مقبول اعمال کی شرطِ اوّل

ﷲ تبارک و تعالیٰ نے ابن آدم کی اصل کام یابی کے لیے ایمان اور عمل دونوں کو ضروری اور لازمی قرار دیا ہے۔ یہ ایک ثابت شدہ حقیقت اور اس سے ہر مسلمان کو اچھی طرح سے واقف ہونا چاہیے۔ قرآن مجید میں ﷲ تعالیٰ نے ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کیے، ایسے لوگوں کے لیے مختلف انعامات کے وعدے کیے گئے ہیں، جن میں سے بہت سے انعامات تو اس دنیا میں بھی مل جاتے ہیں جب کہ دوسرے بہت سے انعامات ﷲ تعالیٰ اپنے ان محبوب بندوں کو آخرت میں دیں گے۔ سب سے بڑی کام یابی یہ ہے کہ وہ آخرت میں جو اصل اور ہمیشہ کی زندگی ہے۔ ﷲ کی نعمتوں اور خصوصی فضل و عنایت کے حق دار قرار دیے جائیں گے اور انہیں اپنے کیے کا بھرپور بدلہ ملے گا۔ اس سلسلے میں ایک اہم بات جس پر اسلام نے بہت زور دیا ہے اسے بھی یاد رکھنا چاہیے۔ بلکہ اس کے بغیر ہمارے اعمال پر کوئی اجر و ثواب بھی نہیں ہو گا اور وہ یہ ہے کہ ہمارے نیک اعمال میں اخلاص ہو، اور اخلاص کا مطلب یہی ہے کہ جو بھی نیک کام ہم کریں اسے فقط ﷲ کی خوشنودی اور اس کی رضا کے لیے کریں۔ 

کوئی بھی نیک عمل ریاکاری اور لوگوں کی نگاہ میں محترم بننے کے لیے کیا جا رہا ہو تو وقتی طور پر ہمیں اپنے مقاصد تو حاصل ہو جائیں گے مگر جو اس کا اصل مقصد یعنی اجر و ثواب اور عندﷲ مقبولیت ہمیں ہرگز حاصل نہیں ہو گی۔ حدیث شریف میں ہے، مفہوم : انسان کے تمام اعمال کا دار و مدار اس کی نیّت پر ہے اور آدمی کو اس کی نیّت کے مطابق ہی اجر ملے گا، پس جس شخص نے ﷲ اور اس کے رسول (ﷺ) کی طرف ہجرت کی تو اس کی ہجرت درحقیقت ﷲ اور رسولؐ کی طرف ہی ہوئی اورجس شخص نے کسی دنیا وی غرض یا کسی عورت سے نکاح کی غرض سے ہجرت کی تو عندﷲ اس کی ہجرت اسی کی طرف مانی جائے گی۔‘‘ مذکورہ حدیث پاک میں ہجرت کا ذکر ایک مثال کے طور پر کیا گیا ہے اور چوںکہ اسلام کی ابتدا میں یہ ایک بہترین عمل تھا اس لیے خاص طور پر اس کا ذکر کیا گیا ہے۔

اس حدیث پاک میں نبی محترم ﷺ کا اصل میں یہ کہنا ہے کہ تمام مسلمانوں کے تمام نیک اعمال کے مقبول یا نامقبول ہونے کے لیے اصل بنیاد اس کی نیّت ہے، اگر نیّت درست ہو گی تو وہ عمل مقبول ہو گا اور اگر نیّت درست نہ ہو تو وہ عمل مقبول نہیں ہو گا۔ چاہے وہ عمل ظاہر میں صالح اور عمدہ ہی کیوں نہ لگے۔ یعنی ﷲ تعالیٰ کے نزدیک ظاہر کے ساتھ انسان کے باطن کی یک سوئی اور توجہ الی ﷲ بھی ضروری ہے اور اس کے بعد ہی انسان کا عمل اس لایق ہو گا کہ اس پر اجر و ثواب مرتب ہو۔ اس موقع پر ممکن ہے کسی شخص کے ذہن میں یہ غلط فہمی پیدا ہو جائے کہ اگر ﷲ تعالیٰ کے نزدیک کسی بھی عمل کے قبولیت کا دار و مدار نیّت پر ہے، تو اگر کوئی انسان کسی غلط عمل کو اگر اچھی نیّت سے کریں تو وہ درست ہونا چاہیے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص چوری کرتا ہے یا ڈاکا ڈالتا ہے اور اس کی سوچ اور نیّت یہ ہے کہ وہ چوری کیے ہوئے مال کو غریبوں، مسکینوں اور یتیموں میں تقسیم کروں گا، تو اس کا یہ عمل درست ہونا چاہیے؟

اس سلسلے میں یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ جو عمل قبیح اور بُرا ہے اس کے بُرا ہونے اور ﷲ تعالیٰ کی ناراضی کا موجب ہونے میں کوئی شک و شبہ ہی نہیں، بلکہ اگر کوئی شخص کسی بھی قبیح عمل کو اچھی نیّت سے کرے تو عین ممکن ہے کہ وہ اﷲ تعالیٰ کی مزید سخت پکڑ کا شکار ہوجائے، کیوں کہ یہ تو ﷲ تعالیٰ کے دین اور اس کے حکم کے ساتھ مذاق کرنے جیسا ہے۔ حدیث کی رُو سے اگر کوئی مسلمان پابندی کے ساتھ پنج وقتہ نمازیں پڑھتا ہے۔ نوافل و مستحبات کا بھی اہتمام کرتا ہے اور ایسا کرنے سے اس کی غرض یہ ہے کہ پاس پڑوس کے لوگ اسے اچھی نظروں سے دیکھیں اور اسے معاشرے میں وقار حاصل ہو تو یقیناً اس کی یہ نمازیں ضایع جائیں گی اور ان پر کوئی بھی اجر و ثواب نہیں ملے گا۔ بڑے سے بڑے عمل کے مقبول ہونے کے لیے بھی ہماری نیّت کا درست اور خالص ہونا لازمی ہے، اس کے بغیر عمل کرنا یا نہ کرنا دونوں برابر ہیں۔

