مثالی گھرانہ

ہمارے معاشرے کے بہت سے خاندانوں میں مختلف طرح کے تنازعات پائے جاتے ہیں‘ جس کی ایک بڑی وجہ حقوق و فرائض سے لا علمی ہے۔ بہت سے گھروں میں والدین کے حقوق کے حوالے سے غفلت کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ایسے گھرانے بھی نظر آئیں گے جن میں والدین اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں غفلت کے مرتکب ہوتے ہیں اور اولاد کے درمیان صنفی بنیادوں یا اپنی پسند نا پسند کی بنا پر تفریق کی جاتی ہے‘ جس کی وجہ سے معاشرے میں مختلف طرح کے تنازعات جنم لیتے ہیں‘ نتیجتاً ایسے والدین اپنے بچوں سے بدگمان جبکہ بچے اپنے والدین کے بارے میں بدظنی کا اظہار کرتے ہیں۔ بدگمانی کا شکار یہ گھرانے زمانے کے نشیب و فراز اور مدوجزر کے دوران بکھر کر رہ جاتے ہیں۔ اس کے بالمقابل جن گھرانوں میں محبت‘ خیر خواہی اور خلوص اپنے عروج پر ہوتا ہے وہ گھرانے مستحکم ہوتے ہیں اور زمانے کے سرد و گرم کا مل جل کر مقابلہ کر پاتے ہیں۔

قرآن وسنت کے مطالعے کے بعد اس بات کو سمجھنا چنداں مشکل نہیں کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے والدین کے حقوق اور فرائض کا تعین کیا ہے جن کی معرفت حاصل کرنا مسلمان والدین کے لیے ازحد ضروری ہے۔ اگر ہم والدین کے حقوق و فرائض پر غور کریں تو بہت سی قیمتی اور مفید باتیں سامنے آتی ہیں۔ والدین کے حقوق کا جائزہ لیا جائے تو مندرجہ ذیل نکات سامنے آتے ہیں:

 ۔ والدین کے ساتھ احسان : والدین کے ساتھ احسان کا تقاضا یہ ہے کہ ان کی تابعداری کی جائے۔ نہ تو ان کے ساتھ بے ادبی والا معاملہ کیا جائے اور نہ ہی ان کو جھڑکا جائے۔ اُن کے سامنے اپنے کندھوں کو جھکا کر رکھا جائے اور ان کے لیے دعائے خیر کی جائے۔ سورہ بنی اسرائیل کی آیت نمبر 23‘ 24 میں والدین کے حقوق کی بڑی خوبصورت انداز میں وضاحت کی گئی ہے۔ ”اگر واقعی وہ پہنچ جائیں تیرے پاس بڑھاپے کو ان دونوں میں سے ایک یا دونوں تو مت کہہ ان دونوں سے اُف بھی اور مت ڈانٹ ان دونوں کو اور کہہ ان دونوں سے نرم بات اور جھکا دے ان دونوں کے لیے عاجزی کا بازو رحم دلی سے اور کہہ (اے میرے) رب رحم فرما ان دونوں پر جس طرح ان دونوں نے پالا مجھے بچپن میں‘‘۔ والدین کے حقوق کی اہمیت کو اجاگر کرنے والی احادیث میں سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے:

صحیح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا‘ تین شخص کہیں باہر جا رہے تھے کہ اچانک بارش ہونے لگی۔ انہوں نے ایک پہاڑ کے غار میں جا کر پناہ لی۔ اتفاق سے پہاڑ کی ایک چٹان اوپر سے لڑھکی (اور اس غار کے منہ کو بند کر دیا جس میں یہ تینوں پناہ لیے ہوئے تھے) اب ایک نے دوسرے سے کہا کہ اپنے سب سے اچھے عمل کا جو تم نے کبھی کیا ہو‘ نام لے کر اللہ تعالیٰ سے دعا کرو۔ اس پر ان میں سے ایک نے یہ دعا کی ”اے اللہ! میرے ماں باپ بہت ہی بوڑھے تھے‘ میں باہر لے جا کر اپنے مویشی چراتا تھا‘ پھر جب شام کو واپس آتا تو ان کا دودھ نکالتا اور برتن میں پہلے اپنے والدین کو پیش کرتا‘ جب میرے والدین پی چکتے تو پھر بچوں کو اور اپنی بیوی کو پلاتا۔

