلومات دوسروں تک پہنچانا مثلاً نام ، ملک ،تعلیم ،جاب وغیرہ
(Add Friends) .2کے ذریعے اپنے احباب سے رابطہ قائم کرنا
 (Status update ).3 کے ذریعے لوگوں کو اپنے بارے میں آگاہ رکھنا۔ جیسا کہ ” عمرے پرجا رہا ہوں
 (Add Photo/Video).4 کے ذریعے کوئی تصویر یا ویڈیو کلپ دوسروں تک بھیجنا
5۔ ( Like, comment, Share) کے ذریعے كسی کے مواد کو اپنے احباب تک بھیجنا
.6 آپ اپنے احباب کو پرائیوٹ پیغام بھیجنا
.7 چند مخصوص احباب کے لئے خاص موضوع کا مواد شئیر کرنے کیلیے گروپ بنانا
    مزید کچھ کام ایسے ہیں جو آپ وقت کے ساتھ سیکھ لیں گے۔
    اب ہم گفتگو کے دوسرے حصے کی طرف آتے ہیں کہ جو لوگ فیس بک استعمال تو کررہے ہیں مگر یا تو اپنا وقت ضائع کررہے ہیں اور دوسروں کا یا کم از کم یہ سوچتے ہیں کہ یہ صرف ایک تفریح کا ذریعہ ہے اس سے کوئی خاطر خواہ مثبت کام نہیں کیا جا سکتا
وقت کاضیاع:
    اگر آپ طالب علم ہیں یا ملازمت پیشہ ہیں یا کسی بھی ایسے شعبے سے متعلق ہیں جہاں آپ کے پاس وقت محدود ہوتا ہے تو سب سے پہلے اس زیادہ سے زیادہ وقت کا تعین کرلیں جو آپ فیس بک پر گزار سکتے ہیں مثلاً 10 منٹ، آدھ گھنٹہ ،ایک گھنٹہ گھڑی دیکھ کر اس سے زیادہ وقت فیس بک پر نہ لگائیں چاہے کتنا ہی ضروری کیوں نہ لگ رہا ہو کیونکہ آپ کا اصل کام یہ نہیں ہے لہذا زیادہ اہمیت اصل کام کو دیں
    فیس بک پہ اپنے کاموں کی ترجیحات بنائیں اور سب سے پہلے زیادہ ترجیح والے کام کریں جیسا کہ آپ کوئی خاص پیغام یا تصویر یا ویڈیو احباب کو بھیجنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے یہ کام کر لیں آپ نے کسی سے گفتگو کرنے کا پروگرام بنایا ہوا ہے اور وہ شخص بھی موجود ہے تو آپ دور بیٹھے شخص سے مفت میں گفتگو کر سکتے ہیں مگر اس وقت دوسرے اشخاص کے پیغامات کو چھوڑ دیں اور صرف اس شخص سے گفتگو کریں اور گفتگو کو موضوع پہ رکھیں تاکہ مختصر وقت میں کارآمد بات ہو سکے۔
    بہت سی تصاویر اور ویڈیو کلپ تفریح کے لئے ہوتے ہیں جیسا کہ کسی بچے کی فلم جو ماں کے سامنے رونا شروع کردے اور ویسے چپ ہو جائے تو آپ ایسی چیزوں کے لئے وہ مختص وقت ہی استعمال کریں جو آپ ایسی کسی تفریح کو دے سکتے ہیں جیسا کہ چھٹی والے دن ایک گھنٹہ یا روزانہ پانچ سے دس منٹ وغیرہ وغیرہ
    ویڈیو کے عنوان سے بھی پتہ چلتا ہے کہ اسے چلانے کی ضرورت ہے یا نہیں یا ویسے چند سیکنڈز میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور اسکو چھوڑا جا سکتا ہے اگر وہ وقت کا محض ضیاع ہے
بحث سے بچیں:
    فیس بک پر آپ کے صفحے پہ اگر کوئی قابل اعتراض چیز ہو جیسا کہ کوئی ضیعف حدیث ، کوئی جھوٹا قصہ،یا کسی برے آدمی کی تعریف یا کسی اچھے آدمی کی برائی تو لوگ فوراً اس پر تنقیدی کلمات لکھ دیتے ہیں اس پر کوئی اور صاحب آپ کی حمایت یا آپ کے خلاف کلمات لکھ دیں گے پھر کوئی تیسرا شخص اس پہ کچھ کہے گا اور یہ ایک نا ختم ہونے والا بحث کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جو عموماًانتہائی تلخ ہو جاتا ہے جس کا انجام گالی گلوچ یا ایک دوسرے کی تکفیر تک جا پہنچتا ہے اور نتیجہ کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ معتدل لوگ جو اسکو خاموشی سے دیکھ رہے ہوتے ہیں دونوں فریقوں سے بیزار ہوتے ہیں اول تو آپ ایسے کسی بھی مباحثے کے آغاز سے بچیں اور بالخصوص بیچ میں اپنا حصہ نہ ڈالیں جونہی ذرا احساس ہو کہ بات مباحثے کی شکل اختیار کر رہی ہے اس سے خاموشی سے کنارہ کشی کر لیں بحث کی بجائے کسی بھی شخص کو پرائیوٹ پیغام بھیجیں وہ بھی ایسے لہجے میں کہ وہ بھی آگے سے نرم گفتگو کرے نہ کہ سختی سے اور پرائیوٹ پیغامات پر بھی بات نہ بڑھائیں اگر مخالف قائل نہیں ہو رہا تو اسے دعا دے کر چھوڑدیں اگر ایسی بات دیکھیں جو غلط ہے اورلوگوں کو اس کی اطلاع کرنا بہت ہی ضروری ہے تو نہایت تدبرانہ انداز اختیار کریں نرمی سے کہیں کہ یہ صحیح نہیں لگ رہا کیا آپ کے پاس اس کا کوئی ریفرنس ہے جیسا کہ اخبار کا حوالہ ہی ویب سائٹ کا لنک یا پھر اس کے جواب میں قرآن کی آیت کا حوالہ دیں یا کسی بڑے عالم کی تقریر کا کلپ دے دیں یا کسی کتاب کا حوالہ وغیرہ ۔
فروعی معاملات میں نہ الجھیں:
    فیس بک پر لوگ فروعی معاملات میں وقت کے ضیاع کے سوا کچھ نہیں کرتے پہلے بھی ذکر ہوا کہ بحث سے بچیں یہاں سب سے پہلے یہ کہ آپ ایسی کوئی چیز دوسروں تک نہ پہنچائیں جو مختلف مسالک کے درمیان اختلافی ہے جیسا کہ عید میلاد النبی سے متعلقہ بعض مسائل، آمین آہستہ اونچی کہنا وغیرہ۔ اور اگر کوئی دوسرا ایسی کوئی چیز بھیجے تو اس سے چشم پوشی کریں تاکہ وہ آگے نہ جائے آپ کے تاثرات (تنقید یا تعریف ) کرنے سے وہ آگے منتقل ہو جائے گی ورنہ آپ سے دوسروں تک نہیں جائے گی آپ خود ہی بہت سی ایسی چیزیں پھیلا سکتے ہیں جو بالعموم مسلمانوں میں متفق ہیں جیسا کہ نماز کی تا کید کے لئے قرآنی آیات ، احادیث کا بھیجنا یا کرسمس کے منانے کے خلاف بڑے نامور عالموں کے فتوے بھیجنا کسی قرآنی یا عربی کلاس کا پیغام وغیرہ وغیرہ
لوگوں کو تبلیغ:
    فیس بک پر آپ کو بہت سے لوگ ایسے ملیں گے جن کو آپ تبلیغ کر سکتے ہیں مگر یا تو لوگ ان کو دل میں برا جانتے ہوئے چھوڑ دیتے ہیں یا ان کو بلاک کر دیتے ہیں یا ان پر سب کے سامنے تنقید کرتے ہیں جسکا الٹا اثر ہوتا ہے ایسے لوگ جو گانے بھیجتے ہیں یا قابل اعتراض تصاویربھیجتے ہیں یا بالخصوص خواتین اپنے پروفائل پر حجاب کے بغیر تصاویر لگا لیتی ہیں جو سب کے صفحوں پر نظر آرہی ہوتی ہے انہیں بڑے تدبر کے ساتھ تبلیغ کریں بہت سے لوگ اصلاح کر لیتے ہیں اس کے لئے ان کو پیغام بھیجیں جو دوسروں کو نظر نہ آئے اور اس میں نہایت نرم لہجے میں بتائیں کہ آپ کو اگر اسلام کے منافی چیزوں کی عادت ہے تو اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ انہیں چھوڑ سکیں مگر ان کو دوسروں تک پہنچا کر آپ شیطان کے کام میں آلہ کار بن رہے ہیں لہذا مہربانی فرما کر گانے نہ بھیجیں نہ ان پر پسند آیا لکھیں تاکہ یہ دوسروں تک نہ پہنچیں انہیں خوبصورتی سے احساس دلائیں کہ آپ مسلمان ہیں لہذا آپ کو اپنے پروفائل کو اسلامک بنانا چاہیے اس پر بے حجاب تصاویر نہ لگائیں آپ کے لہجے کی نرمی اور دلیل مخاطب کو اثر کرے گی اور وہ ان شاء اللہ صحیح راستے پہ آئے گا
    اگر آپ کا کوئی ساتھی فیس بک پر آپ سے گفتگو کرے تو تدبر کے ساتھ گفتگو کا رخ اسلام کی جانب لائیں اس سے پوچھیں نماز پڑھ چکے ہو یا کیا آج قرآن کی تلاوت کی ہے وغیرہ وغیرہ بس نرمی کے ساتھ تاکید کریں لوگ آہستہ آہستہ آپ کی بات سنیں گے اوراس کی طرف راغب بھی ہوں گے اسی طرح دوسروں کو بھی انہیں چیزوں کی تلقین کریں یاد رکھیں بلاک کرنے کی سہولت آپ کے پاس سے کسی بھی مناسب وقت پر استعمال ہو سکتی ہے اسے سب سے پہلے استعمال نہ کریں ۔
مستقل موضوع کے لئے صفحہ:
    الگ گروپ بنانا ،فیس بک پہ بالعموم آپ کے صفحے پر مختلف موضوعات ہوتے ہیں مثلاً سیاست ،کھیل ،تفریح ،بیرونی سیاست ، وغیرہ وغیرہ آپ کسی خاص مقصد کے لئے علیحدہ گروپ بنا سکتے ہیں جس پر آپ کسی خاص موضوع سے متعلق چیزیں رکھتے ہیں اور وہاں پر مخصوص احباب کو صرف دعوت دے سکتے ہیں لہٰذا اس گروپ پہ صرف اسی مضمون کا مواد رکھیں جیسا کہ قرآن کے گروپ میں صرف قرآن سے متعلق ترجمہ ،تفسیر وغیرہ رکھیں
    ذرائع ابلاغ کو استعمال کرنا وقت کی اہم ضرورت ہوا کرتا ہے اور مسلمانوں نے ہمیشہ وقت کے بہترین ذرائع ابلاغ استعمال کئے ہیں مگر آج کے مسلمان بالخصوص پاکستان کے مسلمان جدید ذرائع کو استعمال کرنے میں بہت ہچکچاہٹ کا شکار ہیں جبکہ بیرونی ممالک کے علماء جدیدذرائع کو بہت مؤثر طریقے سے استعمال کررہے ہیں جن میں ڈاکٹر ذاکر نائیک سے تو بہت سے لوگ واقف ہیں ان کے علاوہ یوسف ایسٹس، بلال فلپس ، عبدالرحیم گرین قابل ذکر ہیں جبکہ پاکستان میں آپ کو علماء کے ای میل ایڈریس مشکل سے ملیں گے ہمیں نہ صرف جدید ذرائع استعمال کرنا چاہیے بلکہ لوگوں کو انکے مؤثر استعمال سے آگاہ کرنااور رہنمائی دینی چاہیے۔

Enhanced by Zemanta