ایک طویل حدیث رسول مقبول ﷺ میں عملِ صالح کے اس اہم پہلو پر مزید تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ حدیث پاک مسلم شریف میں نقل کی گئی ہے اور اس میں ایسے تین لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جواس جہاں میں اپنی نیک اعمال کی وجہ سے بڑے مشہور معروف ہوں گے لیکن بہ روز قیامت میں ﷲ تعالیٰ انہیں جہنم میں ڈالنے کا حکم فرمائیں گے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس میں ایک وہ شخص ہو گا جو راہِ خدا میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوا ہو گا۔ حساب کتاب کے دوران اسے پہلے دنیا میں اسے دی جانے والی نعمتیں یاد دلائی جائیں گی پھر پوچھا جائے گا کہ تم نے ﷲ تعالیٰ کی ان نعمتوں کا کیا حق ادا کیا ؟ تو وہ کہے گا کہ یا ﷲ میں نے تیری راہ میں جہاد کر کے اور اپنی جان قربان کر کے تیری نعمتوں کا حق ادا کیا۔ تو ﷲ کی طرف سے ارشاد ہو گا کہ تم جھوٹے ہو تم نے جہاد تو محض اس لیے کیا کہ دنیا کے لوگ تمہیں بڑا بہادر آدمی سمجھیں، پس دنیا میں تو تیری بہادری کا چرچا ہوتا رہا اور پھر اس شخص کو اوندھے منہ جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

دوسرا شخص وہ عالم دین اور عالم قرآن ہو گا اس سے بھی اسی طرح کا سوال کیا جائے گا اور جواب میں کہے گا کہ خدایا! میں نے تیرے دین اور تیری کتاب کا علم حاصل کیا اور اسے لوگوں میں پھیلایا اور بے شمار لوگوں کو قرآن کریم کی تعلیم دی، تو اسے کہا جائے گا کہ تم جھوٹ بولتے ہو، تم نے یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تمہیں عالم، قاری اور مولانا کہیں پس تمہیں دنیا میں تو یہ سب کہا گیا۔ اور پھر اسے بھی جہنّم میں ڈالنے کا حکم صادر ہو گا۔ اس کے بعد ایک تیسرا شخص پیش ہو گا، جس نے دنیا میں غریبوں، مسکینوں اور یتیموں پر اپنے مال و دولت خرچ کرتا ہو گا، ان کی ضرورتوں میں کام آیا ہو گا، ﷲ تعالیٰ جب اس سے دریافت کرے گا کہ میری نعمتوں کا حق کس طرح ادا کیا تو وہ اپنی سخاوت کے حوالے دے گا۔ جس کے جواب میں کہا جائے گا کہ تم جھوٹے ہو، تم نے تو یہ سب اس لیے کیا کہ لوگ تمھیں سخی کہیں اور تمہاری سخاوت کا چرچا کیا جائے پس دنیا میں تو تمہاری خوب شہرت ہوچکی اور پھر اس شخص کو بھی جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

ان احادیث کے علاوہ قرآن مجید کی متعدد آیات اور دوسری بہت سی احادیث پاک میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان کوئی بھی نیک اعمال کریں تو صرف ﷲ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھیں۔ ﷲ کی رضا کے بغیر بڑے سے بڑا عمل بھی ﷲ تعالیٰ کے نزدیک کوئی وقعت اور اہمیت نہیں رکھتا۔ ان تمام ارشادات اور تعلیمات کی روشنی میں ہم مسلمانوں کو اپنے اعمال کا بہ غور جائزہ لینا ہو گا اور جو بھی نیک اعمال ہم کرتے ہیں ان کی اصلاح کی بھی کوشش کرنی چاہیے۔ آج کل بدقسمتی سے مسلمانوں کا رشتہ اپنے دین سے اور اعمالِ خیر سے مسلسل ختم ہوتا جارہا ہے اور جو بھی نیک اعمال کرتے ہیں، ان میں بھی ریاکاری، دوسروں کے سامنے اپنی اہمیت جتانے اور دوسروں کے سامنے اچھا بننے جیسی بے شمار خرابیاں پیدا ہوتی جارہی ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ﷲ تعالیٰ سے کی جانے والی ہماری دعائیں قبول نہیں ہو رہی ہیں اور ہماری ذلت و پستی کا سلسلہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ جب تک کہ ہم اپنے حقیقی دین اسلام کی طرف مخلصانہ رجوع نہیں کریں گے اور اپنے اعمال کو درست کرنے کے ساتھ ان میں اخلاص پیدا نہیں کریں گے، اس وقت تک ﷲ کی رحمت اور اس کی خاص توجہ کا حصول مشکل ہے۔ ﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں نیک اعمال کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین

عنایت کابلگرامی  

ذکر اللہ کی فضیلت

رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’دل دو چیزوں ( غفلت اور گناہ) سے زنگ پکڑتا ہے اور دو چیزوں (استغفار اور ذکر الٰہی ) سے ہی زنگ دور کیا جا سکتا اور اسی کے ذریعے سے دل کو روشن کیا جا سکتا ہے ۔‘‘ ایک اور مقام پر آپ ﷺ نے فرمایا ’’ذکر الٰہی کیلئے کوئی قوم جب اور جہاں بیٹھتی ہے تو ملائکہ ان پر گھیرا ڈال لیتے ہیں اللہ کی رحمت ان کو ڈھانپ لیتی ہے اور اللہ تعالیٰ ان کا اپنی مجلس میں تذکرہ فرماتے ہیں ۔‘‘ (صحیح مسلم) ایک روایت صحیحین میں ہے جسے حضرت ابوہریرہ ؓ نے روایت کیا ہے کہ آپ ﷺنے فرمایا ’’ اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں: میں اپنے بندے کے ظن کے مطابق اس سے معاملہ کرتا ہوں جب مجھے یاد کرتا ہے میں علم کے لحاظ سے اس کے پاس ہوتا ہوں اگر مجھے دل میں یاد کرے تو میں دل میں اسے یاد کرتا ہوں مجلس میں یاد کرے تو میں اس سے بہتر مجلس میں یاد کرتا ہوں میری طرف بالشت آئے تو میں ہاتھ برابر آتا ہوں ۔ ہاتھ بھر آئے تو میں دو ہاتھ برابر قریب آتا ہوں چل کر آئے تو میں دوڑ کر آتا ہوں ۔‘‘ صحیحین