اتفاق سے ایک رات واپسی میں دیر ہو گئی اور جب میں گھر لوٹا تو والدین سو چکے تھے۔ اس نے کہا کہ پھر میں نے پسند نہیں کیا کہ انہیں جگاؤں بچے میرے قدموں میں بھوکے پڑے رو رہے تھے۔ میں برابر دودھ کا پیالہ لیے والدین کے سامنے اسی طرح کھڑا رہا یہاں تک کہ صبح ہو گئی۔ اے اللہ! اگر تیرے نزدیک بھی میں نے یہ کام صرف تیری رضا حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہمارے لیے اس چٹان کو ہٹا کر اتنا راستہ تو بنا دے کہ ہم آسمان کو تو دیکھ سکیں‘‘۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا؛ چنانچہ وہ پتھر کچھ ہٹ گیا۔ اسی طرح باقی دو مسافروں نے بھی بارگاہ الٰہی میں اپنے نیک اعمال کو پیش کیا؛ چنانچہ وہ غار پورا کھل گیا اور وہ تینوں شخص باہر آ گئے۔ اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کو جو کام بہت زیادہ پسند ہیں ان میں والدین کی خدمت بھی شامل ہے۔

 ۔ نافرمانی کے کاموں میں والدین کی اطاعت نہ کرنے کے باوجود ان سے حسن سلوک کرنا: قرآن وسنت کے مطالعہ سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ والدین اگر اولاد کو اللہ کی نافرمانی کا حکم دیں تو ان کی اطاعت تو نہیں کرنی چاہیے لیکن دنیاوی معاملات میں ان کے ساتھ حسن سلوک کو برقرار رکھنا چاہیے۔ اس حوالے سے اللہ تبارک وتعالیٰ سورہ لقمان کی آیت نمبر 15 میں ارشاد فرماتے ہیں: ”اور اگر وہ دونوں زور دیں تجھ پر اس پر کہ تو شریک ٹھہرائے میرے ساتھ (اُسے) جو (کہ) نہیں ہے تجھے اس کا کوئی علم تو تم اطاعت نہ کرو اُن دونوں کی اور سلوک کر اُن دونوں سے دنیا میں اچھے طریقے سے اور پیروی کر اُس شخص کے راستے کی جو رجوع کرتا ہے میری طرف‘ پھر میری ہی طرف لوٹنا ہے۔ تو میں تمہیں خبر دوں گا (اُس ) کی جو تم عمل کرتے تھے‘‘۔

والدین کے حقوق کے ساتھ ساتھ ان کی بہت سی اہم ذمہ داریاں بھی ہیں جن میں سے چند اہم درج ذیل ہیں

 ۔ ولادت سے پہلے نیک اولادکی دعا مانگنا: کتاب وسنت سے یہ بات ثابت ہے کہ انبیاء سابقہ نے اپنے لیے نیک اولاد کی دعا مانگی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا سورہ صفات کی آیت نمبر 100 میں مذکور ہیں: اے میرے رب تو عطا فرما مجھے (ایک لڑکا) نیکوں میں سے‘‘۔ اسی طرح اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورہ آل عمران کی آیت نمبر 38 میں حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا کا ذکر کیا ہے : ”اے میرے رب !عطا کر مجھے اپنی طرف سے پاکیزہ (صالح) اولاد بلاشبہ تو دعا کو سننے (قبول کرنے) والا ہے‘‘۔

 ۔ اچھا نام رکھنا: بچے کی ولادت کے بعد اُس کا اچھا نام رکھنا بھی والدین کی ذمہ داریوں میں سے ہے۔ احادیث مبارکہ سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ عبداللہ اور عبدالرحمن اللہ تبارک وتعالیٰ کے پسندیدہ نام ہیں۔ مسلمانوں کو اس طرح کے ناموں کے ساتھ ساتھ اپنی اولاد کے نام انبیاء علیہم السلام ‘ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور صلحاء رحمتہ اللہ علیہم کے ناموں پر رکھنے چائیں۔

 ۔ عقیقہ: ولادت کے ساتویں دن اپنی اولاد کا عقیقہ کرنا بھی مسنون ہے۔ صحیح بخاری میں سلمان بن عامر ضبی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا‘ آپﷺ نے فرمایا کہ لڑکے کے ساتھ اس کا عقیقہ لگا ہوا ہے اس لیے اس کی طرف سے جانور ذبح کرو اور اس سے بال دور کرو (سر منڈا دو یا ختنہ کرو)۔

 ۔ بچوں کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرنا: بچوں کی مناسب تعلیم اور تربیت کا اہتمام کرنا والدین کی اہم ذمہ داریوں میں سے ہے۔ بہت سے والدین اپنی پیشہ ورانہ اور معاشی سرگرمیوں میں اس حد تک مشغول ہو جاتے ہیں کہ بچوں کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے لاپروائی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہ بات کسی بھی طور پر درست نہیں ہے۔ انبیاء علیہم السلام اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین خیر کے کاموں میں اپنی اولاد کو بھی شریک کیا کرتے تھے۔

 ۔ اولاد کو اچھے کاموں کی نصیحت کرنا: اولاد کو اچھے کاموں کی نصیحت کرنا بھی والدین کی اہم ذمہ داری ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے سورہ لقمان میں حضرت لقمان کی بہت سی نصیحتوں کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے اپنی اولاد کوعقیدہ توحید‘ اقامت صلوٰۃ ‘ امر بالمعروف ونہی عن المنکر‘ صبر اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آنے کے حوالے سے کی تھیں۔ والدین کو ہمیشہ اچھے انداز میں اولاد کی اصلاح کے فریضے کو سر انجام دیتے رہنا چاہیے اور اس حوالے سے ان کی مشغولیات اور دوست احباب پر بھی گہری نظر رکھنی چاہیے۔

 ۔ بچوں کے لیے مناسب رشتوں کا اہتمام کرنا: بالغ ہو جانے کے بعد بچوں کے لیے مناسب رشتوں کا اہتمام کرنا بھی والدین کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ اچھے رشتے اولاد کی زندگی میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں۔اس مسئلے میں غفلت اور کوتاہی کے مرتکب والدین اپنی اولاد کو زندگی کے طویل سفر میں الجھا ہوا اور پریشان دیکھتے ہیں ‘جبکہ اپنی اولاد کے لیے مناسب رشتوں کا اہتمام کرنے والے والدین اپنے بچوں کے لیے امن وسکون اور راحت کو فراہم کرنے کا سبب بنتے ہیں۔

 ۔ اولاد کے لیے دعائیں کرتے رہنا: والدین کو اولاد کی دنیاوی اور اخروی کامیابی کے لیے دعائیں کرتے رہنا چاہیے۔ سورہ ابراہیم میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی بہت سی دعاؤں کا ذکر کیا ہے جو انہوں نے حضرت اسحاق اور اسماعیل علیہما السلام کے لیے کیں تھیں۔