ترمذی شریف میں ہے رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا :’’ جب تم جنت کے باغات سے گزرو تو وہاں سے کچھ کھایا کرو ۔ ‘‘صحابہ کرام ؓنے استفسار کیا، جنت کے کونسے سے باغات ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا ’’ ذکر الٰہی کے حلقے ۔‘‘ امام بیہقیؒ نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے مرفوعاً حدیث ذکر فرمائی کہ رسول اللہﷺ فرمایا کرتے ’’ ہر شے کیلئے صیقل ہے دلوں کی صیقل ذکر الٰہی ہے ۔ عذاب الٰہی سے بچنے کیلئے انسان کیلئے ذکر الٰہی سے زیادہ کوئی چیز بہتر نہیں ۔ ‘‘صحابہ کرام ؓ نے دریافت کیا جہاد فی سبیل اللہ سے بھی ؟ ‘‘ فرمایا ’’خواہ تلوار مارتے مارتے خود ہی شہید و پرزہ پرزہ کیوں نہ ہو جائے ۔ ‘‘ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے : ’’ہیبت و جلال الٰہی سے جو تم اس کی تہلیل و تکبیر اور تحمید کرتے ہو وہ اللہ کے عرش کے گردو نواح گھومنے لگ جاتا ہے اور شہد کی مکھیوں کی طرح آواز کرتی ہیں اور اپنے فاعل کو یاد کرتی ہیں کیا تمہیں پسند نہیں کہ تمہیں بھی کوئی چیز عرش الٰہی کے پاس یاد کرے اور تمہارا تذکرہ کرے ؟‘‘ مسند امام احمد

ذکر الٰہی سے اللہ ذاکر کیلئے جنت میں درخت لگا دیتے ہیں حضرت عبداللہ بن مسعود ؓسے مروی ہے کہ نبی کریمؐ نے فرمایا : ’’معراج کی رات حضرت ابراہیم ؑ سے میری ملاقات ہوئی تو فرمانے لگے ، میری طرف سے اپنی امت کو سلام دینا اور کہنا جنت کی زمین بھی نہایت اعلیٰ ہے اور اس کا پانی بھی میٹھا ہے۔ مگر وہ صاف چٹیل میدان ہے اور اس کے پودے ہیں سبحان اللہ ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ اللہ اکبر۔‘‘( ترمذی) ذکر الٰہی سے جو انعامات حاصل ہوتے ہیں وہ دیگر اعمال سے نہیں ہوتے ۔ چنانچہ صحیحین میں حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے رسول اللہﷺ نے فرمایا :’’جو شخص روزانہ 100 مرتبہ’’ لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ لہ الملک ولہ الحمد وھو علی کل شی قدیر‘‘پڑھے اسے 10 غلام آزاد کرنے کا ثواب ملتا ہے ۔ 100 نیکیاں اس کے نامۂ اعمال میں لکھ دی جاتی ہیں اور صبح سے شام تک وہ شیطان کے شر سے محفوظ رہتا ہے اور اس کے اعمال سے بڑھ کر کسی کا عمل افضل نہیں ہوتا سوائے یہ کہ اس سے بڑھ کر کوئی عمل کرے ۔

اور جو شخص دن میں 100 مرتبہ ’’سبحان اللہ و بحمدہ‘‘ کہے اس کے تمام گناہ خواہ وہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں معاف ہو جاتے ہیں ۔‘‘ ذکر الٰہی سے انحراف اپنے نفس پر ظلم کرنے کے مترادف ہے جو لوگ ذکر الٰہی سے اعراض اور انحراف کرتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کی معیشت کو تنگ کر دیتا ہے ۔ ارشاد ربانی ہے : ترجمہ ’’اور ( ہاں) جو میری یاد سے روگردانی کرے گا اس کی زندگی تنگی میں رہے گی اور ہم اسے روز قیامت اندھا کر کے اٹھائیں گے۔ وہ کہے گا یا الٰہی مجھے تو نے اندھا بنا کر کیوں اٹھایا حالانکہ میں تو دیکھتا تھا ۔ ( جو اب ملے گا کہ) اسی طرح ہونا چاہئے تھا تو میری آئی ہوئی آیتوں کو بھول گیا تو آج تو بھی بھلا دیا جاتا ہے۔‘‘(طہ) اس تنگی سے بعض نے عذابِ قبر اور بعض نے قلق و اضطراب ، بے چینی اور بے کلی مراد لی ہے ۔ اس تنگ زندگی کی عذابِ برزخ سے بھی تفسیر کی گئی ہے۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ بیان کرتی ہیں کہ ’’رسول ؐاللہ ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے تھے۔‘‘ بخاری کتاب الاذان