 ۔ اولاد کے درمیان عدل کرنا: والدین کو اولاد کے درمیان عدل بھی کرنا چاہیے۔ اس حوالے سے ایک اہم حدیث درج ذیل ہے: صحیح مسلم میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ان کے والد انہیں لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا: میں نے اپنے اس بیٹے کو غلام تحفے میں دیا ہے جو میرا تھا‘ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: کیا تم نے اپنے سب بچوں کو اس جیسا تحفہ دیا ہے؟ انہوں نے کہا: نہیں‘ تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: اسے واپس لو۔ اسی طرح سنن ابی داود میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: اپنی اولاد کے درمیان انصاف کیا کرو‘ اپنے بیٹوں کے حقوق کی ادائیگی میں برابری کا خیال رکھا کرو (کسی کے ساتھ ناانصافی اور زیادتی نہ ہو) ۔ اگر مندرجہ بالا اصول وضوابط پر عمل کر لیا جائے تو گھروں میں ناچاقی اور نااتفاقی کا خاتمہ ہو سکتا ہے اور گھر امن وسکون کا گہوارہ بن سکتے ہیں۔

علامہ ابتسام الہٰی ظہیر

ہاتھ سے لکھا گیا ’دنیا کا طویل ترین‘ قرآن کا نسخہ

مصر میں سعد محمد کو تاریخ رقم کرنے کی امید ہے۔ انھوں نے تین سال کی
مسلسل محنت کے بعد قرآن کی ایک ایسی جلد تیار کی ہے جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ یہ دنیا میں سب سے بڑا قرآن ہے۔ انتہائی پیچیدہ فنکاری سے آراستہ یہ ہینڈ سکرول 700 میٹر طویل ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب یہ سکرول لپٹا ہوا نہیں ہوتا تو یہ معروف عمارت امپائر سٹیٹ بلنڈگ کی لمبائی سے تقریباً دو گنا بڑا ہے۔ قاہرہ کے شمال میں واقعہ بلکینہ کے قصبے کے رہائشی سعد محمد نے اس پروجیکٹ کے اخراجات خود اٹھائے ہیں۔

سعد محمد کو قرآن کی اس جلد سے بہت سی امیدیں وابستہ ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ قرآن کا یہ سکرول اتنا طویل ہے کہ اسے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں بطور طویل ترین ہاتھ سے لکھا گیا قرآن شامل کیا جائے۔ مگر اس کام کے لیے انھیں اس ریکارڈ کو شامل کروانے کی فیس جمع کروانی ہوگی۔ روئٹرز ٹی وی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ یہ قرآن سات سو میٹر طویل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں ایک عام سا آدمی ہوں۔ میرے پاس کوئی اثاثے نہیں ہیں۔‘
قرآن کی مختلف ریکارڈز والی دیگر جلدیں:
گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز کے مطابق دنیا کا قدیم ترین قرآن مشاف آف عثمان ہے جو کہ سنہ 655 میں تیار کیا گیا تھا اور اسلام کے تیسرے خلیفہ حضرت عثمان کے استعمال میں تھا۔ اس کے 705 صفحات کو ازبکستان میں محفوظ رکھا گیا ہے۔
2012 میں افغانستان میں قرآن کی ایک اور جلد شائع کی گئی جو کہ مکمل طور پر ہاتھ سے لکھی گئی تھی۔ اس کی لمبائی 2.2 میٹر اور چوڑائی 1.55 میٹر ہے۔
اس کے 218 صفحات ہیں اور اس کی بیرونی جلد 21 بکروں کے چمڑے سے بنائی گئی ہے۔ اس کا وزن 500 کلوگرام ہے اور اسے بنانے میں 5 سال لگے۔
ابھی تک کسی کے باس دنیا کا چھوٹا ترین قرآنی نسخہ بنانے کا ریکارڈ نہیں ہے تاہم 2012 میں متحدہ عرب امارات کے رہائشی نے اس کا دعویٰ کیا تھا جو کہ صرف 5.1 سینٹی میٹر لمبا اور 8 سینٹی میٹر چوڑا ہے۔

حج کے ارکان، واجبات اور سنتیں

الحمد للہ 

حج کے چار ارکان ، سات واجبات، اور ان دونوں کے علاوہ تمام افعال سنت ہیں

ان کی تفصیل درج ذیل ہے 

بہوتی رحمہ اللہ ” الروض المربع” (1/285) میں کہتے ہیں 
“حج کے ارکان چار ہیں 
 احرام یعنی حج اور عمرے کی نیت، اس کی دلیل حدیث مبارکہ ہے 
(بیشک اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے)
 میدان عرفات میں وقوف، اس کی دلیل حدیث مبارکہ 
(حج عرفہ میں وقوف کا نام ہے)

طواف زیارت، [اسی کو طواف افاضہ بھی کہتے ہیں] کیونکہ فرمان باری تعالی ہے

{وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ} اور وہ بیت العتیق کا طواف کریں۔[الحج : 29]
 سعی کرنا، اس کی دلیل حدیث مبارکہ ہے
(تم سعی کرو، کیونکہ اللہ تعالی نے تم پر سعی کو فرض قرار دیا ہے) احمد
حج افراد کے واجبات کی تعداد سات ہے
 
حاجی کیلئے معتبر میقات سے احرام باندھنا، یعنی مقررہ مخصوص جگہوں سے احرام کی چادریں زیب تن کرنا۔
 دن میں وقوف عرفہ کرنے والے کیلئے غروب آفتاب تک میدان عرفہ میں ٹھہرنا۔
 
حجاج کو پانی پلانے اور بوڑھے و خواتین حجاج کا خیال رکھنے والوں کے علاوہ
دیگر لوگوں کا ایام تشریق کی راتیں منی میں گزارنا۔
 حجاج کو پانی پلانے اور بوڑھے و خواتین حجاج کا خیال رکھنے والوں کے علاوہ دیگر لوگ اگر مزدلفہ میں رات کے ابتدائی نصف حصہ میں آجائیں تو آدھی رات کے بعد تک مزدلفہ میں قیام کرنا۔[کچھ اہل علم نے مزدلفہ میں رات گزارنے کو رکن قرار دیا ہے، چنانچہ اس صورت میں 10 تاریخ کی رات مزدلفہ میں گزارے بغیر حج نہیں ہوگا، ابن قیم رحمہ اللہ “زاد المعاد” (2/233) میں اسی بات کی طرف مائل نظر آتے ہیں
 ترتیب سے کنکریاں مارنا۔
 بال منڈوانا یا کتروانا
 طواف وداع کرنا
اور اگر کوئی حاجی حج تمتع کر رہا ہو یا حج قران کر رہا ہو تو اس کے ذمہ حج کی قربانی بھی واجب ہے، کیونکہ فرمانِ باری تعالی ہے
{فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ فَمَنْ لَمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ذَلِكَ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ
ترجمہ: جو شخص حج کا زمانہ آنے تک عمرہ کرنے کا فائدہ اٹھانا چاہے وہ قربانی کرے جو اسے میسر آ سکے۔ اور اگر میسر نہ آئے تو تین روزے تو ایام حج میں رکھے اور سات گھر واپس پہنچ کر، یہ کل دس روزے ہو جائیں گے۔ یہ حکم ان لوگوں کے لیے ہے جو مسجد الحرام (مکہ) کے باشندے نہ ہوں ۔ البقرة : 196 
عمرہ کے ارکان تین ہیں 
احرام [نیت]، طواف، اور سعی۔
عمرہ کے واجبات یہ ہیں 
بال منڈوانا یا کتروانا، اور میقات سے احرام کی چادریں زیب تن کرنا” انتہی
رکن، واجب، اور سنت میں فرق یہ ہے کہ رکن کے بغیر حج صحیح ہو ہی نہیں سکتا، جبکہ واجب کے چھوڑ دینے سے حج تو صحیح ہوگا لیکن جمہور اہل علم کے ہاں ایسے شخص کو دم دینا پڑے گا، جبکہ سنت پر عمل چھوٹ جائے تو اس پر کوئی حرج نہیں ہے۔
ان واجبات ، ارکان اور سنتوں کے دلائل و احکام جاننے کیلئے دیکھیں: ” الشرح الممتع ” (7/380-410 
واللہ اعلم 