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ذکر الٰہی کیلئے کوئی وقت مقرر نہیں، ذکر کرنے والا جب جس وقت اور جس حالت میں چاہے اللہ کا ذکر کر سکتا ہے ۔ حضرت عبداللہ بن بسرؓ بیان کرتے ہیں ایک شخص نے عرض کیا! اللہ کے رسول ﷺ! اسلام کے احکام کی مجھ پر کثرت ہو چکی ہے ، لہٰذا آپ ؐ مجھے کوئی (آسان سی) چیز بتا دیں جس پر میں عمل کرتا رہوں ۔ آپؐ نے فرمایا:’’ تیری زبان ہمیشہ اللہ کے ذکر سے تر رہنی چاہیے ۔‘‘( ابن ماجہ) حضرت جابر بن عبداللہ ؓ بیان کرتے ہیں میں نے سنا آپ ﷺ نے فرمایا :’’ افضل ذکر لا الہ الا اللہ ہے اور افضل دعا الحمد للہ ہے ۔‘‘ ( ابن ماجہ ) کلمۂ توحید کا ورد تمام اذکار سے بہتر ہے اور الحمد للہ کا ورد تمام دعاؤ ں سے بہتر ہے اس لیے کہ یہ دونوں کلمے اللہ تعالیٰ کی توحید اور تحمید پر مشتمل ہیں ۔ رسول اکرمﷺ نے فرمایا :’’جو قوم اللہ کا ذکر کرتی ہے تو فرشتے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیتے ہیں اور رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے اور ان پر سکونت نازل ہوتی ہے اللہ تعالیٰ ( بطور فخر) ان کا تذکرہ اپنے فرشتوں سے کرتا ہے جو اس کے پاس ہوتے ہیں ۔‘‘  مسلم کتاب الذکر والدعاء

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’ جو لوگ اپنی مجلس میں اللہ کا ذکر نہیں کرتے اور نہ ہی اپنے نبی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تو ایسی مجالس باعث حسرت اور نقصان دہ ہوتی ہیں ، اللہ اگر چاہے تو انہیں عذاب دے اور اگر چاہے تو معاف کر دے ۔‘‘ ( مسند احمد) اگر ہم غور کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نے ہمیں ہر ، لمحہ ہر موڑ پر ذکر الٰہی کا ہی درس دیا ہے ۔ گھر سے نکلیں تو دعا ، بازار جائیں تو دعا ، سواری پر سوار ہوں تو دعا، شہر میں داخل ہوں تو دعا ، پانی پئیں تو دعا ، کھانا کھانے سے فارغ ہوں تو دعا ، مسجد میں داخل ہوں تو دعا اور نماز تو دعاؤ ں کا مجموعہ ہے ۔ مسجد سے باہر نکلیں تو دعا لباس پہنیں تو دعا ، الغرض ہر حال میں دعا ۔ دین اسلام نے انسان کو کسی بھی موڑ پر نہیں چھوڑا ہر مقام پر ذکر الٰہی کی تلقین کی ہے ۔ لہٰذا ہمیں چاہیے ہم ہمہ وقت ذکر الٰہی میں مشغول و مصروف رہیں اسی میں کامیابی ہے ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں ذکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

بشکریہ دنیا نیوز

ربِ کائنات سے رابطہ مگر کیسے۔۔۔۔۔۔؟

ہم کون ہیں۔۔۔۔؟ کہاں سے آئے ہیں؟ کہاں جانا ہے؟ ہماری پیدائش کا مقصد کیا ہے؟ یہ کائنات کس نے بنائی ہے؟ اس ہستی سے کیسے رابطہ ممکن ہے ۔۔۔۔؟ ان سب سوالات کے جوابات ہمیں بہ آسانی قرآن مجید سے میسر ہیں۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ اگر اﷲ تعالی سے بہ راہ ِ راست رابطہ ممکن ہے تو کیسے ۔۔۔۔ ؟ یہ بات طے ہے کہ جو ذات بھی ہمارے ذاتی نوعیت کے معاملات میں شاملِ گفت گو ہوتی ہے، ہم اس کے متعلق کہتے ہیں کہ اس کے ساتھ میرے ذاتی تعلقات ہیں۔ روحانیت دراصل اﷲ تعالی سے ذاتی نوعیت کے تعلقات استوار کرنے کے لیے استعمال کیے جانے والے ذرائع اور ان مذہبی مہارتوں کا اجمالی بیان ہے جو ہم مسلمان آپؐ کے دینِ اسلام میں اپنی استعداد کے مطابق، اپنی روحانی ترقی کے لیے بہ روئے کار لاتے ہیں۔

حدیث جبرائیل ؑ صحیح بخاری ترجمہ و مفہوم کے مطابق : ’’ احسان یہ ہے کہ آپ ﷲ کی عبادت ایسے کریں کہ آپ گویا ﷲ کو دیکھ رہے ہیں اور اگر یہ درجہ حاصل نہ ہو تو پھر یہ تو سمجھیں کہ وہ تو آپ کو دیکھ ہی رہا ہے۔‘‘ یوں ﷲ کے آخری رسول ﷺ نے واضح کیا کہ ہر مسلمان ﷲ تعالی سے بہ راہ ِ راست رابطہ کر سکتا ہے۔ گویا کہ اسلام کی تقریبا ً تمام ہی عبادات میں اس کا عملی ثبوت ہمیں میسر ہے۔ مگر نماز اور روزے میں، ﷲ کو اپنی زندگی میں شامل اور محسوس ہونے کا تاثر پوری طاقت کے ساتھ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ قرآن و حدیث میں ہے کہ روزہ تقوی پیدا کرتا ہے اور نماز بے حیائی سے روکتی ہے۔ نماز اور روزے کی یہ روح ہمیں میسر آہی نہیں سکتی جب تک ہم دوران ِ نماز و روزہ، ﷲ کے ساتھ بہ راہ ِ راست آمنے سامنے والے احساس کے تحت باہم منسلک اور ہم کلام نہ ہوں۔ عبادات کے ذریعے روحانیت میں ترفع کے لیے یہ احسان کہلاتا ہے۔

اگر کسی شخص کے سامنے قرآن و حدیث کی تعلیمات کے مطابق حقوق ﷲ اور حقوق العباد متعین رہیں اور اس کے ساتھ ﷲ کے متعلق سامنے ہونے کا یقین بہ مطابق حدیث ﷺ سامنے ہو تو ﷲ تعالی سے بہ راہ ِ راست تعلق کے امکانات کس قدر واضح اور روشن ہوں گے۔ یہ انسانی حوالے سے سب سے زیادہ آسان اور عملی طور پر ممکن طریقہ ہے۔ ﷲ تعالی خود ہم انسانوں کو اپنے ساتھ بہ راہ ِ راست رابطے کی طرف بلاتے ہیں۔ ’’ اور اپنے رب کی طرف دل لگاؤ۔‘‘ سورہ رعد کی آیت، ترجمہ و مفہوم : ’’ جو اس کی طرف جھکتا ہے وہ اسے راستہ دکھا دیتا ہے۔‘‘ سورہ عنکبوت کی آیت، ترجمہ و مفہوم کے مطابق نماز بے حیائی اور برے کاموں سے روکتی ہے تو صرف اسی صورت میں کہ ہم حضور ﷺ کی تلقین کے مطابق ﷲ کو بہ راہ ِ راست اپنے ساتھ زندگی میں شامل و محسوس سمجھیں۔ سورہ النساء کی آیت، ترجمہ و مفہوم : ’’ پس جو لوگ ﷲ پر ایمان لائے اور اسے مضبوط پکڑ لیا تو انہیں وہ عن قریب اپنی رحمت اور فضل میں لے لے گا اور انہیں اپنی طرف کی راہ ِ راست دکھا دے گا۔

یوں ﷲ تعالی خود آپ کو حق الیقین کی منزلوں کی طرف لے چلے گا۔ آپ ﷺ جس طرح احسان کی روش پر گامزن تھے، ﷲ تعالی نے اس کے شایان ِ شان حق الیقین کی منزلوں کے لیے واقعۂ معراج کو وقوع پذیر کیا۔ ہمیں ہمارے معیار کے احسان کے مطابق حق الیقین کی طرف لے جایا جائے گا۔ نماز کو اسی لیے معراج مومن کہا جاتا ہے۔ سورہ کہف میں ان چند نوجوانوں کا تذکرہ موجود ہے۔ جنہوں نے ﷲ تعالی سے بہ راہ ِ راست ہدایت کی دعا کی اور پھر ﷲ تعالی نے انہیں حق الیقین کی منازل طے کرائیں۔ یوں طریقۂ احسان کے مطابق ﷲ تعالی سے بہ راہ ِ راست ہم کلامی ہمیں نفس ِ مطمئنہ کی طرف لے جائے گی۔ ﷲ تعالی سے ہم کلامی کا مطلب ہے کہ آپ اپنی زندگی میں موجود کسی ادنی درجے کی بھی کھٹک، کمی اور رحمت کی دست یابی پر اس کا برملا اظہار صرف اﷲ تعالی سے کر دیں۔

حدیث جبرائیل ؑ کے تحت، نبی ﷺ کے ذریعے ﷲ کا تعلیم کردہ طریقۂ احسان، انسانوں کو ﷲ کے ساتھ بہ راہ راست کرتا ہے۔ طریقۂ احسان میں ہر عمل کے کرنے سے پہلے، ﷲ کی رضا مندی کے حصول کا سادہ اور واضح اصول متعین رہتا ہے اور ساری بات ہمارے عمل کرنے یا نہ کرنے تک موقوف ہوتی ہے۔ احسان بہ راہ راست ﷲ اور رسول اکرم ﷺ کا تعلیم کردہ ہے۔ احسان میں آپ اپنے آپ کو ﷲ تعالی کے سپرد کر دیتے ہیں اور صرف اور صرف ﷲ کے حکم اور سنت ِ رسول اکرم ﷺ کو مانتے ہوئے ﷲ کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں اور اسی بنیاد پر ہم مسلمان بھی کہلاتے ہیں کہ ہم سر تسلیم خم کر چکے ہیں۔ اور اس حوالے اپنی عقل و خرد کو صرف ان احکامات کی حکمتیں سمجھنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

سورہ مومن کی آیت کے مطابق ترجمہ و مفہوم : اور اس ایمان دار شخص نے کہا کہ اے میری قوم کے لوگو! تم سب میری پیروی کرو میں نیک راہ کی طرف تمہاری راہ بری کروں گا۔ مگر یہ راہ بری بھی صرف اور صرف ﷲ اور رسول ﷺ کے احکامات کے مطابق حکم اور نصیحت پر ہی موقوف ہو سکتی ورنہ غلطی اور کوتاہی کا خطرہ سر پر منڈلاتا رہے گا۔ ﷲ تعالی سے بہ راہ راست تعلق صرف نبی کریم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر زندگی بسر کرنے سے ہی ممکن ہے۔