توشہ ٔ آخرت

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا : قیامت کے دن ایک شخص کو ، (اس ذلت وضعف کی حالت میں)لایا جائیگا، جیسا کہ بھیڑ کا (کمزور ناتواں اورٹھٹھراہوا)بچہ ہوتا ہے ، اوراسے اللہ رب العزت کی بارگاہ میں کھڑا کردیا جائیگا، اللہ ذوالجلال والا کرام اس سے استفسار کریگا، میں نے تجھے مال عطاء کیا، خدام وحشم عطاء کیے ، تجھ پر اپنی نعمتوں کی بارش برسائی ، تو نے ان سب انعامات کے عوض کیا کارگرائی دکھائی ، وہ بندہ عرض کریگا، میں نے خوب مال واسباب جمع کیا، اس میں اپنی (کوشش وکاوش سے)خوب اضافہ کیا، اور جو آغاز میں میرے پاس تھا، اس سے بہت زیادہ کرکے چھوڑا ، اے میرے مالک تو مجھے دنیا میں واپس بھیج میں وہ تمام کا تمام تیری نذر کردوں گا
 ارشادہوا، تواس مال کے بارے میں وضاحت کر، جو تو نے اپنی زندگی میں (ذخیرئہ آخرت کے طور پر )آگے بھیجا ہو، وہ پھر اپنا پہلا کلام دہرائے گا کہ میرے پروردگار میں نے خوب مال جمع کیا، اور اس میں خوب اضافہ کیا، جتنا شروع میں تھا، اس سے بہت زیادہ بناکر چھوڑا، مجھے دنیا میں واپس کردے ،تاکہ میں سب لیکر حاضر ہوجائوں (یعنی اب صدقہ وخیرات میں صرف کردوں تاکہ یہاں میرے پاس آجائے اوراسے اللہ رب العزت کے سامنے پیش کروں)چونکہ اسکے پاس تو ذخیرہ ایسا نہ نکلے گا، جو اس نے آگے بھیجا ہو(اوروہ توشہء آخرت بن سکے) لہٰذا اس پاداش میں اسے جہنم میں پھینک دیاجائے گا، (صحیح سنن ترمذی) ایک روایت میں آتا ہے کہ جب انسان مرجاتا ہے تو فرشتے یہ سوال کرتے ہیں کہ اپنے حساب میں کیا ذخیرہ جمع کرایا ہے کیا چیز کل (قیامت ) کیلئے بھیجی ہے جبکہ لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ کتنا مال چھوڑ کر گیا ہے ۔ مشکوٰۃ 
حضرت عمر وبن شعیب علیہ الرحمۃ اپنے والد سے اوروہ اپنے جدامجد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے ارشادفرمایا : اس امت کی صلاح کی ابتداء (اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات پر ) یقین اوردنیا سے بے رغبتی کے ساتھ ہوئی اوراس فساد کی ابتداء بخل اورلمبی لمبی امیدوں سے ہوگی۔ (شعب الایمان : امام بیہقی ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ایک مرتبہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لائے۔ اُنکے سامنے کھجور وں کا ایک ڈھیر لگا ہوا تھا، آپ کی دریافت فرمایا کہ بلال یہ کیا ہے؟ انھوں نے عرض کیا، حضور والا ، یہ آئندہ کی ضروریات کیلئے ذخیرہ (اورپیش بینی )کے طور پر رکھ لیا ہے، آپ نے فرمایا : اے بلال ! تم اس بات سے نہیں ڈرتے کہ اسکی وجہ سے تم کل قیامت کے دن جہنم کی آگ کا دھواں دیکھو، بلال (کشادہ دلی سے)خرچ کر ڈالو اورعرش والے (پروردگار)سے کمی کا اندیشہ نہ کرو۔ شعب الایمان