فرحت علی بیگ

اللہ کی مدد کیسے حاصل ہو گی ؟

آج ہم طرح طرح کی پریشانیوں میں گرفتار ہیں۔ نجی پریشانی،گھریلوپریشانی، سماجی پریشانی، معاشی پریشانی، قدرتی پریشانی ۔ اس قسم کی سیکڑوں دیناوی پریشانیوں کے شکار ہیں جیسے لگتا ہے زندگی پریشانیوں کا مجموعہ ہے اورہم اللہ کی طرف سے خاص مہربانی اور نصرت وامداد سے محروم ہو گئے ہیں۔ دعائیں کرتے ہیں مگر قبول نہیں ہوتیں ، امداد طلب کرتے ہیں مگر امداد نہیں آتی ، آواز لگاتے ہیں مگر کہیں سے کوئی جواب نہیں ملتا۔ آخر اس کے کیا وجوہات ہیں اور کن اسباب کی وجہ سے ہمارا یہ براحال ہے ؟
اسلام ہی وہ دین ہے جس میں ساری پریشانیوں، مشکلوں، بیماریوں، مصیبتوں، دکھوں، غموں، دقتوں اور نقمتوں کا حل موجود ہے ۔ اسلام کے سایہ تلے زندگی گزارنے سے غربت دور ہو سکتی ہے ، بیماری کا علاج ہو سکتا ہے، پریشانی کا حل ہوسکتا ہے، غموں کا اختتام ہو سکتا ہے، دعائیں قبول ہو سکتی ہیں، مراد پوری ہو سکتی ہے، قسمت سنور سکتی ہے ، بگڑی بن سکتی ہے ۔ ہماری پریشانیوں بتلاتی ہیں کہ ہم نے اسلام کے سایہ تلے زندگی گزارنا چھوڑ دیا ہے ورنہ یہ دن نہ دیکھتے پڑتے ۔
ایک مومن کا اس بات پر ایمان ہونا چاہئے کہ ہمارا اصل مددگار صرف اور صرف اللہ وحدہ لاشریک ہے ،اس کے علاوہ کوئی مدد گار نہیں جیساکہ خود کلام رب اس کی گواہی دیتا ہے ۔
وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَكِيمِ (آل عمران:126)
ترجمہ: اور مدد تو اللہ ہی کی طرف سے ہے جو غالب اور حکمتوں والا ہے ۔
اسی طرح دوسری جگہ فرمان الہی ہے :
بَلِ اللَّهُ مَوْلَاكُمْ ۖ وَهُوَ خَيْرُ النَّاصِرِينَ (آل عمران :150)
ترجمہ: بلکہ اللہ ہی تمہارا خیرخواہ ہے اور وہی سب سے بہتر مدرگارہے۔
جس کا مددگار اللہ ہو اسے دنیا کی کوئی طاقت نقصان نہیں پہنچا سکتی ، یہ ضمانت بھی اللہ تعالی نے خود دی ہے، فرمان پروردگار ہے :
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (آل عمران :160)
ترجمہ: اگر اللہ تعالی تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا ،اگر وہ تمہیں چھوڑدے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ،ایمان والوں کو اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔
یہاں ایک مومن کو یہ عقیدہ بھی اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ جو لوگ غیراللہ کو مدد کے لئے پکارتے ہیں ایسے لوگ شرک و کفر میں مبتلا ہیں۔ دراصل یہ بڑی وجہ ہے جس سے اللہ کی مدد آنی بند ہو گئی ۔ اور جنہیں اللہ کے علاوہ مدد کے لئے پکارا جاتا ہے وہ تو ہماری کچھ مدد نہیں کر سکتے بلکہ وہ اپنے آپ کی مدد کرنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ۔ اللہ کا فرمان ہے :
وَالَّذِينَ تَدْعُونَ مِن دُونِهِ لَا يَسْتَطِيعُونَ نَصْرَكُمْ وَلَا أَنفُسَهُمْ يَنصُرُونَ (الاعراف :197)
ترجمہ: اور تم جن لوگوں کو اللہ کے علاوہ پکارتے ہو وہ تمہاری کچھ مدد نہیں کرسکتے اور نہ ہی وہ اپنی مدد کر سکتے ہیں۔
اب یہاں ان اسباب کا ذکر کیا جاتا ہے جن سے اللہ کی مدد حاصل ہوتی ہے یا یہ کہیں جن کی وجہ سے اللہ اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے ۔ 
(1) اللہ پر صحیح ایمان  
 جو لوگ اللہ پر صحیح معنوں میں ایمان لاتے ہیں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتے وہ اس کی طرف سے مدد کے مستحق بن جاتے ہیں یعنی اللہ ایسے لوگوں کا مددگار بن جاتا ہے اور ایسے ایمان داروں کی مدد کرنا اللہ اپنے ذمہ لے لیتا ہے ۔ اللہ تعالی فرماتا ہے : وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ الْمُؤْمِنِينَ (الروم:47)
ترجمہ: اور ہم پر مومنوں کی مدد کرنا لازم ہے ۔
اللہ کا فرمان ہے : إِنَّ اللَّهَ يُدَافِعُ عَنِ الَّذِينَ آمَنُوا ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ كُلَّ خَوَّانٍ كَفُورٍ (الحج :38)
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی سچے مومن کی (دشمنوں کے مقابلے میں) مدافعت کرتا ہے ، کوئی خیانت کرنے والا ناشکرا اللہ تعالی کو ہرگز پسند نہیں۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِينَ آمَنُوا فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ الْأَشْهَادُ (غافر:51)
ترجمہ: یقینا ہم اپنے رسولوں کی اور ایمان والوں کی مدد دنیاوی زندگی میں بھی کریں گے اور اس دن بھی جب گواہی دینے والے کھڑے ہوں گے ۔
آج ایمان کے دعویداروں کی بہتات ہے مگراکثرلوگ شرک کے دلدل میں پھنسے ہیں ، رب پر صحیح سے ایمان نہیں لاتے ، یا ایمان لا کر شرک و بدعت کا راستہ اختیار کئے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے نصرت الہی بند ہو گئی ۔
رب العزت کا فرمان ہے : وَمَا يُؤْمِنُ أَكْثَرُهُم بِاللَّهِ إِلَّا وَهُم مُّشْرِكُونَ (یوسف:106)
ترجمہ: ان میں سے اکثر لوگ باوجود اللہ پر ایمان رکھنے کے بھی مشرک ہی ہیں۔
(2) عمل میں اخلاص 
ہماری جدوجہد اور عمل میں اخلاص وللہیت ہو تو نصرت الہی کا حصول ہو گا ۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے :
إنَّما يَنصرُ اللَّهُ هذِهِ الأمَّةَ بضَعيفِها، بدَعوتِهِم وصَلاتِهِم ، وإخلاصِهِم (صحيح النسائي:3178)
ترجمہ: بیشک اللہ اس امت کی مدد کرتا ہے کمزور لوگوں کی وجہ سے ، ان کی دعاوں ، ان کی عبادت اور ان کے اخلاص کی وجہ سے ۔
اس حدیث میں نصرت الہی کے تین اسباب بیان کئے گئے ہیں ۔ دعا، نماز، اخلاص ۔
ہمارے عملوں میں اخلاص کا فقدان ہے جو اللہ کی ناراضگی اور اس کی نصرت سے محرومی کا سبب بناہوا ہے ۔ اولا عملوں میں کوتاہی اس پر مستزاد اخلاص کی کمی یا فقدان ۔ شہرت، ریا ، دنیا طلبی نے ہمارے عملوں کو اکارت کر دیا اور ساتھ ساتھ نصرت الہی سے محروم بھی ہو گئے ۔
(3) دعا 
 دعا مومن کا ہتھیار ہے جو ہمیشہ اپنے ساتھ  رکھتا ہے ، سفر میں ہو یا حضر میں حالت جنگ ہو یا حالت امن ، مصائب و مشکلات ہوں یا خوشحالی ، ہرموقع پر مومن دعا کے ذریعہ رب کی رضامندی اور مدد طلب کرتا ہے ۔ سیرت نبوی ﷺ سے اس کی ایک مثال دیکھیں ۔
بدر کا میدان ہے ، ایک طرف نہتھے 313 مسلمان ،دوسری طرف ہتھیاروں سے لیس ایک ہزار کا لشکر کفر۔ آپ ﷺ نے بڑی جماعت کے مقابلے میں اپنی چھوٹی جماعت کو دیکھا تو اللہ تعالی سے نصرت کی دعا کی ۔ مسلم شریف کے الفاظ ہیں :
اللهمَّ ! إن تهلِك هذه العصابةُ من أهلِ الإسلامِ لا تُعبدُ في الأرض(صحيح مسلم:1763)
ترجمہ: اے اللہ ! مسلمانوں کی یہ جماعت اگر ہلاک ہوگئی تو روئے زمین پر کوئی تیری عبادت کرنے والا نہ ہو گا۔
رب نے دعا قبول کرلی اور قرآن کی آیت نازل کرکے نصرت کی بشارت سنائی ۔
إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُم بِأَلْفٍ مِّنَ الْمَلَائِكَةِ مُرْدِفِينَ (الانفال:9)
ترجمہ: اس وقت کو یاد کرو جب کہ تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے پھر اللہ تعالی نے تمہاری سن لی کہ میں تم کو ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا جو لگاتار چلے آئیں گے ۔
آج ہماری دعاؤں کی عدم قبولیت میں تین عوامل کا زیادہ دخل ہے ، اخلاص کا فقدان، بدعملی اور حرام معیشت ۔ ان تین منفی عوامل کو دور کردیا جائے تو دعائیں بلاشبہ قبول ہوں گی۔ مسلمانوں کا ایک طبقہ غیراللہ سے امداد طلب کرتا ہے جو سراسر شرک ہے ، اس حال میں مرنا موجب جہنم ہے ۔ دعا عبادت ہے اور عبادت صرف اللہ کے لئے ہے ، آج مسلمانوں کے ایک مخصوص طبقہ نے(جن کی اکثریت ہے) مشرکوں کی طرح غیراللہ کی پکار لگا کے دنیا سے امن وامان اور نصرت الہی کو روک رکھا ہے۔ ایسے گمراہ مسلمانوں کی اصلاح قلیل سچے مومن کے سر ہے ۔
(4) نماز
رب کی خالص عبادت مومن کی زندگی اور مقصد حیات ہے ،اس دعوت کو لے کرتمام انبیاء آئے، نبی ﷺ نے مکی دور میں جوتیرہ سال پر محیط پر اسی دعوت پہ کڑی محنت کی ۔ نماز مومن سے کسی بھی حال میں معاف نہیں ،میدان جنگ میں جہاں ایک لمحہ دوسری جانب التفات کا موقع نہیں نماز کے وقت میں نماز قائم کرنا ہے یعنی وقت نماز کو بھی مؤخر نہیں کر سکتے اور کیونکر معاف ہو یہ تو مقصد حیات ہے ۔ نبی ﷺ فرائض کے علاوہ سنن کی ادائیگی اس قدر کرتے کہ پاؤں میں ورم آ جاتا۔ آپ ﷺ ہر پریشان کن معاملہ میں نماز کا سہارا لیتے ۔ اس لئے ہم دیکھتے ہیں کہ مصائب کے مواقع پر نماز کا حکم ہے، بارش کی نماز، سورج اور چاند گرہن کی نماز، اور زلزلہ کی نماز وغیرہ۔
لہذا ہم نماز کے ذریعہ رب سے استغاثہ کریں ۔ اللہ کا حکم ہے : وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ ۚ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ (البقرة:45)
ترجمہ: اور صبر اور نماز کے ساتھ مدد طلب کرو ،یہ چیز شاق ہے مگر ڈرنے والوں پر۔
(5) صبر
مصائب پر صبرکرنے سے بھی اللہ کی مدد آتی ہے ، جزع فزع کرنا نصرت الہی کے منافی ہے ۔ اس سلسلے میں صبر ایوب اعلی نمونہ ہے ۔ جو مومن صبر کے ساتھ رب ہی کو پکارتا ہے اور اسی سے امداد طلب کرتا ہے اسے اللہ تعالی ہر بلا سے نجات دیتا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے ساتھ ہمیشہ اللہ لگا رہتا ہے ۔ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ (البقرۃ:153)
ترجمہ: اے ایمان والو! صبر اور نماز کے ذریعہ مدد چاہو،اللہ تعالی صبر والوں کا ساتھ دیتا ہے ۔
(6) اللہ ہی پر توکل 
 انسان بے صبرا ہے ، تھوڑی سی مصیبت آتی ہے گھبرا جاتا ہے اور رب سے نجات مانگنے کی بجائے غیروں سے امداد طلب کرنے لگ جاتا ہے اور اسی پر توکل کر بیٹھتا ہے ۔ اگر کوئی مصیبت غیر اللہ کے در پر جانے سے ٹھیک ہو جائے تو اعتماد میں مزید پختگی آ جاتی ہے اور دوسروں کو بھی غیراللہ کے درپر جانے کی دعوت دیتا ہے ۔ یہاں ہمیں یہ جان لینا چاہئے کہ جو بھی جس دربار پہ بھی جائے اور جس سے بھی مانگے دینے والا صرف اللہ ہے ، آپ قبر پہ سوال کرکے یہ نہ سمجھیں ہمیں قبر والے نے دیا ہے ، دیتا تو اللہ ہی ہے چاہے آپ جائز طریقے سے مانگیں یا ناجائز طریقے سے ۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جائز طریقے سے مانگنے سے اللہ بخوشی دیتا ہے اور ناجائز طریقے سے مانگنے سے کبھی کبھی اللہ دے تو دیتا ہے بدلے میں اس کا ایمان چھین لیتا ہے ۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ جو لوگ پتھروں سے مانگتے ہیں ، مورتی بنا کراس سے مانگتے ہیں ان کی بھی عقیدت یہی ہوتی ہے کہ ہمیں مورتیوں نے دیا ہے ۔
مسلمان کو صرف اللہ پر ہی بھروسہ کرنا چاہئے ، یہ عبادت کے قبیل سے ہے اور توکل نصرت الہی کا سبب ہے ۔ 
إِن يَنصُرْكُمُ اللَّهُ فَلَا غَالِبَ لَكُمْ ۖ وَإِن يَخْذُلْكُمْ فَمَن ذَا الَّذِي يَنصُرُكُم مِّن بَعْدِهِ ۗ وَعَلَى اللَّهِ فَلْيَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُونَ (آل عمران :160)
ترجمہ: اگر اللہ تعالی تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آ سکتا ، اگر وہ تمہیں چھوڑ دے تو اس کے بعد کون ہے جو تمہاری مدد کرے ،ایمان والوں کو اللہ تعالی ہی پر بھروسہ رکھنا چاہئے ۔
اسی طرح ایک دوسری جگہ رب کا فرمان ہے : فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ (آل عمران:159)
ترجمہ: پھر جب آپ کا پختہ ارادہ ہو جائے تو اللہ تعالی پر بھروسہ کریں ، بیشک اللہ تعالی توکل کرنے والوں سےمحبت کرتا ہے ۔
یہ چند مثبت عوامل تھے جن سے انفرادی اور اجتماعی دونوں طرح کی زندگی میں اللہ کی نصرت و تائید حاصل ہوتی ہے ۔ نیز منفی عوامل سے گریز کرنا پڑے گا جن کا احاطہ اس چھوٹے سے مضمون میں مشکل ہے ۔ بطور خلاصہ یہ کہہ سکتا ہوں کہ ہم شرک و بدعت، فسق وفجور، اعمال قبیحہ ، فتنہ وفساد، ظلم وفساد، کفرونفاق اور حرام خوری(رشوت، سود، غبن، چوری، حرام پیشہ) وغیرہ سے بچیں اور اسلام کے سایہ تلے زندگی بسر کریں یعنی دین کو پوری طرح قائم کریں ،اللہ کا وعدہ ہے وہ ضرور ہماری مدد کرے گا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ (محمد:7)
ترجمہ: اے ایمان والو! اگر تم اللہ (کے دین ) کی مدد کرو گے تو وہ تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم رکھے گا۔
اجتماعی زندگی میں فتح ونصرت کے لئے مذکورہ بالا اسباب کے علاوہ مزید چند کام کرنے کی ضرروت ہے۔ ان میں سے ایک تمام مسلمانوں میں اتحاد (افتراق سے دوری)، دوسرا باہم مشاورت، تیسرامادی وسائل کی فراہمی (مجرب لشکر، جدید اسلحے، کارگردفاعی قوت) ،چوتھاعملی اقدام (جمود کا سدباب) اور پانچواں مسلک پرستی کا خاتمہ بالفاظ دیگر شریعت الہیہ کا نفاذ۔ سوچنے کا مقام ہے آج امریکہ پچاس ریاستوں کو ملا کر سپرپاور بنا ہوا ہے جبکہ ہمارے پاس 57 مسلم ممالک ہیں ہم کیوں نہیں سپرپاور؟ جبکہ مادی قوت کی بھی ہمارے پاس کمی نہیں۔
یاخیرالناصرین! قدم قدم پر تیری نصرت وتائیدکی ضرورت ہے تو ہمیں اپنی نصرت سے نواز دے، مسلم قوم ظالموں کے نرغے میں ہیں غیبی مدد کے ذریعہ توان کی حفاظت فرما اور دنیا میں دوبارہ ہمیں کافروں پرغلبہ دے ۔
آمین
مقبول احمد سلفی
داعی /اسلامک دعوۃ سنٹر-طائف

اللہ تعالی کو سب سے زیادہ محبوب کلمات

 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ دو کلمے ایسے ہیں کہ جو ( ادائیگی کے لحاظ سے) زبان پر ہلکے ہیں لیکن میزان میں یعنی اجر وثواب کے لحاظ سے قیامت کے دن کی ترازو میں) بھاری ہوں گے۔ ( اور) رحمن ( یعنی اللہ تعالیٰ) کے ہاں بہت محبوب ہیں ( اور وہ کلمات یہ ہیں) سبحان اللہ العظیم، سبحان اللہ و بحمدہ۔ ( بخاری ومسلم)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جس نے صبح کے وقت اور شام کے وقت سومرتبہ سبحان اللہ وبحمدہ کہا تو قیامت کے دن( اس حال میں) آئیگا کہ کوئی بھی اس سے افضل نہ ہوگا۔
 مگر یہ کہ جس نے اس کی مثل یا اس سے زیادہ کہا ہو گا۔ (مسلم)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ التبہ اگر میں سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر (ایک بار ) کہوں تو یہ مجھے ان سب چیزوں سے زیادہ محبوب ہے جن پر سورج طلوع ہوتا ہے۔( مسلم)

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں  کہ ( ایک دن) ہم رسول اللہﷺ کے پاس ( بیٹھے ہوئے) تھے، آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کیا تم اس سے عاجز ہو کہ ہر دن ہزار نیکیاں کمائو حاضرین مجلس میں سے کسی  نے عرض کیا کہ کس طرح ہم میں کوئی شخص روزانہ ہزار نیکیاں کما سکتا ہے آپ ﷺنے فرمایا کہ سو مرتبہ اللہ کی تسبیح بیان کرے ( یعنی سبحان اللہ کہے) تو اس کے لئے ہزار نیکیاں لکھی جائیں گی اور اس کی ایک ہزار برائیاں مٹا دی جائیں گی۔ ( مسلم)